Pakistan Army team wins gold medal in Exercise Cambrian Patrol 2025

پاکستان آرمی کی ٹیم نے مشق کیمبرین پٹرول 2025 میں گولڈ میڈل جیت لیا

 آئی ایس پی آر کے مطابق کیمبرین پٹرول 2025 مقابلہ برطانیہ ویلز میں 3 سے 13 اکتوبر 2025 تک منعقد ہوا، کیمبرین پیٹرول عالمی سطح کی مشکل ترین فوجی مشقوں میں سے ایک ہے۔ اس مشق میں مختلف ممالک کی ٹیموں نے شرکت کی۔  آئی ایس پی آر کے مطابق ٹیموں نے سخت اور دشوارگزارعلاقوں میں 48 گھنٹوں میں 60 کلومیٹرکا فاصلہ طے کیا جب کہ مشق میں ٹیموں نے مختلف عسکری فرائض سرانجام دیے۔ آئی ایس پی آرکا بتانا ہے کہ اس سال 36 ممالک کی 137 ٹیموں نے مشق میں شرکت کی، پاکستان آرمی کی ٹیم نےکیپٹن محمد سعد کی قیادت میں شاندارکارکردگی پرگولڈ میڈل جیتا ہے۔  آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ کامیابی پوری قوم اور پاک فوج کیلئے باعثِ فخر ہے۔ پاک فوج پیشہ ورانہ مہارت،اعلیٰ تربیت،عزم کےساتھ وطن عزیزکاپرچم بلند رکھتی ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھے گی۔

Solidairity Rallies against Afghanistan Aggression

خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں پاک فوج سے یکجہتی کا اظہار

نوشہرہ، کرک، مہمند، چارسدہ، ہنگو، ایبٹ آباد اور دیگر اضلاع میں آج عوامی ریلیاں اور واک نکالی گئیں جن میں مقامی انتظامیہ، تاجربری، صحافی، سول سوسائٹی، قبائلی عمائدین اور عام شہریوں نے بھرپور شرکت کی اور پاک فوج سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

نوشہرہ میں واک ڈپٹی کمشنر آفس سے شروع ہو کر ASC اسکول کے گیٹ کے سامنے اختتام پذیر ہوئی۔ شرکاء نے “پاکستان زندہ باد” اور “پاک فوج زندہ باد” کے نعرے لگائے اور کہا کہ ہم اپنی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ملک کی دفاع کے لیے ہر محاذ پر لڑنے اور قربانی کے لیے تیار ہیں۔

کرک میں سول سوسائٹی کی ریلی ڈپٹی کمشنر آفس سے تحصیل چوک تک نکالی گئی جس میں بڑی تعداد میں شہری شریک رہے۔ مظاہرین نے افغان مہاجرین کی فوری ملک بدری کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ 40 سال تک مہمان نوازی کے باوجود بعض عناصر نے ملک کے خلاف حملے کیے ہیں، اس کا جواب دیا جائے۔ شرکاء نے شہداء کے لیے فاتحہ بھی پڑھی۔

مہمند میں عمائدین، تاجر اور سول سوسائٹی کے ارکان نے ریلی نکالی اور افغان حملوں کی مذمت کی۔ مقررین نے کہا کہ افغانستان میں موجود بعض عناصر یا بیرونی قوتوں بالخصوص بھارت کی ایما پر پاک وطن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ قبائلی عوام نے افواجِ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا۔

چارسدہ، ٹنگی اور ہنگو میں بھی ریلیوں کا انعقاد کیا گیا جن میں ضلعی انتظامیہ کے عہدیداروں نے شرکت کی اور شرکاء نے سرحدی خلاف ورزیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ لنڈی کوتل بازار میں منعقدہ ریلی میں شرکاء نے کہا کہ وہ امن چاہتے ہیں مگر ملک کی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے گا؛ اور تجارتی راستوں بالخصوص طورخم بارڈر کو جلد از جلد کھولنے کا مطالبہ بھی دہرایا گیا۔

تمام ریلیوں کے اختتام پر ملک و فوج کی سلامتی کے لیے دعا کی گئی۔ منتظمین کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرے پرامن تھے اور ان کا پیغام واضح ہے: خیبرپختونخوا کے عوام اپنی افواج کے ساتھ متحد ہیں اور سرحدی سلامتی کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔

Aqeel Editorial

پاک افغان کشیدگی اور جھڑپیں

عقیل یوسفزئی
یہ بات کافی تشویشناک ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک بار پھر کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملے پر نہ صرف یہ کہ بہت خراب ہوگئے ہیں بلکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے ۔ گزشتہ شب افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے پاکستان کے مختلف سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور ان کے ٹھکانوں پر ہونے والے غیر متوقع حملوں نے نارمل تعلقات کے امکانات کو تقریباً ختم کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ پاکستان کا رویہ مزید سخت اور غیر لچکدار ہوگیا ہے اور اسی تناظر میں پاکستان نے افغان حکومت کی جانب سے سیز فائر کی بار بار اعلانات کو مسترد کردیا ۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق پاکستان نے جوابی کارروائیوں کے دوران جہاں 200 سے زائد طالبان کو ہلاک کردیا وہاں تقریباً 2 درجن افغان چیک پوائنٹس اور عسکری مراکز کو تباہ کرکے ان پر وقتی قبضہ بھی کیا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ حملوں اور جھڑپوں کے نتیجے میں پاکستان کے 23 سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ 29 زخمی ہوئے ۔ بھارتی مداخلت اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے ایشوز پر آئی ایس پی کے بیانات میں بار بار دہراتے ہوئے کہا گیا کہ افغان عبوری حکومت اپنی سرزمین کو ایسی سرگرمیوں سے روکنے میں ناکام رہی ہے اس لیے پاکستان اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے دہشتگردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گا ۔
نامور تجزیہ کار سمیرا خان نے اس صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے محروم قابض افغان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان مخالف قوتوں کی سرپرستی کرتی آرہی ہے اور اب نوبت پاکستان جیسے مضبوط ملک پر حملوں تک پہنچ گئی ہے ۔ ان کے بقول پاکستان کے ساتھ سفارتکاری اور رابطہ کاری کے آپشنز شاید ختم ہوگئے ہیں اس لیے اس نے جوابی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے اور پاکستان کے مزید سخت اقدامات متوقع ہیں ۔ سینئر صحافی کاشف الدین سید کے مطابق یہ بات شاید محض ایک اتفاق نہ ہو کہ افغانستان نے یہ حملے ایسے وقت میں کیے جب افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر ہیں تاہم یہ خدشہ بھی قابل غور ہے کہ شاید افغان حکومت یا نظام میں موجود بعض عناصر نے کشیدگی بڑھانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہو تاکہ بھارت کو خوش کیا جائے اور علاقائی چیلنجز میں اضافے کا راستہ ہموار کیا جائے ۔
قبائلی صحافی عمر وزیر نے اس ضمن میں اپنے تبصرے میں کہا کہ حملوں کے دوران خیبرپختونخوا کے تقریباً نصف درجن قبائلی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ پاکستان کے ان مبینہ فضائی حملوں کا جواب ہے جو جو کہ چند روز قبل افغانستان میں کیے گئے تاہم پاکستان کے سخت فوجی ردعمل نے معاملے کو خطرناک بنادیا ۔ ان کے مطابق افغانستان کی غیر مقبول حکومت نے اپنے عوام کے وقتی تسلی کے لیے پاکستان مخالف کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے تاہم یہ مہم جوئی بہت مہنگی پڑسکتی ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کی دفاعی صلاحیتوں کا سرے سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا ۔