وصال محمدخان
گزشتہ10مئی سے قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ پاکستان آسمانِ دنیاپرایک چمکتادمکتاستارابن کرابھرے گا۔پاکستان کودنیامیں اگر کوئی اہمیت حاصل تھی تومسلم دنیااسے ایک ایٹمی قوت کے طورپرقدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے دنیاکاتقریباًہرمسلمان پاکستانی ایٹم بم کواپنابم سمجھتاہے اسلئے ناقدین نے اسے اسلامی بم کانام دیا۔دنیابھرکے مسلمان اس بات پرشاداں وفرحاں ہیں کہ ایک مسلم ملک پاکستان ایٹمی طاقت ہے اوراسکے عوام دنیاکے ہرمسلمان کی دکھ کواپنادکھ سمجھتے ہیں اسلئے ضرورت پڑنے پرپاکستان کسی بھی مسلم ملک کیساتھ کھڑاہوتاہے۔ پاکستان روزِاول سے ہی مسلمان ممالک کیساتھ قریبی دوستانہ تعلقات کی پالیسی پرکابندرہاہے۔مگردوسری جانب غیرمسلم ممالک پاکستانی ایٹم بم کوشک اورنفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔9/11کے دوچارسال بعد پاکستان کی اہمیت ختم ہوکررہ گئی خصوصااسامہ بن لادن کی ایبٹ آبادمیں مارے جانے کے بعدتودنیاپاکستان کودہشت گردی کاحامی ملک سمجھنے لگ گئی اس سلسلے میں بھارت کی پاکستان کیخلاف جارحانہ خارجہ پالیسی اوربھارت میں دہشت گردی کے چندبڑے واقعات نے اہم کردار اداکیا۔نائن الیون کے فوری بعدجب پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کاساتھ دینے کافیصلہ کیاتوابتدائی دوچاربرسوں میں امریکہ اوراسکے یورپی اتحادی پاکستان کومحبت بھری نظروں سے دیکھتے تھے مگروقت گزرنے کیساتھ ساتھ اس رومانس میں شک کازہرشامل ہوتاگیااورفاصلے بڑھتے گئے۔ورلڈ ٹریڈ سینٹراورپنٹاگان پرحملے کے بعدپاکستان کی اہمیت اسقدربڑھ گئی کہ دویورپی سربراہانِ مملکت پاکستان میں موجودہوتے تھے،دوائیرپورٹ سے پروازبھر رہے ہوتے تودوکی جہازیں اترنے کیلئے فضامیں چکرکاٹ رہے ہوتے۔مگرامریکہ کوافغان جنگ میں مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر پاکستان ہی کو قربانی کابکرابناناپڑااسی سبب پاکستان پردہشتگردوں کی مدداورامریکہ کیساتھ ڈبل گیم جیسے الزامات لگائے گئے۔افغانستان سے واپسی پر امریکہ نے پاکستان کیساتھ سردمہری کاروئیہ اپنایااسلئے ہمارے ایک وزیراعظم کوشکوہ رہاکہ امریکی صدرنے انہیں فون تک نہیں کیا؟ جوبا ئیڈ ن دورمیں تودونوں ممالک کے درمیان تعلقات سردمہری کاشکارہوئے مگرڈونلڈٹرمپ کے دوسرے دورمیں یہ تعلقات اب بہتری کی جانب گامزن ہیں۔پاکستان کی جانب سے داعش کاایک سرکردہ رکن امریکہ کے حوالے کیاگیاجس کاذکرٹرمپ نے اپنے پہلے 100دن کی کارکردگی میں بھی کیا۔اسکے بعد 10مئی کوپاکستان نے بھارتی جارحیت کامنہ توڑجواب دیااوراسے شکست فاش سے دوچار کر دیا جس کے باعث مودی کوصدرٹرمپ کے درپرسجدہ ریزہوناپڑا۔ٹرمپ نے پاکستانی شرائط پرجنگ بندی کروائی مگرمودی اپنے وعدوں سے مکرگئے جس سے بھارت اورامریکہ کے تعلقات کشیدگی کاشکارہوئے۔اس دوران ایران اسرائیل جنگ چھڑگئی جس میں پاکستان نے ببانگ دہل ایران کاساتھ دیا۔قطرپراسرائیل نے حملہ کیاتووزیراعظم شہبازشریف نے پہلی فرصت میں قطرکادورہ کیااسکے کچھ دن بعد سعود ی عرب اورپاکستان کے درمیان دفاعی معاہدہ ہوا۔چین پاکستان کی دوستی بے مثال ہے،آذربائیجان،بنگلہ دیش اورترکی کیساتھ پاکستان کے مستحکم تعلقات قائم ہوئے ہیں۔اس وقت پاکستان بیک وقت تین سپرپاورزکیساتھ قریبی تعلقات قائم کرچکاہے۔امریکہ پاکستانی لیڈرو ں کوعظیم قراردے رہاہے،چین پاکستان کیساتھ دیرینہ دوستی کادم بھرتاہے جبکہ روس کیساتھ بھی قریبی تعاون پرمبنی تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔دنیامیں پاکستانی مؤقف کوپذرائی مل رہی ہے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے80ویں سالانہ اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف کے خطاب کوعالمی سطح پرسراہاگیااس طرح قطرمیں اسلامی ممالک اجلاس میں بھی پاکستان نے جراتمندانہ مؤقف اپنایاجسے عرب دنیامیں بھی سراہاگیا۔فلسطین کودنیامیں فلیش پوائنٹ کی حیثیت دلانے میں پاکستان کی کوششیں اظہرمن الشمس ہیں۔دنیامیں جہاں بھی کسی مسلمان ملک کاکوئی مسئلہ ہوپاکستان اسے اپنامعاملہ سمجھ کراخوت کے تحت مسلمانوں کی مددکرتاہے۔آذربائیجان،ایران،قطراورفلسطین کی ہرممکن مددمیں پاکستان پیش پیش رہاہے۔ بھارت کے خلاف10مئی کی جوابی کارروائی سے دنیا میں پاکستان کی اہمیت مزیدبڑھ گئی ہے ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک صدی میں کسی مسلمان ملک نے غیرمسلم ملک کوشکست فاش سے دوچارنہیں کیابلکہ ہمیشہ مسلمان ہی جارحیت کانشانہ بنے ہیں مگرکئی عشروں بعدپاکستان ایک ایسامسلمان ملک دنیاکے نقشے پرابھر کر سامنے آیاہے جوکسی بھی جارحیت کامنہ توڑ جواب دینے کی صلاحیتوں سے مالامال ہے۔بھارت جوحجم کے اعتبارسے آٹھ دس پاکستانوں کے برابرہے،اسکی آبادپاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے،اسکے پاس پاکستان سے چارگنابڑی فوج موجودہے،اسکے ایئرفورس میں جنگی طیاروں کی تعدادپاکستانی جنگی جہازوں سے تین چار گنازیادہ ہے،اسکی نیوی پاکستان سے بہت بڑی اورایڈوانس ہے،اسکی معیشت دنیاکی تیسری بڑی معیشت ہے جبکہ وہ دفاع پرپاکستان سے دس گنازیادہ رقم خرچ کرتاہے۔ان سب کے باوجودجب اس نے ایک فالس فلیگ آپریشن کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف جارحیت کی توپاکستانی جواب نے اسکے دانت کھٹے کردئے۔مودی سرکارکے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستا ن کا جواب ایسالاجواب ہوگاجس سے وہ جواب دینے کی سکت بھی کھودے گی۔اس عظیم کامیابی نے پاکستان کی اہمیت کوکئی گنابڑھا دیا ہے۔موجودہ متمدن،جدیداورڈیجیٹل دنیابھی ماضی سے مختلف نہیں جب کوئی بھی طاقتورکمزورپرچڑھ دوڑتاتھااوراسے محکوم بنادیاجاتا تھا۔ موجودہ متمدن دنیامیں بھی یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ”ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات“اس دنیامیں جوبھی قوم یاملک اینٹ کاجواب پتھرسے دینے کے قابل ہے اسکے خلاف جارحیت نہیں ہوتی مگردولت کے ڈھیرپربیٹھنے والے ممالک جارحیت کی محض مذمت تک محدو د رہ جاتے ہیں۔خداکاشکرہے کہ لٹاپٹا،کرپشن کامرکز،سیاسی عدم استحکام کاشکاراورقرضوں میں ڈوباپاکستان اپناوجودقائم رکھنے کی صلاحیت رکھتاہے اورکسی بھی جارح کوزناٹے دار تھپڑ رسیدکرسکتاہے،عالمی تنازعات کے حل میں ذمہ دارانہ کردارکاحامل ہے، عالمی فورمزپر،مبنی برحق اورٹھوس دلائل سے بھرپورمؤقف پیش کرتا ہے۔مظلوم کیلئے آوازاٹھاتاہے، ذمہ دارانہ،دانشمندانہ اورجراتمندانہ کردار کے سبب پاکستان کوعالمی پذیرائی مل رہی ہے۔اس سلسلے کودوام بخشنے کیلئے مزیدمحنت اورانتھک جدوجہددرکارہوگی۔
سابق وزیر اعظم کا عجیب بیانیہ
عقیل یوسفزئی
سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خاتمے کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت سے مشروط کرتے ہوئے اپنے اس مذاکراتی کا دفاع کیا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں طالبان یا دہشت گردوں کو پاکستان واپس لایا گیا ۔
اپنی ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی تفصیلات میں انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے قبائلی علاقوں میں امن قائم کیا تاہم موجودہ ریاستی قیادت نے طالبان کی پاکستان دوست افغان حکومت کو دھمکیاں دیں ، مہاجرین کو زبردستی نکالا اور افغانستان میں ڈرون حملے کئے جس کے باعث نہ صرف پاک افغان تعلقات خراب ہوگئے بلکہ آپریشن کرکے خیبرپختونخوا کے امن کو برباد کیا ۔
ان کے اس بیان یا موقف سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ وہ ریاست پاکستان کی بجائے نہ صرف یہ کہ افغانستان کی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ کی کھل کر حمایت کررہے ہیں بلکہ وہ فورسز کی کارروائیوں اور اقدامات کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔
کمال کی بات یہ ہے کہ اپنی لمبی تفصیلات کے مطابق انہوں نے خیبرپختونخوا سمیت ملک میں کی جانے والی دہشت گردی کی مذمّت تک نہیں کی نا ہی انہوں نے اس بات کی کوئی وضاحت پیش کی کہ ان کی خیبرپختونخوا حکومت کی کاؤنٹر ٹیررازم پالیسی ہے کیا اور اگر اس حکومت کے ہوتے ہوئے مختلف علاقوں میں کسی وقفے کے بغیر ٹارگٹڈ آپریشنز جاری ہیں تو صوبائی حکومت کا اس میں کیا اور کتنا رول ہے ؟
عجیب وغریب بات تو یہ بھی ہے کہ جس روز وہ پاکستان کے امن کو مجوزہ مذاکراتی عمل سے مشروط کررہے تھے اس دوران افغان اور عالمی میڈیا میں افغان عبوری حکومت کے قندھاری اور حقانی گروپوں کے شدید اختلافات کی خبریں شیئر ہورہی تھیں اور یہاں تک کہا جارہا تھا کہ سراج الدین حقانی کو ان کی وزارت داخلہ کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے یا ہٹایا جارہاہے ۔ یہ اطلاعات بھی زیر گردش تھیں کہ امریکہ اور بعض دیگر ممالک افغانستان میں رجیم چینج کے ایک فارمولے پر عمل پیرا ہونے جا رہے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کراس بارڈر ٹیررازم کے بنیادی مسئلہ پر خراب ہیں تاہم عمران خان کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ان خراب حالات ، تعلقات کے دوران بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکراتی عمل جاری ہے اور اپریل میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم ، وزیر خارجہ خود کابل گئے تھے ۔ نماندہ خصوصی محمد صادق خان اور دیگر حکام بھی مسلسل دورے اور ملاقاتیں کرتے آرہے ہیں ۔
جہاں تک ان کے اس موقف کا تعلق ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی حالات اس لیے خراب ہوگئے ہیں کہ یہاں آپریشن جاری رہے ہیں یا افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہیں کسی بھی لارجر فریم ورک میں ان دلائل کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جاری دہشتگردی کے مختلف اسٹیک ہولڈرز ، پراکسیز اور اسباب ہیں ۔ وہ اس پیچیدہ صورتحال کا بہت آسان مگر یکطرفہ حل تجویز کرتے ہیں جو کہ برخلاف حقائق ہیں ۔ جس جانب انہوں نے نشاندھی کی ہے وہ تمام مسایل اور اسباب کا ایک جز ہے کل قطعاً نہیں ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اصل اسباب بھی معلوم کریں ۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ فرسٹریشن کا شکار ہیں اور اس بیانیہ کو وہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ بلکہ بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتے آرہے ہیں ۔
اب تو ان کی پارٹی اور صوبائی حکومت بھی مختلف گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہیں اور صوبائی کابینہ بھی توڑ پھوڑ کی صورت حال سے دوچار ہوگئی ہے ۔ ان کے وزیر اعلیٰ نے ان کے ساتھ کی گئی گزشتہ روز کی ملاقات میں یہاں تک کہا ہے کہ ان کی بہن علیمہ خان پارٹی کی قیادت پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور یہ کہ وہ وزیر اعلیٰ کے بقول ریاستی اداروں کی معاونت کررہی ہیں ۔ ایسے میں اگر عمران خان پیچیدہ مسائل پر ریاست مخالف بیانیہ کی بجائے اپنی پارٹی اور صوبائی حکومت کی بیڈ گورننس جیسے ایشوز پر زیادہ توجہ مرکوز کریں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔
( یکم اکتوبر 2025 )