ڈپٹی کمشنر کوہاٹ کی زیر صدارت افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے انتظامات سے متعلق ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں ضلعی انتظامیہ کے افسران، ڈی اے افغان مہاجرین، افغان مہاجرین کے مشران اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لیے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا اور اس حوالے سے کیے گئے اب تک کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر کوہاٹ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کو منظم اور مؤثر انداز میں آگے بڑھایا جائے، تاکہ کسی بھی قسم کی دشواری یا رکاوٹ پیش نہ آئے۔ انہوں نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ اس عمل میں قریبی رابطہ اور باہمی تعاون کو یقینی بنایا جائے اور تمام ضروری اقدامات بروقت مکمل کیے جائیں۔ ڈپٹی کمشنر کوہاٹ نے مزید کہا کہ افغان مہاجرین کی باعزت اور محفوظ وطن واپسی کے لیے جامع حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ یہ عمل شفاف اور ہموار انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔
شہید کانسٹیبل فصیح الدین کی نمازِ جنازہ سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا
چارسدہ – تھانہ پڑانگ کی حدود درب ماجوکے میں خطرناک اشتہاری ملزمان کی فائرنگ سے شہید ہونے والے کانسٹیبل فصیح الدین خان کی نمازِ جنازہ پولیس لائن چارسدہ میں سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ میں ریجنل پولیس آفیسر مردان جواد قمر، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چارسدہ محمد وقاص خان، ڈپٹی کمشنر چارسدہ ڈاکٹر عظمت اللہ خان، سرکل ایس ڈی پی اوز، ایس ایچ اوز، پولیس افسران اور جوانوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی۔ پولیس کے چاق و چوبند دستے نے شہید کو سلامی پیش کی، جبکہ افسران نے پھولوں کے گلدستے رکھ کر شہید کی عظیم قربانی کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ بعد ازاں شہید کا جسدِ خاکی ان کے آبائی گاؤں درگئی سرڈھیری روانہ کیا گیا۔ شہید اپنے پسماندگان میں تین بچے چھوڑ گئے ہیں۔ اس موقع پر آر پی او مردان جواد قمر نے کہا کہ شہید کانسٹیبل فصیح الدین خان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہداء پولیس فورس کا فخر ہیں اور ان کی لازوال قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
دہشت گردی سے متاثرہ اقلیتی خاندانوں کے لیے مالی معاونت کا فیصلہ
محکمہ اوقاف و مذہبی امور خیبرپختونخوا نے دہشت گردی سے متاثرہ اقلیتی خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے عملی اقدام اٹھا لیا ہے۔ اس سلسلے میں صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 2013 سے اب تک متاثر ہونے والے اقلیتی خاندانوں کا مکمل ڈیٹا 10 دن کے اندر فراہم کریں۔ محکمہ اوقاف کی جانب سے جاری خط کے مطابق اس اقدام کا مقصد صوبے کے مختلف اضلاع میں متاثرہ خاندانوں کے حوالے سے جامع معلومات اکٹھی کرنا ہے تاکہ انہیں مالی معاونت فراہم کرنے کا عمل مؤثر اور شفاف بنایا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے فوکل پرسن برائے اقلیتی امور وزیر زادہ نے کہا ہے کہ امکان ہے کہ ستمبر کے اختتام تک وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس طلب کیا جائے گا، جس میں متاثرہ خاندانوں کے لیے مالی معاونت کے حوالے سے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بالخصوص آل سینٹ چرچ پشاور کے شہداء اور متاثرین پر مرکوز ہے۔ وزیر زادہ کے مطابق “دہشت گردی کے متاثرین کی بحالی کا ایکٹ 2020 میں منظور ہوا تھا اور 2021 میں قواعد نافذ کیے گئے تھے، لیکن بدقسمتی سے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور طویل عرصہ قائم رہنے والی نگران حکومت کے دوران یہ عمل معطل اور نظرانداز رہا۔” وزیر زادہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اس عمل کو دوبارہ فعال کر دیا ہے اور متاثرہ خاندانوں کو ان کے حق کا ریلیف فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش شروع کر دی ہے۔