Wisal M Khan

گروہ بندی، بدانتظامی اور داخلی اختلافات

وصال محمدخان
خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ
حکمران جماعت، وزیراعلیٰ، کابینہ ارکان اورپوری قیادت دوہفتے تک پشاورجلسے کیلئے ڈھنڈورے پیٹتی رہی اوردعوے کئے جاتے رہے کہ یہ جلسہ ملکی سیاست کارخ متعین کریگااوراس سے واضح ہوجائیگاکہ عوام کس کے ساتھ ہیں؟مگربدقسمتی سے جلسہ منعقدہونے کے بعدجو صورتحال سامنے آرہی ہے اس سے ظاہرہورہاہے کہ یہ جلسہ پارٹی کیلئے فائدے کی بجائے نقصان کاباعث بناکیونکہ اسکے بعد پارٹی واضح طورپرگروہ بندی کاشکار نظرآرہی ہے۔

پہلے عاطف خان ِشکیل خان اورجنیداکبروغیرہ کے گروپ تھے مگراب اسدقیصراورشہرام ترکئی کاایک نیاگروپ سامنے آچکا ہے اسکے علاوہ بھی کئی دھڑے سرگرم عمل ہیں مگروہ بوجوہ سامنے آنے سے گریزاں ہیں۔ جلسے میں شرکاء کے حوالے سے جوبلندبانگ دعوے کئے گئے تھے، پیسہ پانی کی طرح بہایاگیا،ارکان اسمبلی کولوگ لانے کیلئے 7کروڑروپے کی خطیررقم جاری کی گئی، اشتہاری مہم چلائی گئی،پینافلیکس اوربینرزلگائے گئے اورپارٹی عہدیداروں سے رابطے کئے گئے مگراس تمام ترددکے باوجود جلسے میں شرکاء کی تعدادتوقعات سے خاصی کم رہی۔ایک جانب شرکاء کے حوالے سے توقعات پوری نہ ہوئیں تودوسری جانب جلسہ بدنظمی کا شکار رہا، پشاور میں جلسہ ہورہاتھامگرضلعی صدرکاکہناہے کہ انتظامات کسی اورکے ہاتھ میں تھے۔

عرفان سلیم کی سربراہی میں ضلع پشاورکاپارٹی اجلا س ہوا جس میں جلسے کے انتظامات اوردورانِ جلسہ پیش آنے والے ناخوشگوارواقعات کی چھان بین کیلئے چاررکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے کمیٹی جلسہ کے دوران صحافیوں کیساتھ نارواسلوک،پولیس کی جانب سے کارکنوں پرتشدداورناقص منصوبہ بندی کی تحقیقات کرکے چار روز میں رپورٹ پیش کریگی۔پشاورکی تنظیم نے واضح کیاکہ جلسے کے انتظامات،سٹیج کی ذمہ داریاں،سٹیج لسٹنگ اوردیگراختیارات اسکے ہاتھ میں نہیں تھے۔ وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپورکی تقریرپہلے کروانے کوبھی شدیدتنقیدکاسامناہے اوراسے بدنظمی قراردیاجارہاہے۔علی محمدخان اور گنڈا پور کی تقریر کے دوران احتجاج اورنازیباحرکات بھی سامنے آئیں۔

جلسے کے تیسرے دن گنڈاپورکی بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات ہوئی جس کے بعدانہوں نے اپنے دووزراشہرام ترکئی کے بھائی فیصلہ ترکئی اورسابق سپیکراسدقیصرکے بھائی عاقب اللہ کوانکے عہدوں سے فارغ کردیاجو مبینہ طورپرجلسے میں ہلڑبازی کاشاخسانہ ہے دوسری جانب کہاجارہاہے کہ وزیراعلیٰ خاصے عرصے سے ان دووزراکوفارغ کرنے کے خواہاں تھے مگرانکی بانی سے ملاقات نہیں ہوپارہی تھی ان دووزراکی رخصتی بظاہرتوناقص کارکردگی قراردی جارہی ہے مگردرحقیقت یہ پارٹی کی اندرو نی گروہ بندی اورتقسیم کانتیجہ ہے۔

وزیراعلیٰ نے بھی بانی سے ملاقات کے بعدپارٹی کے اندرونی اختلا فات کوتسلیم کیاہے۔ انہوں نے ایک ویڈیوپیغام میں کہا کہ ”میں نے بانی کوبتایاکہ انکی ہمشیرہ علیمہ خان ایم آئی کے ڈائرکشن پرچلتی ہیں“ انہوں نے علیمہ خان کو شدید تنقیدکا نشانہ بھی بنایاجوپارٹی کے اندرونی اختلافات پرمہرتصدیق ثبت کرنے کیلئے کافی ہے۔بانی نے دودن بعد علیمہ خان اور گنڈاپور کو بیان بازی سے روک دیامگرجوانکشافات انہوں نے کرنے تھے وہ کرچکے،کوئی بعیدنہیں کہ اب کچھ مزیدراہنماؤں کے بارے میں بھی انکشا ف ہوکہ وہ ”کسی“ کے ایجنٹ ہیں مقام شکرہے کہ یہ ایجنٹی کے القابات ملکی ایجنسیوں کے حوالے سے ہیں رایاموساد کے حوا لے سے نہیں۔پی ٹی آئی ناقدین کاکہناہے کہ ان الزمات کامقصدسستی شہرت اورعوام کوٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے سواکچھ نہیں۔

اس طرح یہ لوگ میڈیامیں جگہ پاتے ہیں اورخبروں میں اِن رہتے ہیں۔صوبائی کابینہ سے وزراکے استعفوں کے بعد7 وزراکے محکموں میں ردوبدل ہوچکا ہے فیصل ترکئی سے لیاگیامحکمہ تعلیم،معاون خصوصی اورسابق ناظم پشاورارباب عاصم اوراسدقیصرکے بھائی عاقب اللہ سے واپس لیاگیامحکمہ آبپاشی معاون خصوصی اسرارخان کے حوالے ہوچکاہے دیگر کئی کابینہ ارکان کے محکمے بھی تبدیل کئے گئے ہیں۔حکمران جماعت جلسے سے سیاسی فوائد سمیٹنے کی خواہاں تھی مگرشومئی قسمت کہ اب اسکے آفٹرشاکس سے نبردآزماہے۔

پشاور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنماؤں عمرایوب،شبلی فرازاورعبدالطیف کی نااہلی کے خلاف رٹ پٹیشن پرجاری حکم امتناع واپس لیتے ہوئے قراردیاہے کہ جب تک کوئی مفرورخودکوعدالت کے سامنے پیش نہیں کرتااسے عدالت آئین کے تحت سول حقوق دینے کاپابندنہیں۔ درخواست گزارپہلے متعلقہ عدالتوں کے سامنے سرنڈرکریں اسکے بعددرخواستوں کی بحالی کیلئے طریقہء کارکے تحت درخواست جمع کریں۔ عدالت موجودہ صورتحال میں درخواستگزاروں کوریلیف نہیں دے سکتی کیونکہ وہ سزاؤں کے بعدمتعلقہ عدالتوں کے سامنے اپیلوں کیلئے پیش نہیں ہوئے۔درخواستوں کی سماعت جسٹس سیدارشدعلی اورجسٹس فہیم ولی پرمشتمل دورکنی بنچ نے کی جبکہ31صفحات پرمشتمل فیصلہ جسٹس سیدارشدعلی نے تحریرکیا ہے جس میں مزیدکہاگیاہے کہ اے ٹی سی کورٹ نے جوسزائیں دی ہیں انکے ختم کرنے کاایک ہی طریقہ کارہے کہ درخواستگزار متعلقہ عدالتوں میں اپیلیں دائرکریں۔یادرہے مذکورہ راہنماؤں کو9مئی کیسزمیں سزائیں ہوچکی ہیں۔

بلدیاتی نمائندوں کی اے پی سی
بلدیاتی نمائندوں کی تنظیم لوکل کونسل ایسوسی ایشن نے پشاورمیں آل پارٹیزکانفرنس منعقدکی جس میں اپوزیشن لیڈرڈاکٹرعباداللہ،اے این پی کے صوبائی صدرمیاں افتخارحسین،قومی وطن پارٹی کے سکندرشیرپاؤ،جماعت اسلامی کے صابرحسین اعوان،پیپلزپارٹی کے سیدظاہرعلی شاہ،ارکان قومی وصوبائی اسمبلی،ویلیج اورنائبرہوڈکونسلزاورتحصیل چیئرمینزنے کثیر تعدادمیں شرکت کی۔اے پی سی کی میزبانی مئیر پشاور زبیر علی(جے یوآئی) اورمئیرمردان حمایت اللہ معیار(اے این پی)نے کی۔ دونوں نے ساڑھے تین سال کاعرصہ گزرجانے کے باوجود اختیارات اورفنڈزنہ ملنے کوآئین کی خلاف ورزی قراردیا۔اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ میں کہاگیاہے کہ اے پی سی کامقصدصوبے میں بلدیاتی نظام کی فعالیت،عوامی نمائندوں کے اختیارات اورعوام کودرپیش سنگین مسائل پر مشتر کہ مؤقف اختیارکرناہے۔اعلامئے میں صوبائی حکومت کی جانب سے بلدیاتی اداروں کومفلوج کرنے پرتشویش کااظہارکیاگیااورکہاگیاکہ عوامی نمائندوں کوانکے آئینی حقوق سے محروم رکھناغیرآئینی ہے،اس طرزعمل سے عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوئی اورجمہوری نظام کوکمزور کیا گیا۔پی ٹی آئی نے اپنے منشورمیں بااختیار بلد یاتی نظام کاوعدہ کیاتھالیکن صوبائی حکومت نے اپنے ہی منشورکی نفی کی۔اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عبادکاکہناتھاکہ بلدیاتی نظام جمہوری ادارو ں کی نرسری ہے،سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی نظام کونقصان پہنچایا جبکہ ڈکٹیٹرشپ یانگران ادوار میں بلدیاتی اداروں کومضبوط کیاگیا۔میاں افتخار حسین نے کہاکہ”ملک میں آئین کی پاسداری نہیں کی جارہی،آئین توڑنے والے اقتدار سے لطف اندوزہورہے ہیں جبکہ آئین کی بات کرنیوالوں کوغدارکالقب دیاجاتاہے۔بلدیاتی اداروں کوبااختیاربناناہوگااگرموجودہ ادارو ں کی مدت پوری ہونے کے بعدبلدیاتی انتخابا ت منعقدنہیں کئے جاتے توہم ہرقسم کی قانونی، آئینی اورسیاسی جدوجہدمیں بلدیاتی نمائندو ں کاساتھ دینگے“۔

کوٹوپن بجلی منصوبہ مکمل، 2 ارب سالانہ آمدن متوقع
خیبرپختونخواحکومت نے اپنے وسائل سے ضلع لوئردیرمیں 40.8میگاواٹ کوٹوپن بجلی منصوبے کی تکمیل پرپیسکوکیساتھ بجلی فروخت کامعاہدہ کرلیاہے۔کوٹوپن بجلی منصوبے سے سالانہ 207گیگاواٹ بجلی پیداہوگی جس سے صوبے کو2ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔معاون خصوصی برائے توانائی طارق سدوزئی نے منصوبے کوصوبے کی معیشت کے استحکام کی جانب اہم قدم قراردیا۔ ان کاکہناتھاکہ منصوبے سے ایک جانب ماحول دوست اورسستی بجلی پیداہوگی تودوسری جانب نیشنل گرڈکوبجلی کے بحران پرقابو پانے میں بھی مددملے گی۔

Military Establishment Response to Indian Provocation

عسکری قیادت کا واضح بلکہ جارحانہ موقف، طرز عمل

عقیل یوسفزئی
پاکستان کی عسکری قیادت نے ملک کی سرحدوں پر پائے جانے والی کشیدگی اور اندرونی دہشت گردی ، عدم استحکام پر بہت سے خدشات اور منفی پروپیگنڈا کے ردعمل میں بھارت کو ” دھمکی” دی ہے کہ اگر اس نے پہلے کی طرح کسی جارحیت کا راستہ اختیار کیا تو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر نہ صرف یہ کہ پہلے سے سخت جواب دیا جائے گا بلکہ بھارت کے اندر جنگ لڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا ۔
اس ضمن میں گزشتہ روز کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور اگر بھارت نے 10 مئی کی اپنی شکست کے باوجود کسی حملے وغیرہ کی غلطی کی تو اس کو پوری قوت کے ساتھ جواب دیا جائے گا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان کو متعدد بار کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود ان خوارج کو کنٹرول کرے جو کہ پاکستان پر حملہ آور ہیں ۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں کشیدگی برقرار رہے گی ۔ ایک مخصوص پارٹی کے حوالے سے ایک بار پھر واضح کیا گیا ہے کہ فوج نہ کسی پارٹی کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے اور نا ہی کسی پارٹی کو سپورٹ کیا جارہا ہے یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے ۔
اندرونی دہشتگردی پر موقف اختیار کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے بلکہ ان کے خاتمے کی جنگ جاری رکھی جائے گی اور یہ کہ گزشتہ کچھ عرصے کے بعد ملک میں 55 ہزار سے زائد انٹلیجنس بیسڈ ٹارگٹڈ آپریشنز کیے گئے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو بیانیہ کے مسئلے کے علاؤہ بدترین نوعیت کی بیڈ گورننس کا بھی سامنا ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغان دہشت گرد بھی پاکستان پر حملوں میں ملوث رہے ہیں اور گزشتہ چند مہینوں کے دوران 135 افغان دہشت گردوں کو سرحد پار کرتے جبکہ 118 کو پاکستان کے اندر کارروائیوں میں ہلاک کردیا گیا ہے ۔
بلوچستان کے بارے میں اعلیٰ عسکری عہدے دار کا کہنا تھا کہ سال 2024 کے دوران 1018 دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا ہے جبکہ رواں برس جنوری سے ستمبر تک 1424 دہشت گرد مارے گئے ہیں ۔
ان تمام نکات سے دو تین باتوں کے بارے میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے عزائم مقبول عام تجزیوں کے برعکس کسی ابہام کے بغیر واضح ہوگئے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ پاکستان پر بھارتی دھمکیوں کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے تاہم اس کو ممکنہ جارحیت کا مجوزہ تیاریوں کے تناظر میں درکار اقدامات کا پورا ادراک ہے ۔ دوسرا یہ کہ عسکری قیادت پاکستان میں جاری دہشت گردی کی ذمہ داری بھارت ،افغانستان اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پر عائد کر رہی ہے ۔ تیسرا یہ پی ٹی آئی کے بانی سے مذاکرات کی اطلاعات کو ایک بار پھر رد کردیا گیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی ک
دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مذاکرات وغیرہ کا کوئی آپشن بھی زیر غور نہیں ہے ۔
( 5 نومبر 2025 )