KP Roundup

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

وصال محمدخان

خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی 

ضم قبائلی ضلع خیبرسے تعلق رکھنے والے محمدسہیل آفریدی نے خیبرپختونخواکے32ویں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھالیاہے۔وہ صوبائی نشست پی کے70خیبر2سے 8فروری کے انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔اس سے قبل وہ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صوبائی صدر بھی رہ چکے ہیں۔سہیل آفریدی سے قبل علی امین گنڈاپور8اکتوبرکوبانی پی ٹی آئی کے حکم پرمستعفی ہوئے وہ مارچ2024ء کو وزیر اعلیٰ بنے تھے۔سہیل آفریدی مجموعی طورپرپی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صوبے کے چوتھے وزیر اعلیٰ ہیں۔ پرویزخٹک 2013ء اورمحمودخان2018میں وزیراعلیٰ بنے تھے یہ دونوں پارٹی سے راہیں جداکرچکے ہیں۔پرویزخٹک وزیراعظم شہبازشریف کے مشیرداخلہ ہیں جبکہ محمودخان پی ٹی آئی پی کے چیئرمین ہیں انکی پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں تین ارکان کی حمایت حاصل ہے۔خیبرپختونخواکی 145رکنی ایوان میں سادہ اکثریت کیلئے73ارکان کی حمایت درکارہے سہیل آفریدی نے 90ووٹ لئے وہ کسی قبائلی ضلع سے پہلے وزیراعلٰی ہیں اس سے قبل 31وزرائے اعلیٰ کاتعلق صوبے کے بندوبستی اضلاع سے تھاجن میں منتخب،غیرمنتخب اورنگران وزرائے اعلیٰ شامل ہیں۔2018ء انتخا با ت کے بعدگزشتہ سات سال میں یہ پانچویں وزیراعلیٰ ہیں 16اگست 2018ء کوحلف لینے والے محمودخان نے 18جنوری 2023ء کوقبل ازوقت اسمبلی توڑی توسنیئربیوروکریٹ اعظم خان نگران وزیراعلیٰ بن گئے۔اعظم خان 11نومبر2023ء کوانتقال کرگئے توانکی جگہ کابینہ کے رکن جسٹس ریٹائرڈارشدحسین نے وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالیں جوعلی امین گنڈاپورکے حلف لینے تک عہدے پر رہے۔خان عبدالقیوم خان بطوروزیراعلیٰ چھ سال(23اگست1947ء سے23اپریل1953)تک عہدے پرفائزرہے۔ انہیں سب سے زیادہ عرصے تک صوبے کے وزیراعلٰٰ رہنے کااعزازحاصل ہے۔خدائی خدمتگارباچاخان کے بڑے بھائی عبدلجبارخان المعروف ڈاکٹرخان صاحب قیام پاکستان سے قبل اوربعدمیں تین مرتبہ وزیراعلٰٰ بنے جبکہ آفتاب شیرپاؤدومرتبہ اس عہدے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ سردار بہادرخان اوراقبال جدون تین تین ماہ جبکہ پیرصابرشاہ چارماہ تک اس عہدہ جلیلہ پرفائزرہے۔جنرل (ر)فضل حق صوبے کے گورنر اوروزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں نبھانے والے منفردریکارڈکے حامل ہیں وہ ضیاء الحق دورمیں گورنراوربعدازاں نگران وزیراعلیٰ بھی رہے۔ سا بقہ فاٹا سے گورنرتوگزرے ہیں مگر وزیراعلیٰ پہلی بار سامنے آئے ہیں سہیل آفریدی نے منتخب ہونے کے بعداپنے پہلے خطا ب میں وفاق کیساتھ محاذآرائی بڑھانے کاعندیہ دیا اوردھمکی آمیززبان استعمال کرتے ہوئے کہاکہ ”میراقائدملٹری آپریشنز کیخلاف تھاتو ہم بھی اسکے خلاف ہیں،دہشتگردی کاحل آپریشنزنہیں،وفاقی حکومت کواس حوالے سے قبائلی مشران،عوام اورصوبائی حکومت کواعتمادمیں لینا ہوگا،9مئی کوریڈیوپاکستان کی عمارت جلانے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کااعلان کرتاہوں،یہ واقعہ تحریک انصاف کودباؤمیں لانے کیلئے کیاگیاتھا، وفاق کواپنی افغان پالیسی پرنظرثانی کرنی ہوگی، میں اپنے قائدکامشکورہوں جنہوں نے مجھ جیسے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کارکن کو وزیراعلیٰ بنوایا،میراکوئی بھائی یاخاندان کا فردسیاست میں نہیں اورنہ ہی میرے نام کیساتھ بھٹویازرداری کالاحقہ موجو د ہے،دیگر لو گ سیا ست کرتے ہیں جبکہ میں اپنے قائدسے عشق کرتاہوں،اندرون اوربیرون ملک کارکنوں کویقین دلاتاہوں کہ قائدکی رہائی کیلئے آج سے اقدامات لینے شروع کردئے ہیں،انکی رہائی کیلئے جواقدامات پہلے نہیں لئے گئے وہ میں لوں گا،اگرمیرے لیڈرکو مرضی کیخلاف کہیں او ر منتقل کیاگیاتومیں پورے پاکستان کوجام کردوں گا“سہیل آفریدی کی کابینہ ان سطورکی اشاعت تک سامنے نہیں آئی ان کاکہنا تھا کہ بانی سے ملاقات اورانکی اجازت کے بعدہی کابینہ تشکیل دینگے۔سوشل میڈیاپرزیرگردش مجوزہ کابینہ میں علی امین دورکے تین برطرف شدہ وزرا بھی شامل ہیں۔اسدقیصرکے بھائی عاقب اللہ اورشہرام ترکئی کے بھائی فیصل ترکئی کوگنڈاپورنے اپنے استعفے سے چندروزقبل ہی مستعفی ہو نے پرمجبورکیاتھاجبکہ ملاکنڈ سے شکیل خان کوسال بھرپہلے کرپشن کے الزامات پروزارت سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔اگریہ تینو ں نئی حکومت میں شامل ہوتے ہیں تو اس سے واضح ہوجائیگاکہ علی امین کوناقص کارکردگی،امن وامان یاملٹری آپریشنزنہ روکنے پرنہیں باہمی اختلا فا ت کے باعث عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ نئی حکومت کے سامنے امن وامان سمیت بیڈگورننس کا معاملہ بھی ہے۔ تحریک انصا ف کی گزشتہ حکومت وفاق کیساتھ محاذآرائی اوراحتجاجوں میں مصروف رہنے کے سبب گورننس پرتوجہ نہ دے سکی۔نئے وزیراعلیٰ نے جن عزائم کااظہارکیاہے ان پرکاربندرہنے کی صورت میں صوبے کامزیدنقصان ہوگا۔علی امین گنڈاپورصوبے کی عوام اورپارٹی کارکنوں میں غیرمقبول ہوگئے تھے اس لئے انکے استعفیٰ پرپارٹی کے اندریاباہرکہیں سے بھی کوئی آوازنہیں اٹھی۔ نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے پہلے صوبا ئی صدرجنیداکبر،اسدقیصراوردیگرقائدین نے سیاسی رواداری کامظاہرہ کرتے ہوئے اے این پی،جے یوآئی،ن لیگ اوردیگرجماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کیں اوران سے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں تعاون کی درخواست کی۔اے این پی نے کسی کاساتھ دینے کی بجائے نیوٹرل رہنے کی پالیسی اپنائی ایمل ولی خان کا کہناتھاکہ پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہے ہم کسی غیرجمہور ی عمل کاحصہ نہیں بنیں گے۔گورنرنے علی امین کے استعفے پرٹال مٹول کے ذریعے سسپنس پیداکرنیکی کوشش کی مگر وفاق اورصوبائی اپوزیشن کی عدم دلچسپی سے انہیں پیچھے ہٹناپڑا۔اپوزیشن جماعتوں کاخیال تھاکہ علی امین کی ناقص کارکردگی کے سبب پی ٹی آئی عوام میں غیرمقبول ہورہی ہے حکومت چھن جانے کی صورت میں اسے سیاسی شہیدبننے اورنئی لائف لائن ملنے کاامکان ہے۔

پاک افغان سرحد پر جھڑپوں کے بعد کشیدگی برقرار

افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پرحملوں کے جواب میں پاک فوج نے بھرپورجوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں نہ صرف افغان طالبان کاحملہ پسپاکردیاگیابلکہ جوابی حملوں میں ٹی ٹی پی اوردیگردہشتگردتنظیموں کے ٹھکانوں کوبھی نشانہ بنایاگیا۔ابتدائی جھڑ پوں اوربھرپورجواب کے بعدکرم کیساتھ ملحقہ سرحدپرایک بارپھرحملہ کیاگیاجسے پسپاکرنے کے بعدکابل اورقندہارمیں دہشتگردکیمپوں کو نشانہ بنایاگیا۔اس بھرپورحملے نے افغان طالبان کوجنگ بندی کی اپیلیں کرنے پرمجبورکردیا۔نئے وزیراعلیٰ نے وفاق کی افغان پالیسی کو تنقیدکانشانہ بنایاہے بانی پی ٹی آئی نے بھی پے رول پررہائی کی صورت میں معاملہ حل کرنے کابیان جاری کیاہے مگرجب اس معاملے میں امریکہ،چین، روس،ترکی اورایران کی کوششیں بارآورثابت نہ ہوسکیں توپی ٹی آئی قیادت یاوزیراعلیٰ کیاکرداراداکرسکتے ہیں؟ طالبان رجیم کی درخواست پر بدھ کی شام چھ بجے سے 48گھنٹے کیلئے عارضی جنگ بندی عمل میں آئی ہے۔افغان عبوری حکومت کوذمہ داری کامظاہرہ کرناہوگاتاکہ خطے میں امن اوراستحکام ہواورعوام کوسکون کاسانس نصیب ہو۔پاک فوج نے نہ صرف افغانستان کے اندربلکہ خیبر پختو نخوا میں بھی دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈکارروائیاں کی ہیں جن کے نتیجے میں درجنوں شدت پسندہلاک کئے جاچکے ہیں۔

Editorial

سیز فائر کے باوجود پاک افغان کشیدگی برقرار

عقیل یوسفزئی
پاکستان ایئر فورس نے سرکاری تصدیق کیے بغیر گزشتہ شب وزیرستان سے ملحقہ افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں متعدد حملے کرتے ہوئے پاکستانی شدت پسند تنظیم حافظ گل بہادر کے متعدد مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جبکہ گزشتہ تین چار دنوں کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعلان کردہ سیز فائر کے باوجود مختلف دو طرفہ حملوں اور کارروائیوں کے نتیجے میں خیبرپختونخوا کے مختلف سرحدی علاقوں میں 100 سے دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا جبکہ 8 سے زائد سیکورٹی اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہوئیں ۔
پاکستان کے سیکورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پکتیکا میں واقع دہشت گرد ٹھکانوں میں 50 سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے تاہم افغان میڈیا اور حکام نے موقف اختیار کیا کہ ان حملوں میں کرکٹ کے بعض کھلاڑیوں سمیت عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ یہی بحث گزشتہ ماہ انہی علاقوں میں کرایے گیے حملوں کے دوران بھی سامنے آئی تھی ۔
افغان حکام کے مطابق پکتیکا پر حملے کرکے پاکستان نے سیز فائر کا معاہدہ توڑ دیا ہے تاہم دوسری جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ آج یعنی 18 اکتوبر کو دوحہ قطر میں پاکستانی اور افغان وفود کے درمیان حالیہ کشیدگی پر مذاکرات ہوں گے ۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستانی وفد میں دوسروں کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ اور قومی سلامتی کے مشیر جنرل عاصم ملک بھی شامل ہوں گے ۔ ماہرین کے مطابق اس پراسیس اور سیز فائر کو قطر کے علاوہ سعودی عرب اور چین کی حمایت بھی حاصل ہے تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی مسلسل ائیر اسٹرایکس اور وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت دیگر کے جارحانہ انداز گفتگو سے یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان اب کے بار کراس بارڈر ٹیررازم کے خاتمے کی آخری یقین دہانی کرایے بغیر مصالحت نہیں کرے گا ۔
خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سال 2021 کو طالبان رجیم کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان پر افغانستان کی سرپرستی میں 10 ہزار سے زائد دہشت گرد حملے کیے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز اور عوام کے 3844 آفراد شہید ہوئے ہیں ۔ ان کے بقول پاکستان کے اعلیٰ ترین حکام نے جہاں اس عرصے میں ایک انگیجمٹ پراسیس کے ذریعے تقریباً 10 بار کابل کے دورے کیے بلکہ مختلف فورمز کے ذریعے سینکڑوں بار افغانستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں مگر رواں مہینے افغانستان نے بھارت کی پراکسی بن کر پاکستان پر حملے کیے جن کا نہ صرف جواب دیا گیا بلکہ اب افغانستان کے ساتھ ماضی کے برعکس دشمن کی طرح سلوک کیا جائے گا ۔
اسی تناظر میں 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں تین وزراء اعلیٰ اور وفاقی وزراء سمیت فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھی شرکت کی ۔اس اجلاس میں کراس بارڈر ٹیررازم پر سخت ردعمل دینے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ یہ بھی طے پایا کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو ہر صورت میں باہر نکالا جائے گا ۔ اجلاس میں خیبرپختونخوا کے نو منتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی دعوت کے باوجود یہ کہہ کر شریک نہیں ہوئے کہ وہ عمران خان کی اجازت کے بغیر ایسے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوسکتے جس پر مختلف سیاسی اور عوامی حلقوں نے شدید تنقید کی کیونکہ جاری جنگ سے انہی کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا آرہا ہے ۔
دوسری جانب کابل سے اس قسم کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اور بعض دیگر معاملات پر دو بڑے اسٹیک ہولڈرز حقانی نیٹ ورک اور قندھاری گروپوں میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور اس قسم کی اطلاعات زیر گردش رہیں کہ شاید افغانستان میں رجیم چینج کی کوئی صورت حال پیدا ہو ۔ اسی روز یہ خبر سامنے آئی کہ افغان طالبان کے سربراہ شیخ ہیبت اللہ نے نایب وزیر داخلہ کو ان کے عہدے سے برخاست کرکے اپنا بندہ تعینات کردیا ہے کیونکہ وہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ۔ اسی ہی دوران کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے کہا کہ وہ زندہ اور محفوظ ہیں اور یہ کہ وہ افغانستان کی بجائے اپنے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اس پروپیگنڈا میں کوئی حقیقت نہیں کہ ہم افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے آرہے ہیں ہم افغانستان کی جگہ پاکستان کے اپنے قبائلی علاقوں ہی میں موجود رہ کر پاکستان کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں ۔
رواں مہینے یعنی ماہ اکتوبر کے دوران اس تمام منظر نامے میں جس تیزی کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات حالات جنگ میں تبدیل ہوئے اور جس تیزی کے ساتھ دو طرفہ حملوں کی تعداد بڑھتی گئی وہ دوسروں کے علاوہ ماہرین اور دوست ممالک کے لیے بھی غیر متوقع اور تشویش ناک ثابت ہوئے اور لگ یہ رہا ہے کہ جاری جنگ میں اب نہ صرف پاکستان کے اندر تیزی واقع ہوگی بلکہ یہ پاکستان سے باہر بھی لڑی جائے گی ۔
( 17 اکتوبر 2025 )