Matric annual exam begins, 71 thousand students participate

میٹرک سالانہ امتحان کا آغاز، 71 ہزار طلباء شریک

پشاور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور کے زیرِ انتظام میٹرک سالانہ امتحان دوم 2025 کا آغاز کل بروز بدھ، 8 اکتوبر 2025 سے ہو رہا ہے۔ یہ امتحان صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع پشاور، خیبر، چارسدہ، مہمند اور چترال میں بیک وقت منعقد کیا جا رہا ہے۔ امتحانات کے دوران 173 مردانہ اور 65 زنانہ امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں جن میں مجموعی طور پر 71 ہزار 234 امیدوار شرکت کریں گے۔ امتحانی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانےکیلئے 1967 سپروائزری اسٹاف تعینات کیا گیا ہے جبکہ تمام امتحانی مراکز میں اسٹیشنری اور دیگر ضروری سامان پہلے ہی پہنچا دیا گیا ہے۔
چیئرمین پشاور بورڈ جناب خدا بخش نے امتحانی انتظامات کا خود معائنہ کیا اور کہا کہ بورڈ شفاف اور منصفانہ امتحانات کے انعقاد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ نقل یا کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا، اور مانیٹرنگ ٹیمیں سخت نگرانی کریں گی۔ امیدواروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ امتحان کے وقت سے کم از کم 30 منٹ پہلے مرکز پر پہنچیں، رول نمبر سلپ ہمراہ لائیں، اور موبائل فون یا کسی بھی الیکٹرانک ڈیوائس کو ہال میں لانے سے گریز کریں، کیونکہ یہ سختی سے ممنوع ہے۔ پشاور بورڈ انتظامیہ نے تمام امیدواروں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ طلباء ایمانداری اور نظم و ضبط کے ساتھ امتحان میں شریک ہوں گے تاکہ شفاف اور معیاری امتحانی نظام برقرار رہے۔
Orakzai Operation: Nineteen Indian-sponsored Khawarij killed

اورکزئی آپریشن: انیس بھارتی سپانسرڈ خوارج ہلاک

7 اور 8 اکتوبر 2025 کی درمیانی شب سیکیورٹی فورسز نے ضلع اورکزئی میں بھارتی پراکسی تنظیم “فتنۃ الخوارج” سے تعلق رکھنے والے خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کیا۔  کارروائی کے دوران فائرنگ کے شدید تبادلے میں انیس بھارتی حمایت یافتہ خوارج جہنم واصل کر دیے گئے۔ تاہم، بہادری سے اپنی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل جنید عارف (عمر 39 سال، تعلق راولپنڈی) اور ان کے سیکنڈ ان کمانڈ میجر طیّب راحت (عمر 33 سال، تعلق راولپنڈی) نے وطن کے دفاع میں جامِ شہادت نوش کیا۔ شہداء میں مزید نو جانباز اہلکار شامل ہیں جن میں نائب صوبیدار اعظم گل (خیبر)، نائیک عادل حسین (کرّم)، نائیک گل امیر (ٹانک)، لانس نائیک شیر خان (مردان)، لانس نائیک طالش فراز (مانسہرہ)، لانس نائیک ارشاد حسین (کرّم)، سپاہی طفیل خان (مالاکنڈ)، سپاہی عاقب علی (صوابی) اور سپاہی محمد زاہد (ٹانک) شامل ہیں۔ علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے تاکہ بھارتی سرپرستی میں سرگرم دیگر خوارج کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ پاک فوج بھارتی سرپرست دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پرعزم ہے اور ان جانبازوں کی قربانیاں اس عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
Wisal Muhammad Khan

9مئی کیس مقدمات کی واپسی

وصال محمدخان
خیبرپختونخواحکومت نے 9مئی 2023ء کے پرتشددواقعات میں ملوث افرادکے خلاف قائم مقدمات ختم کرنے یاواپس لینے کافیصلہ کیا ہے۔کابینہ کی منظوری کے بعدہوم ڈیپارٹمنٹ نے اس کااعلامیہ بھی جاری کردیاہے۔ ایڈوکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمان خیل کے مطابق 9 مئی دہشتگردی کے کیس عدم ثبوت،بغیرتحقیق اورسیاسی انتقام پرمبنی تھے،نگران حکومت نے اختیارات سے تجاوزکیاتھا،وزیراعلیٰ کی ہدایت پرتمام کیسزواپس لے رہے ہیں اس سلسلے میں کابینہ کی منظوری کے بعدحکومت نے اعلامیہ جاری کردیاہے۔یادرہے صوبہ بھرمیں 9مئی کے پرتشددواقعات میں ملوث ملزمان کیخلاف29مقدمات درج کئے گئے تھے۔تمام کیسزواپس لینے کے فیصلے سے صوبے میں 9مئی 2023ء کے ان واقعات میں ملوث ملزمان کوکھلی چھوٹ مل چکی ہے جنہوں نے مردان میں شہداکے مجسموں کی بے حرمتی کی،نجی،قومی اور فوجی املاک وتنصیبات کو نقصان پہنچایا،ریڈیوپاکستان کی عمارت کوراکھ کاڈھیربنایا،وہاں توڑپھوڑکی،100سالہ تاریخی ورثہ تباہ کیا،عمارت کامین گیٹ کباڑئے کوفروخت کیا،اسلحہ شاپس کولوٹاگیا،شاہراہوں پربلااشتعال فائرنگ کی گئی،پولیس کیساتھ جھڑپیں ہوئیں درجنوں پولیس اہلکارزخمی ہوئے،دودن تک پشاورکی سڑکیں میدان جنگ بنی رہیں جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کاساماحول پیداکیاگیاتھا،عوام میں خوف وہراس تھااورپی ٹی آئی کی جانب سے یہ تاثردیاجارہاتھاجیسے وہ ”انقلاب“لاکرہی دم لیں گے۔اس ماحول میں انتظامیہ یاحکومت کاحرکت میں آنالازم تھاانتظامیہ حرکت میں آئی اورملوث ملزمان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ جن افرادکیخلاف مقدمات قائم کئے گئے تھے اگر وہ بیگناہ تھے،انکے خلاف ثبوت موجودنہیں تھے،مقدمات درج کرواتے وقت تحقیق نہیں کی گئی تھی اورنگران حکومت کوپی ٹی آئی کیساتھ عداوت تھی جس کے باعث انکے کارکنوں کوبستروں اورگھروں سے نکال کران واقعات میں ملوث کیاگیا۔تویہ واقعات کس نے کئے یاکروائے؟ان کیلئے کوئی غیبی مخلوق آئی یایہ سب کرنیوالوں نے سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی تھی؟یہ توماننے کے سواچارہ نہیں کہ پُر تشدد واقعا ت رونماہوئے ہیں،ریاستی تنصیبات پرحملے ہوئے ہیں،وہاں توڑپھوڑبھی نظرآرہی ہے اس میں ملوث جن ملزمان کی ویڈیوزوائرل تھیں، جو کال ریکارڈزموجودتھیں اورپولیس کے ہاتھ جوثبوت لگے انہی کی بنیاد پریہ مقدمات قائم ہوئے تھے اگربیک جنبش قلم ختم کئے گئے مقدمات غلط تھے توان پرتشددواقعات کاذمہ دارکون ہے؟اربوں روپے کی املاک کس نے تباہ کیں؟شہداء کے مجسموں کی بیحرمتی کس نے کی؟ اور تاریخی ورثہ کس نے تباہ کیا؟اتنے بڑے واقعات رونماہوئے مگریہ امرباعث تعجب ہے کہ پورے صوبے سے ان میں کوئی فردملوث نہیں تھا اگر یہ سب لوگ کسی باہرکے ملک یادوسرے سیارے سے آئے تھے توصوبائی حکومت کو اسکی نشاندہی کرنی چاہئے۔ملزمان کواس قدرکھلی چھوٹ دیناکہ تمام مقدمات ہی ختم کردئے جائیں یہ بات نہ ہی حال اورنہ ہی مستقبل کے مؤرخ سے ہضم ہوسکے گی۔ایڈوکیٹ جنرل کے مطابق تونگران حکومت حدسے تجاوزکی مرتکب ہوئی تھی مگرنظربظاہرتو موجودہ حکومت اپنے اختیارات سے تجاوزکرچکی ہے۔موجودہ وزیراعلیٰ نے حلف اٹھانے کے بعداسمبلی کی پہلی تقریرمیں ان ملزمان کوبیگناہ قراردیا تھا اور اس عزم کااعادہ کیاتھاکہ یہ تمام افرادبیگناہ ہیں اوروہ انہیں رہاکروائیں گے۔اس ملک میں جوقانون رائج ہے اسکے مطابق کسی بھی غیرقانونی امرمیں ملوث فردیاافرادکیخلاف ایف آئی آرز کااندراج ہوتاہے،معاملہ عدالتوں کے سامنے رکھاجاتاہے اورعدالتیں ثبوتوں،گواہوں اورشواہدکی روشنی میں فیصلے کرتی ہیں کہ کوئی فرد کتنا قصوروار یا کتنا بے قصورہے۔مگریہاں حکومت نے فیصلہ کرکے ایڈو کیٹ جنرل کے ذریعے صادرکیاکہ”چونکہ ان مقدمات میں کوئی ثبوت موجودنہیں،اندراج کے وقت تحقیق نہیں کی گئی اورپی ٹی آئی کارکنان کوسیاسی انتقام کانشانہ بنایاگیااسلئے تمام مقدمات واپس لئے جاتے ہیں“۔یہی مؤقف پنجاب کے حوالے سے بھی اپنایاگیا مگر وہاں کی انسداددہشتگردی عدالتوں نے ملزمان کوسزائیں بھی دیں اوران سزاؤں کے نتیجے میں سینیٹ اورقومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈرز نااہل بھی ہوچکے ہیں۔اسی قسم کے واقعات خیبرپختونخوامیں بھی ہوئے مگر یہاں کی حکومت کامانناہے کہ ان واقعات میں پی ٹی آئی کارکنان ملوث نہیں تھے اسلئے ان ملزمان کوتھوک کے حساب سے بری کردیا گیا اور یہ بریت کسی عدالت سے نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے ہوئی ہے۔اس فیصلے سے ایک توپرتشددواقعات میں ملوث افرادکی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، دوسرے انہیں یہ باورکروایاگیاہے کہ جب دل چاہے ریاستی املاک پرحملہ آورہوں اورجب پارٹی کی حکومت آئیگی تووہ تمام افراد کو بیگناہ قراردیدیگی اورکوئی انہیں ہاتھ لگانے والا نہیں ہوگا۔یہ جونظیرقائم کی گئی ہے اسکے مستقبل میں بداثرات سامنے آئیں گے یعنی کوئی بھی فردسیاسی جماعت کاکارکن ہونے کے ناطے پر تشدداحتجاج کاراستہ اپنائے گاغنڈہ بن کرسامنے آنیوالی ہرچیزکو تاخت وتاراج کردیگا مگراسے سزاملنے کی بجائے جب اسکی پارٹی برسراقتدار آئیگی تو عام معافی مل جائیگی۔اب یہ توآئینی اور قانونی ماہرین ہی بہتربتاسکیں گے کہ کوئی صوبائی حکومت اس طرح تھوک کے حساب سے مقدمات ختم کرنے کی مجازبھی ہے یایہ اپنے اختیارات سے تجاوزکیاگیاہے؟مگرہم جیسے عام لوگوں کی سمجھ میں تویہی بات آتی ہے کہ جس کے خلاف ایف آئی آرکااندراج ہوجائے اسے اپنی بیگناہی ثابت کرنی پڑتی ہے۔ یہاں پہلی بارہواہے کہ بیگناہی صوبائی حکومت ثابت کررہی ہے اورعدالتوں سے کسی کوبیگناہ یا گنا ہگارقراردینے کااختیارواپس لیاگیاہے یا ذراواضح الفاظ میں حکومت نے عدلیہ کاکام بھی سنبھال لیاہے۔صوبائی حکومت کایہ فیصلہ کسی صورت سراہنے لائق نہیں بلکہ اسکے خلاف عدا لت عالیہ سے رجوع کرنیکی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی جوخودکودوسری سیاسی قوتوں سے افضل وبرترسمجھتی ہے اوریہ آئین وقانون کی پاسدار ی کیلئے یورپی ممالک کی مثالیں دیتی نہیں تھکتی مگرجب معاملہ ان پرآپڑتاہے تویہ حکومت کا سہارالیتے ہیں۔9مئی مقدمات کی واپسی یا خاتمہ ایک بری مثال بنائی گئی جسے کسی صورت قبول نہیں کیاجاسکتایاپھراگرنامزدملزمان بیگناہ ہیں توحکومت کوگناہگارسامنے لانے ہونگے۔