Inception meeting for promotion of ethical tourism in Kalash Valley

کالاش وادی میں اخلاقی سیاحت کے فروغ کے لیے انسپشن میٹنگ

کالاش وادی میں سیاحت کے بہتر انتظام اور مقامی ثقافت کے تحفظ کے لیے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ کلاشا پیپلز ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (KPDN) کے زیر اہتمام اور اے کے آر ایس پی کے تعاون سے بمبوریت (موموریت) میں “کالاش وادی میں اخلاقی سیاحت” کے موضوع پر ایک روزہ پروجیکٹ انسپشن میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں سرکاری و نجی اداروں کے نمائندوں، ٹور آپریٹرز، گائیڈز، طلبہ اور مقامی کمیونٹی کے افراد نے شرکت کی۔ میٹنگ کا مقصد وادی میں پائیدار اور ذمہ دار سیاحت کے فروغ کے لیے ایسی حکمتِ عملی تیار کرنا تھا جس کے ذریعے سیاحوں کو معیاری سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی اقدار اور روایات کا تحفظ بھی یقینی بنایا جا سکے۔ اس موقع پر چھ ورکنگ گروپ تشکیل دیے گئے جنہوں نے چارٹس کے ذریعے تجاویز پیش کیں۔ سفارشات میں سیاحتی مقامات پر صفائی، انفارمیشن پوائنٹس کا قیام، مقامی گائیڈز کی تربیت اور سیاحوں کے لیے اخلاقی ضابطۂ اخلاق کی تیاری شامل تھی۔

تقریب میں ٹورزم ڈیپارٹمنٹ، کالاش ویلز ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پولیس، میوزیم، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ ٹور آپریٹرز اور ٹور گائیڈز نے بھی بھرپور شرکت کی۔ شرکاء نے تجویز دی کہ دوباژ چیک پوسٹ پر ٹورزم انفرمیشن کاؤنٹر ریسیپشن قائم کیا جائے تاکہ سیاحوں کی رجسٹریشن، معلومات کی فراہمی اور ہجوم کے بہتر انتظام کو ممکن بنایا جا سکے۔ منصوبے کے تحت سیاحوں کے لیے اخلاقی ضابطۂ اخلاق تیار کیا جائے گا، مقامی نوجوانوں کو گائیڈ اور میزبان کے طور پر تربیت دی جائے گی، اور کمیونٹی و سیاحوں کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے آگاہی سیشنز رکھے جائیں گے۔ اسی منصوبے کے تحت یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے لیے تین روزہ ورکشاپ جبکہ ٹور گائیڈز کے لیے خصوصی تربیتی سیشنز کا انعقاد بھی کیا جائے گا تاکہ سیاحت کی مثبت تشہیر اور معیاری رہنمائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ میٹنگ کے اختتام پر شرکاء نے اس اقدام کو وادی کی معیشت اور ثقافت دونوں کے لیے خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس کی کامیابی کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

Inauguration of Berry Honey Processing Unit and International Laboratory at Kirk

کرک میں بیری شہد پروسیسنگ یونٹ اور انٹرنیشنل لیبارٹری کا افتتاح

صوبائی وزیر زراعت میجر ریٹائرڈ سجاد بارکوال نے کرک میں بیری شہد پروسیسنگ یونٹ اور انٹرنیشنل کوالٹی ٹیسٹنگ لیبارٹری کا افتتاح کر دیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر نے کہا کہ بیری شہد اپنی منفرد کوالٹی اور ذائقے کے باعث انٹرنیشنل سطح پر مشہور ہے اور اس صنعت کو مزید ترقی دے کر صوبے کی معیشت میں نمایاں اضافہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا اس وقت 6 میٹرک ٹن شہد پیدا کر رہا ہے جس میں سے صرف کرک سے 3 میٹرک ٹن حاصل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں دو پروسیسنگ پلانٹ نصب کیے جا چکے ہیں، ترناب کے بعد دوسرا پلانٹ کرک میں لگایا گیا ہے جس سے شہد کی پروسیسنگ اور معیار میں مزید بہتری آئے گی۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر بانی پی ٹی آئی کے تمام پراجیکٹس مکمل کیے جائیں گے۔ ایک سال کے دوران زراعت میں انقلابی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور زمینداروں کے تعاون سے آئندہ سال کے اندر ترناب فارم سے بھی زیادہ پیداوار حاصل کی جائے گی۔

Wisal Muhammad Khan

نظام نہیں، خودکوبدلناہوگا

وصال محمدخان
دولت،طاقت اوراقتدارکی حصول کیلئے ماراماری کاسلسلہ ازل سے جاری ہے اورتاابدجاری رہے گا۔حضرت انسان جب سیاست اور جمہوریت سے نابلدتھاتب بھی وہ اقتدارکیلئے گردنیں کاٹتاتھااوراب جبکہ یہ متمدن ہوچکاہے اوردعویٰ کیاجاتاہے کہ موجودہ دورکاانسان شائدتاریخ کاسب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے۔اب انسان مشرق میں بیٹھ کرمغرب میں اپنے دشمن کوباآسانی نشانہ بناسکتاہے برسوں کاسفر گھنٹوں میں طے کرلیتاہے سمندرکی تہہ اورخلاکی وسعتوں کوتسخیرکررہاہے مگراقتدارکی حصول کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں کاسلسلہ اب بھی پوری آب وتاب کیساتھ جاری ہے۔سیاسی اورجمہوری دورمیں قدم رکھنے کے بعدانتقال اقتدارکاکٹھن مرحلہ قدرے آسان ہوامگراقتدارکی لالچ اورحرص نے انسان کوہردورمیں رسوا کیااوراس سے مضرحرکات سرزدہوئیں جس سے جمہوری نظام بھی تنقیدکی زدمیں آیا۔وطن عزیز میں نظام کوکوسنے کارواج عام ہے یہاں بطورفیشن نظام کودوچاربے نقط سنائی جاتی ہیں حالانکہ جونظام یہاں رائج ہے اسی ملتے جلتے یااسی طرز کے نظاموں سے دنیاکے بیشترممالک اونچامقام حاصل کرچکے ہیں۔نظام کوئی بھی ہواسے چلانے والے افراداہم ہوتے ہیں بھارتی پائلٹس نے دنیاکے جدیدترین فائٹرجیٹ کورسواکیاکیونکہ وہ اسے چلانے کی اہلیت سے عاری تھے۔موجودہ پارلیمانی نظام خاصی جدوجہد کے بعدوجودمیں آیاہے چندچھوٹی موٹی خامیوں سے قطع نظراس نظام سے ملک چلائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ اسے چلانے والے افرادمخلص ہوں اورانکی اہلیت کالیول بھارتی پائلٹس سے اونچاہو۔یہاں نظام کومحض اقتدارکی حصول کیلئے استعمال کیاجاتاہے اوربعدمیں اس سے کھلواڑ کیاجاتاہے ایسے میں نظام کاتیاپانچہ توہوناہی ہے۔سپریم کورٹ کے ججزجھکاؤرکھنے لگے جس سے نظام نے مفلوج ہوناہی تھا اعلیٰ عدلیہ کے جج جب اقتدارکی ایوانوں میں داخل ہوجائیں یااقتدارکی کھینچاتانی میں اپناوزن کسی پلڑے میں ڈال دیں تونظام ناکام ہی ہوگا اس سوارخ کوبندکرنے کیلئے آئین میں ترامیم کی گئیں جس پربہت سے حلقے معترض ہیں کہ اس سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کمزور ہوئی ہے اسکے خلاف سپریم کورٹ میں فل کورٹ کی استدعاکی جارہی ہے جس کاواضح مقصدہے کہ ایک بارپھرعدلیہ اورپارلیمان یا انتظامیہ کو لڑانے کی سازش ہورہی ہے۔جب آئین میں ترمیم کرناحکومت اورپارلیمان کاآئینی حق ہے تویہ حق استعمال کرکے ترامیم کی گئیں ہیں اب اس پرسیاست چمکانااوریہ تاثرابھارناکہ یہ ترامیم بنیادی انسانی حقوق اورنجانے کس کس کی خلاف ورزی ہے اسلئے انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔آئین میں دئے گئے طریقہ کارکے مطابق کی گئی ترامیم اگرفل کورٹ کالعدم قراردیتی ہے اس کامقصدیہی ہوگاکہ منتخب پارلیمنٹ نہیں عدلیہ سپریم ہے مگردوسری جانب عدلیہ کے بعض ججزآئین میں ترمیم بلکہ اس میں اپنی جانب سے اضافہ بھی فرمارہے ہیں۔ اسی طرح سیاستدانوں کوحکومت ملتی ہے تووہ کرپشن اوراقرباپروری کابازارگرم کردیتے ہیں افسرشاہی الگ سے ملک اورنظام کیساتھ کھلواڑمیں مصرو ف ہے۔جب کوئی نظام اس قدربے دردی سے نوچاکھسوٹاجارہاہوتواس نظام نے ڈیلیورکیاکرناہے اوراس سے کسی ملک یاقوم نے ترقی کیاکرنی ہے؟آپ دنیاکی جدیدترین اورمہنگی کارلے آئیں مگراسکے انجن آئل میں تھوڑی سی ریت ڈال دے کیایہ گاڑی چل سکے گی؟ بالکل نہیں بلکہ تھوڑے ہی سفرمیں اس کاانجن جام ہوجائیگااورریڈی ایٹرسے دھواں اٹھناشروع ہوجائیگا۔بالکل یہی عمل ہمارے ہاں پارلیما نی نظام حکومت کیساتھ روارکھاجارہاہے۔سیاستدان عوام سے ووٹ لیکرنظام حکومت میں گھس جاتے ہیں اوراسے اندرسے کھوکھلاکرنے میں جت جاتے ہیں،جج موٹی موٹی کتابیں پڑھ کراوراعلیٰ تعلیم حاصل کرکے عہدے پرمتمکن ہوجاتے ہیں اور پسند ناپسندکاشکارہوکرنظام کے انجن میں مٹی اورریت بھرتے ہیں اسی طرح بیوروکریسی جائزوناجائزطریقے اپناکرعہدے پرپہنچ جاتے ہیں اورنظام میں گھس کراسے دیمک کی طرح چاٹناشروع کردیتے ہیں۔جب کوئی نظام چاروں طرف سے نوچاجارہاہوتواس نے ڈیلیورکیاکرناہے اورمسائل کیاحل کرنے ہیں؟اسلئے اچھابھلانظام ناکارہ اورمفلوج کیاجاچکاہے بلکہ اسے طاقتوروں کی باندی بنا دیا گیاہے جواس سے اپنی مرضی کے مطابق کھیلتے رہتے ہیں۔جب تک ہم بطورقوم اپنے روئیوں پرنظرثانی نہیں کرتے،جب تک ہم اپناقبلہ درست نہیں کرلیتے،جب تک ہم اس ملک کومفتوح ملک کی بجائے اپناملک اوراپنی ملکیت نہیں سمجھ لیتے،جب تک ججزسیاسی جھکاؤترک نہیں کرتے،جب تک بیوروکریسی نظام کو موم کی ناک بناکراسے توڑنے مروڑنے سے بازنہیں آتی اورجب تک سیاستدان خودکوملک لوٹنے کے لائسنس عطاکرناترک نہیں کردیتے تب تک ہم نظام کوکوستے رہیں گے نت نئے نظام اپنانے کے بارے میں غوروفکرکرتے رہیں گے۔ کسی کنویں میں اگرکتاگرکرمرگیاہے تو چاہے دس ہزارڈول پانی نکالاجائے جب تک کتے کی لاش باہرنہیں نکالی جاتی تب تک پانی نہ ہی پاک ہوگااورنہ ہی استعمال کے قابل ہو گا ۔ وطن عزیزمیں پارلیمانی نظام حکومت کورائج ہوئے نصف صدی گزرچکی ہے جس میں دوعشرے آمریت کی نذرہوچکے ہیں باقی کے عرصے میں نظام نے اچھاخاصاڈیلیورکیاہے اتنے مختصرعرصے میں کسی ملک نے اتنے اہداف حاصل نہیں کئے۔مگرآئے روزنظام کوبدلنے کے نعر ے سننے کوملتے ہیں۔حالانکہ جولوگ نظام بدلنے کے دعوے کرتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں انہی لوگوں نے اس نظام کابیڑاغرق کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی انہی لوگوں کودنیاکاکوئی بھی نظام دیاجائے انکے پاس چونکہ عقل وفہم،دانش وتدبراورمعاملہ فہمی کی صلاحیت موجود نہیں۔نظام کی تباہی کے ذمہ داربطورفیشن ”نظام بدلیں گے“کے دعوے کرتے ہیں۔نظام یہی بہترین ہے ہمارے ہاں عوام،سیاستدانوں،بیوروکریسی اورججزکو اپنے روئیوں پرنظرثانی کرنیکی ضرورت ہے اگرتمام افرادخلوص کامظاہرہ کریں،ہرفرداپنی ذمہ داری خلوص سے انجام دے،لوٹ کھسوٹ اورپسندوناپسند سے توبہ تائب ہوجائیں تواسی نظام میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت موجودہے۔بس اسے چلانے کیلئے نااہلوں کی نہیں اہل قابل،مخلص اورمحب وطن افرادکی ضرورت ہے اگریہ افراد میسر آجائیں توجس طرح ہم نے دنیاکی ایک بڑی طاقت کوچندمنٹوں میں زیرکیااسی طرح اس ملک کوبھی اونچامقام دلا سکتے ہیں۔ نظام نہیں خودکوبدلناہوگا۔

Youtube Thumbnails (2)

بدامنی ، ری الایمنت اور قومی بیانیہ

ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستان نہ صرف دہشت گردی ، میڈیا وار فیر اور پراکسیز کے متعدد نئے چیلنجز سے دوچار ہے بلکہ خطے میں اس کی بڑھتی اہمیت کے تناظر میں اگر تمام اسٹیک ہولڈرز نے ذمہ داری اور یکجھتی کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کے لئے مستقبل قریب میں استحکام اور ترقی کے نئے راستے کھلنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں ۔
سینئر صحافی حسن خان کے مطابق یہ بات تشویش ناک ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اپنے بانی کی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف خیبرپختونخوا میں امن کے قیام کی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرپارہی بلکہ مہاجرین کی واپسی کے معاملے پر بھی وفاقی حکومت اور اداروں سے تعاون نہیں کررہی حالانکہ مہاجرین کی اکثریت اپنی مرضی اجے مطابق کسی ناخوشگوار صورتحال یا واقعے کے واپس جارہی ہے ۔ ان کے مطابق یہ بات افسوسناک ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی اے این پی اور فورسز کی قربانیوں پر طعنے دینے کی پالیسی پر گامزن ہے اور دہشت گردوں کے علاؤہ افغان حکومت کی وکالت بھی کی جارہی ہے ۔
علاقائی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام کے مطابق دنیا میں ایک نئی گریٹ گیم کا آغاز ہوگیا ہے اور پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیّت کے باعث ایک بار پھر سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ایسے میں جاری حالات کو اگر بہتر انداز میں ڈیل کرنے کی کوشش کی گئی اور بدامنی ، سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کیا گیا تو پاکستان کی تعمیر نو اور ترقی کی راہ ہموار ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔ ان کے بقول غزہ ، ایران اور اب قطر کے معاملے پر پاکستان نے جو جرآت مندانہ اور حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا اس نے اس کی اہمیت کے علاؤہ وقار میں بھی اضافہ کردیا ہے ۔
سینئر سیاستدان سینٹر زاہد خان کے مطابق خیبرپختونخوا ور بلوچستان میں جاری دہشت گردی نے پاکستان کی سیکورٹی صورتحال کو مزید پیچیدہ اور تشویش ناک بنادیا ہے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اسٹیک ہولڈرز اب بھی بوجوہ ایک پیج پر نہیں ہیں جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت اپنے بانی ” طالبان خان” کی پرو طالبان پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ زاہد خان کے بقول جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت ایک پیج پر نہیں آتے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے ۔
سینئر صحافی نجم سیٹھی نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ عمران خان سیکیورٹی فورسز کی جاری کارروائیوں اور افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو ایک آخری داؤ کے طور پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کررہے ہیں اور اسی تناظر میں انہوں نے اپنے وزیر اعلیٰ گنڈاپور کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کی وارننگ دے رکھی ہے تاہم گنڈاپور ان کی ہدایات پر عمل نہیں کررہے اور اب انہوں نے یہ ” بہانہ” بنادیا ہے کہ ان کے پاس افغانستان جانے کے لئے پاسپورٹ نہیں ہے کیونکہ ان کو بھی پتہ ہے کہ مذاکرات وغیرہ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا نہیں ہے ۔