Wisal Muhammad KHan

خیبرپختونخوامیں بارودی سرنگیں

وصال محمدخان
دنیامیں لڑی جانیوالی جنگوں کاایندھن ہمیشہ معصوم اوربیگناہ شہری ہی بنتے ہیں۔ماضی میں جب جس کی لاٹھی اسکی بھینس والاقانون رائج تھا اورہرطاقتورکمزورکونشانہ بنالیتاتھاتب بھی زیادہ نقصان عام شہریوں کواٹھاناپڑتاتھااوراب جبکہ دنیامتمدن ہوچکی ہے اوردعویٰ کیاجاتاہے کہ موجودہ دورکاانسان شائدتاریخ کاترقی یافتہ انسان ہے اوریہ سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کی نئی بلندیوں کوچھورہاہے اس دورکی جنگوں میں بھی معصوم اوربیگناہ شہری محفوظ نہیں بلکہ انہیں پہلے کے مقابلے میں دوگنے خطرات ونقصان کاسامناہے۔ماضی میں کوئی بھی ملک کسی بھی ملک پرلشکرکشی کرتااوراسکے سامنے جوبھی آتااسے تہہ تیغ کیاجاتا۔اگرچہ متمدن دورمیں جنگوں کی صور تیں بدل چکی ہیں مگرمعصوم شہریوں کا نقصان اب زیادہ ہونے لگاہے۔اب بیشترجنگوں میں میزائل داغے جاتے ہیں یاجہازوں کے ذریعے بمباری کی جاتی ہے اورجدیدجنگ کی یہ دونوں صورتیں نہتے شہریوں کی جانی ومالی نقصان کاباعث بنتی ہیں جس میں معصوم بچے، خواتین اوربزرگ بلاامتیازنشانہ بنتے ہیں۔ بارودی سرنگوں کے استعمال سے تو شہریوں کاجانی ومالی نقصان مزیدبڑھ چکاہے اب جنگوں کی تباہ کاریاں گھرگھرپہنچ چکی ہیں متحارب فریق ایکدوسرے کونقصان پہنچانے کیلئے بارودی موادیاسرنگیں نصب کرتے ہیں جس سے تربیت یافتہ فوجیوں کونشانہ بنانامشکل ہوتاہے مگر اس سے معصوم افرادلقمہء اجل بن جاتے ہیں۔سوویت یونین نے افغان جنگ میں کھلونابموں کابے دریغ استعمال کیاجس سے ہزاروں معصوم بچے نشانہ بنے۔سوویت یونین کی دیکھادیکھی دیگرترقی یافتہ ممالک نے بھی کھلونانمابموں کی نئی نئی شکلیں ایجادکیں کھلونے چونکہ بچوں کمزوری ہوتے ہیں اسلئے ان کھلونابموں کازیادہ نقصان معصوم بچوں نے اٹھایاہے۔سوویت افغان جنگ نے خطے کوبارودکے ڈھیرمیں تبدیل کیااورمعصوم شہریوں کومارنے کے نت نئے طریقے آزمائے گئے۔اسی زمانے میں یہ کھلونابم پاکستان بھی پہنچے اوراس سے معصوم بچوں کابے پناہ جانی نقصان ہوا۔کھلونابموں کے بعدبارودی سرنگوں نے بھی معصوم شہریوں کابے پناہ نقصان کیایہ سرنگیں سوویت افغان وارسے پاکستان میں داخل ہوئیں جس سے اب تک ان گنت اموات ہوچکی ہیں۔خیبرپختونخواکے ضم قبائلی اضلاع میں زمین میں دبی ہوئی بارودی سرنگیں اوربغیرپھٹے دھماکہ خیزمواد(UXO)عام شہریوں کیلئے ایک مستقل خطرے کا روپ دھارچکی ہیں۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ نقصان ان خواتین اوربچوں کاہوتاہے جواپنارزق کمانے کیلئے کھیتوں اورچراہ گاہوں میں جاتے ہیں وہ دیہاتی انجانے میں نشانہ بنتے ہیں جن کی زندگی مویشیوں سے جڑی ہے اوریہی انکی گزربسرکاذریعہ ہے یہ دیہاتی،خواتین اوربچے اپنے مویشی چراہ گاہوں میں لے جاتے ہیں جہاں دبی ہوئی بارودی سرنگیں انکی زندگی اورروزگاردونوں چھین لیتی ہیں۔یہ مسئلہ کوئی نیانہیں بلکہ اسکی ابتداافغان سوویت جنگ (1979ء سے1991ء)کے دوران ہوئی۔اس جنگ کے دوران پاک افغان سرحدی علاقوں میں ہزاروں بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جن میں سے ان گنت سرنگیں اب بھی موجودہیں جس سے انجانے میں کوئی بھی معصوم شہری نشانہ بن جاتاہے اوریاتوزندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یاپھرعمربھرکی معذوری اس کامقدربن جاتی ہے۔ سوویت افغان جنگ کی تباہ کاریاں اورچھوڑی گئی بارودی سرنگیں ابھی موجودتھیں کہ اس دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ کاآغازہواجس کے نتیجے میں پاکستان کے قبائلی علاقے میدان جنگ بن گئے۔ شدت پسندو ں کیخلاف فوجی آپریشنزہوئے توانہوں نے بارودی سرنگیں اوربوبی ٹریپس استعمال کئے تاکہ فوجی نقل وحرکت کوسست کیاجاسکے اورانہیں نقصا ن پہنچایاجاسکے۔شدت پسندوں نے بارودی مواداوراسلحہ زمین کے اندربھی چھپادیایاپھربارودی سرنگیں بچھائیں آپریشنزکے بعدوہ بارود ی موادجوپھٹ نہ سکااورزمین کے اندرموجودرہاوہ آج بھی موجودہے اورمعصوم شہریوں کی جانی ومالی نقصان کاباعث بن رہاہے۔ بارودی سرنگوں اورغیرپھٹے ہوئے بارودی مواد(UXOs)کامسئلہ اپنی جگہ ایک سنگین نوعیت کامعاملہ ہے مگرکچھ مخصوص تنظیمیں اورافراداس انسانی المئے کواپنے سیاسی مقاصدکیلئے استعمال کرتے ہیں وہ سوشل میڈیاپرجھوٹاپراپیگنڈاکرتے ہیں کہ یہ بارودی مواداورسرنگیں فوج نے بچھائی ہیں جس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کیلئے وہی ذمہ دارہے۔یہ الزامات حقائق کے برعکس ہیں کیونکہ دنیاکی کوئی بھی فوج اپنے ہی لوگوں کومارنے کیلئے بارودی سرنگیں کیونکربچھاسکتی ہے؟یہ جھوٹاپراپیگنڈاوہ عناصرپھیلارہے ہیں جوسیاسی عزائم رکھتے ہیں اورفوج کوبدنام کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ان شرپسندعناصرکی سرکوبی ضروری ہے جوماضی میں شدت پسندوں کی جانب سے یاجنگ میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کوسیکیورٹی اداروں کے سر تھوپتے ہیں حالانکہ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ فوج جوبھی کارروائی کرتی ہے وہ علی لاعلان کرتی ہے چوری چھپے بارودی موادنصب کرناتوسماج دشمن عناصرکی کارستانی ہے۔فوج کیخلاف اس جھوٹے پراپیگنڈے سے عوامی اعتمادکونقصان پہنچتاہے اورتوجہ اصل مجرموں سے ہٹانامقصودہوتاہے۔قبائلی اضلاع اوردیگرمقامات پربارودی سرنگوں کی موجودگی ایک سنگین چیلنج ہے جس کاحل بے بنیادالزامات لگانانہیں بلکہ اس سلسلے میں مقامی شہری،میڈیا،سول سوسائٹی اورپورے معاشرے کے ہر فرد کو اپناکرداراداکرنیکی ضرورت ہے۔عوام میں یہ شعوراجاگرکرنیکی ضرورت ہے کہ وہ کسی مشکوک چیزیاکھلونے کوہاتھ نہ لگائیں بلکہ ایسی صورت میں فوری طورپر متعلقہ اداروں کوآگاہ کریں اوربغیرتحقیق کوئی بھی خبرنہ پھیلائیں۔ضم قبائلی اضلاع اورخیبرپختونخواکے دیگرمقامات پر نصب بارودی سرنگیں اورموادمحض زمین کے اندرچھپے ہوئے ہلاکت خیزآلات نہیں بلکہ انسانی زندگی،معیشت اورعوامی اعتمادکیلئے کڑا امتحان ہے۔ اجتماعی طور پر مخلصانہ کوششوں،عوامی شعوراجاگرکرنے اورجھوٹے پراپیگنڈے کے سدباب سے ہی خیبرپختونخواکے بچوں،خواتین اور دیہاتیوں کومحفوظ بنایا جا سکتاہے۔خیبرپختونخوامیں بارودی سرنگوں کایہ ہلاکت خیزمعاملہ صوبائی،وفاقی حکومتوں اورمتعلقہ اداروں کی فوری اورسنجیدہ توجہ کامتقاضی ہے۔ ٍ
Aqeel Editorial on CM Change in KP

خیبرپختونخوا کہ تجربہ گاہ ؟

عقیل یوسفزئی
جنگ زدہ صوبے خیبرپختونخوا کو برسرِ اقتدار پارٹی پی ٹی آئی نے تجربہ گاہ میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ نیا تجربہ ایک اور وزیر اعلیٰ کی تعیناتی کی صورت میں کیا جارہا ہے کیونکہ موجودہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو جیل میں بیٹھے ان کے لیڈر نے فارغ کردیا ہے ۔ علی امین گنڈا پور کے بقول” وزیر اعلیٰ کی پوزیشن عمران خان کی امانت تھی اور ان کے حکم کے مطابق ان کی امانت ان کو واپس کرکے آپنا استعفیٰ دے رہا ہوں ”
دوسری جانب پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے اپنی بات چیت میں وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو صوبے میں جاری دہشت گردی پر قابو نہ پانے اور آپریشنز نہ روکنے پر وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا ہے ۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ جس روز وزیر اعلیٰ کو ہٹاکر ایک فوج مخالف امیدوار سہیل آفریدی کو نیا چیف ایگزیکٹیو نامزد کیا گیا اسی روز کرم میں ایک حملے کے دوران لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 سے زائد فوجی جوانوں کو شہید کیا گیا تھا ۔ اسی روز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں جاری دہشت گردی اور ممکنہ بھارتی جارحیت سے متعلق واضح موقف اختیار کیا گیا ۔ اسی روز وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل نے شہدائے کرم کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی مگر پی ٹی آئی یا صوبائی حکومت نے حسب معمول شہداء کے لواحقین کے ساتھ رسمی تعزیت یا اظہار ہمدردی کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ۔ اپر سے اس بیانیہ کی تشہیر جاری رہی کہ صوبے میں فوجی آپریشنز جاری ہیں حالانکہ پی ٹی آئی نہ صرف یہ کہ حملہ اور گروپوں کی حمایت کرتی آرہی ہے بلکہ بیڈ گورننس کے باعث صوبے میں ایسے گروپوں کے خلاف کارروائیوں سے بھی گریزاں ہے ۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کی وجہ ان کا وہ بیان ہے جو کہ انہوں نے عمران خان کے ساتھ کی گئی ملاقات کے ان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے خلاف دیا تھا ۔ یہ بات اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ پی ٹی آئی نے اسی دوران بیان جاری کیا کہ اب عمران خان کا بیان علیمہ خان کی بجائے نورین خان نیازی جاری کرے گی ۔ مطلب یہ کہ پارٹی چیئرمین کو نہ تو وزیر اعلیٰ ہر اعتماد ہے نہ علیمہ خان پر اور نہ ہی وہ پارٹی کے دیگر قائدین پر اعتماد کرتے ہیں ۔ یہ ایک ” فرسٹریشن” کی عکاسی کرنے والی صورتحال ہے تاہم اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس تمام پراسیس میں جنگ زدہ خیبرپختونخوا کو تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ بعض صحافتی حلقے اس پریکٹس کو عمران خان کی جانب سے آخری کارڈ کے استعمال کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک ایسے ناتجربہ کار بندے کو وزیر اعلیٰ نامزد کردیا ہے جو کہ ریاستی اداروں خصوصاً فوج کے خلاف ” شعلہ بیانی ” کی شہرت رکھتے ہیں ۔ ایسے نازک موقع پر ایسے شخص کی نامزدگی وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ کیسے “ڈیل” کی جائے گی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ صوبے کو پہلے ہی سے بہت سے انتظامی مسائل کا سامنا ہے اور ایک پرو طالبان وزیر اعلیٰ کے آنے سے حالات مزید پیچیدہ ہوں گے ۔
بظاہر سہیل آفریدی کے وزیر اعلیٰ بننے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی تاہم ایک بات بہت واضح ہے کہ اس ” ڈرامہ گردی ” کے بعد صوبے کی سیکیورٹی صورتحال اور انتظامی معاملات میں مزید ابتری واقع ہوگی اور اس کا خمیازہ پورے صوبے کو بھگتنا پڑے گا ۔