Wisal Muhammad Khan

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

وصال محمدخان
بدقسمتی سے خیبرپختونخواکے کچھ اضلاع دہشت گردی کاگڑھ بن چکے ہیں۔آئے روزسیکیورٹی فورسزپرحملے ہو رہے ہیں فورسزکی جانب سے جوابی کارروائیوں میں ایک ہفتے کے دوران 50کے قریب دہشت گردجہنم واصل ہوئے جبکہ ارض ِپاک کے 19سپوت جام شہادت نوش کرگئے۔بنوں میں شہیداہلکاروں کی نماز جنازہ میں آرمی چیف جنرل عاصم منیراوروزیراعظم شہبازشریف نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم کاکہناتھاکہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے ہورہی ہے یہ معاملہ بارہاسفارتی سطح اٹھایا گیاہے مگرافغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں تساہل سے کام لے رہی ہے انہوں نے سخت اوردوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہاکہ افغانستان کوفتنۃ الخوارج اورپاکستان میں سے کسی ایک کاانتخاب کرناہوگا۔وزیراعظم اورآرمی چیف نے بنوں میں شہداء کے جنازوں میں شرکت کی مگر وزیراعلیٰ نے حسب ِسابق ایسی کوئی ترددگوارانہیں کی اس عمل کوعوامی اورسیاسی حلقوں میں کڑی تنقیدکانشانہ بناکر ناپسندیدگی کااظہارکیا گیا۔ حکمران جماعت کے کرتادھرتاکنفیوژن کاشکارہیں وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ صوبے اورملک کومنظم بیرونی دہشت گردی کاسامناہے مگروہ سب کچھ دیکھتے ہو ئے بھی ذمہ داری اورحب الوطنی کامظاہرہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ریاست کوایک فتنے کاسامناہے وہ آپریشن روکنے اور اسکی حمایت نہ کرنے کے بیانات جاری کرتے ہیں تودوسرے ہی لمحے حمایت میں بیان داغ دیتے ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ آپریشن کی حمایت اورتعاون نہ کرے جو افسوسناک ہے ریاست حکومت اورفوج کودباؤمیں لانے کیلئے جو حربے آزمائے جارہے ہیں یہ قومی مفادکے منافی ہیں۔ اس سے یہ تاثرپختہ ہورہاہے کہ پی ٹی آئی اپنی سیاست چمکانے اورسیاسی مفاد کیلئے کسی بھی حدتک جاسکتی ہے حتیٰ کہ ملکی سلامتی کوبھی داؤ پر لگانے سے گریزنہیں کیاجارہا۔ سیا ستدا ن چومکھی لڑائی کی بجائے دانش اورتدبرکوبروئے کارلاکرنا ممکن کوممکن بناتے ہیں کیونکہ سیاست کوممکنات کاکھیل کہاجاتاہے۔ یہ امر باعث تعجب ہے کہ عمران خان افغانستان اورکالعدم ٹی ٹی پی جیسی شدت پسنداورانسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث تنظیم کیساتھ تو مذا کرات چاہتے ہیں مگر حکومت سے مذاکرات کے حامی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جائز وناجائز حربوں سے زچ کرکے ریاست کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیں گے مگریہ تھیوری گزشتہ دوچار برسوں سے ناکام چلی آرہی ہے۔ اسکے باوجودہارے ہوئے جواری کی طرح اگلاداؤضرورجیتوں گاکاراگ الاپاجارہاہے۔بہرحال اب وفاق بھی صوبائی حکومت کوا فغا نستا ن کیساتھ مذاکرات کاموقع فراہم کررہی ہے ویسے تویہ مشق پہلے بھی دہرائی جاچکی ہے لیکن اگرصوبائی حکومت اورپی ٹی آئی کوخوداورافغان حکومت پرضرورت سے زیادہ بھروسہ ہے تو آزمانے میں کوئی حر ج نہیں مگریہ مذاکرات شدت پسندوں کویہاں دوبارہ بسانے،جیلوں سے رہاکروانے یا ضم قبائلی اضلاع کاانضمام واپس لیکرانکے حوا لے کر نے کی قیمت پرنہیں ہونے چاہئیں۔ٹی ٹی پی والے آئین پاکستان کونہیں مانتے،قبائلی اضلاع کے انضمام کی وا پسی کے آرزومندہیں بلکہ واضح الفاظ میں ان علاقوں پرقبضہ کرناچاہتے ہیں جوریاست،حکومت، فوج اورقوم میں سے کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ افغانستان سے رابطے کیلئے وفاق سے پیغام ملاہے اب مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینے کامرحلہ درپیش ہے اطلاعات کے مطابق وفاق کی جانب سے نام سامنے آنے پرصوبائی حکومت بھی اپنے نام پیش کردے گی اور اسکے بعدیہ مشترکہ کمیٹی افغانستان کیساتھ مذاکرات کریگی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے محمودخان اچکزئی کووفدکاسربراہ مقررکرنے کاعندیہ دیاگیاہے جوزیادہ متاثرکن نہیں افغان طالبان پاکستان کے سیکولرسیاستدانوں کو اہمیت نہیں دیتے پہلے بھی انکے ساتھ مذاکرات کیلئے مولانا فضل الرحمان اورمولاناسمیع الحق جیسی شخصیات نے کردار ادا کیا۔مختلف مواقع پر عوامی نیشنل پارٹی،آفتاب شیرپاؤاورجماعت اسلامی بھی اس مشق ِلاحاصل کاحصہ بن چکے ہیں۔مگرافغانستان کیساتھ مذاکرات کی تاریخ زیادہ خوش کن نہیں اوراس سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنا قرین قیاس نہیں۔افغان طالبان کاگزشتہ چارسال سے یہی وطیرہ رہاہے کہ وہ پاکستان کوتعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں مگر ٹی ٹی پی اور پاکستان میں سرگرم دیگرتنظیموں کوبھی ناراض نہیں کرناچاہتے نیم دروں نیم بروں والامعاملہ چارسال سے جاری ہے۔اسی لئے ٹی ٹی پی اور دیگرگروہ اب تک ڈٹے ہوئے ہیں اور پاکستا ن میں حملے بھی کر رہے ہیں۔عوامی سطح پربھی اب دہشتگردی کامقابلہ کیاجارہاہے۔گزشتہ ہفتے کرک کے علاقے بانڈہ داؤدشاہ میں شدت پسندوں نے ایک گھرسے زبردستی کھاناطلب کیااہلخانہ نے کھانے میں زہرملادیاجس سے 14 دہشت گرد (ایک افغانی اور13پاکستانی) ہلاک ہوئے تمام ہلاک شدگان کاتعلق کمانڈرکلیم وزیرگروپ سے تھا،نعشیں سیدولی نامی دہشتگر د کے حجرے میں رکھی گئیں،جودہشت گردی کے اڈہ کے طورپراستعمال کیاجارہاتھا،حجرے کامالک سیدولی بھی مرنیوالوں میں شامل ہے۔ سوشل میڈیااورعوامی سطح پرمالک مکان کایہ اقدام سراہاجارہاہے اورحکومت سے مطالبہ کیاجارہاہے کہ اہلخانہ کوتحفظ فراہم کیاجائے۔
وزیر اعلیٰ نے 27ستمبرکوپشاورمیں جلسے کااعلان کردیاہے۔اسی دن کارکنوں سے کہاگیاہے کہ وہ مشن نورکے تحت اپنے گھروں کی چھتوں پر آذان دیں۔ وزیر اعلیٰ کاکہناہے کہ 9مئی واقعات کے بعدان کاپاسپورٹ بلاک کیاگیاہے جوتاحال نہیں ملاانہوں نے پاسپورٹ کی حصول کیلئے عدالت سے بھی رجوع کررکھاہے۔گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ کابینہ ارکان کیساتھ اڈیالہ جیل گئے اس سے قبل یہ دعویٰ کیاگیاتھاکہ وہ اڈیالہ جیل کے باہرکابینہ اجلاس منعقدکرینگے مگرانہوں نے وہاں بیانات جاری کرنے پراکتفاکیا۔حکومت نے اسلام آبادکی دوسری جانب ہری پورکی حدودمیں ایک نیاکے پی ہاؤس تعمیرکرنے کیلئے 50کروڑروپے کی خطیررقم جاری کردی ہے۔مبینہ طورپریہ ہاؤس اس راستے پر تعمیرکیاجائیگاجس سے وزیراعلیٰ بارہ ضلعے عبورکرکے پشاورپہنچے تھے۔ سیلاب اوردہشتگردی سے متاثرہ صوبے کواس قسم عیاشیاں زیب نہیں دیتیں۔اسے صوبے کی جانب سے وفاق کے خلاف ایک مورچے کے طورپراستعمال کرنیکاخدشہ ہے جواچھاپیغام نہیں۔دانشمندی کاتقاضا ہے کہ یہ منصوبہ ترک کیاجائے کیونکہ صوبے کی ملکیت میں اسلام آبادکے پی ہاؤس کے علاوہ نتھیاگلی،ایبٹ آباداوردیگرکئی مقامات پر بیش قیمت اورلگژری ہاؤسز موجود ہیں یہ اقدام واضح طورپرقومی دولت کاضیاع ہے۔