Wisal M Khan Article

وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اورکابینہ میں شمولیت کے آرزومندوں کی سرگرمیاں

وصال محمدخان
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اورکابینہ میں شمولیت کے آرزومندوں کی سرگرمیاں
سہیل آفریدی 15اکتوبرکونئے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھاچکے ہیں مگرانکی یک رکنی حکومت تادم تحریر کابینہ کے بغیرچل رہی ہے۔وہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے خواہاں ہیں تاکہ انکی ہدایات کے مطابق کابینہ بنائی جائے اس سلسلے میں وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے بھی اپیل کرچکے ہیں۔اس ملاقات کوبے جاطورپرایشوبناکراچھالاجارہاہے متعلقہ اداروں کو یہ ملاقات کروادینی چاہئے کیونکہ یہ معاملہ میڈیااور سو شل میڈیاپرسیاست چمکانے کیلئے استعمال ہورہاہے۔ بہرحال یہ ملاقات ہوجانے پرصوبے میں کابینہ کااعلان متوقع ہے۔ دریں اثنا وزیر اعلیٰ ہاؤس وزارت کے آرزو مندوں کامرکزبناہواہے تحریک انصاف کے تمام دھڑے اپنے اپنے ارکان کی کابینہ میں شمومیت کیلئے ایڑھی چوٹی کازورلگارہے ہیں۔ جنیداکبراورعاطف خان کادھڑاعلی امین گنڈاپورکی جانب سے برطرف شدہ وزیرشکیل خان جبکہ اسدقیصراورشہرام ترکئی اپنے اپنے بھائیوں کی کابینہ میں شمولیت کیلئے سرگرداں ہیں ان دونوں کوبھی گنڈاپورکابینہ سے برطرف کیاگیاتھاایک تاثر یہ بھی ہے کہ گنڈاپورکی رخصتی میں ان دونوں کی برطرفی نے بھی اہم کردارادا کیاہے۔ اطلاعات کے مطابق علی امین گنڈاپوربھی اپنے گروپ کے ارکان کوکابینہ میں شامل کروانے کے خواہاں ہیں۔ کچھ ذرائع کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیاہے کہ کابینہ کی تشکیل میں روپوش راہنما مراد سعیدکااہم کردا ر ہوگا گزشتہ دوہفتوں سے کابینہ کی تشکیل کیلئے جوڑتوڑ،میل ملاقاتوں اورداؤپیچ کاسلسلہ جاری ہے۔سہیل آفریدی نے خاصے دنوں تک تن تنہاحکومتی ذمہ داریاں سنبھالے رکھی جسے کچھ حلقوں نے غیرآئینی قراردیا۔ اس دوران انہوں نے وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا پولیس کو فراہم کردہ بلٹ پروف گاڑیاں واپس کردیں ان کے مطابق یہ گاڑیاں ناقص ہیں حالانکہ گاڑیاں ابھی اسلام آبادمیں تھیں جنہیں وزیراعلیٰ کے انکارپربلوچستان حکومت کے حوالے کیاگیا۔وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے اس فیصلے کوبچگانہ قراردیتے ہوئے شدیدتنقیدکانشانہ بنایااورکہاکہ ”نابالغ سوچ نے پولیس جوانوں اورافسران کیلئے خطرات بڑھادئے،عوام سوال پوچھیں کہ دہشت گردتوجدیدہتھیاروں سے لیس ہیں،مگرپولیس کے پاس بلٹ پروف گاڑیاں تک نہیں یہ فیصلہ بے وقوفانہ اورقابل افسوس ہے، اس سے پولیس اورعوام کی زند گیوں کوخطرے میں ڈال دیاگیاہے،خیبرپولیس ہویاکوئی اورادارہ وفاق ہرممکن سہولت فراہم کریگی،تاکہ دہشتگر دی کاخاتمہ ممکن ہو، وفاق صوبے کودہشتگردی کی مدمیں 600ارب روپے سے زائدکی رقم فراہم کرچکی ہے صوبائی حکومت کے پاس اس کاکوئی حساب نہیں،صوبے کو عالمی معیارکی بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی گئیں جس کی فی گاڑی قیمت 10 کروڑ روپے ہے جنہیں بغیر دیکھے واپس کردیاگیا،یہی گاڑیاں وفاقی وزرابھی استعمال کررہے ہیں، اس اقدام سے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں انکی غیر سنجیدگی ظاہر ہورہی ہے کوتاہ فہم قیادت صوبے کونقصان سے دوچار کررہی ہے“۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے صوبے کے اعلیٰ افسران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کسی سیاسی کارکن پر3ایم پی اوکے تحت مقدمہ درج نہ کیاجائے، 8 فرو ری کو خیبرپختونخوا کے عوام کی مینڈیٹ پربھی ڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہوئی جسے بیوروکریسی اورپولیس نے ناکام بنادیا،مگرکچھ کمزورلوگ دباؤ برداشت نہ کرسکے،چیف سیکر ٹری ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کریں،کرپشن کے خلاف ہماری پالیسی واضح ہے جس پر عملدر آمد سر کا ری ملازمین کافرض ہے، سرکاری ملازمین اورہم عوام کے خادم ہیں کسی سرکاری ملازم سے عوام مطمئن نہ ہونیکی صورت میں اسے عہدے پررہنے کاکوئی حق نہیں، ہمیں روایتی اندازسے ہٹ کرکا م کرنا ہوگا“۔ اس موقع پرانہوں نے ضم قبائلی اضلاع کیلئے ٹرائبل میڈیکل کالج اورٹرائبل یونیورسٹی آف ماڈرن سائنسزکے قیام کااعلان کرتے ہوئے کہاکہ”اسکے کیمپس تمام ضم اضلاع میں قائم کئے جائینگے اور ارشد شریف کے نام سے یونیورسٹی آف انویسٹی گیٹواینڈماڈرن جنرنلزم بنائی جائیگی“۔صوبائی اسمبلی سے خطاب میں ان کاکہناتھاکہ ”وفاقی حکومت ہمیں وارآن ٹیرر کے فنڈزسمیت دیگرحقوق نہیں دے رہی،صوبے کے منتخب نمائندے کواپنے قائدسے ملنے کی اجازت نہیں دی جاری اگریہی روش برقراررہی تو عوام کے پاس جانے اوراحتجاج کے سواکوئی چارہ نہیں ہوگا،فی الحال میں 24اکتوبر کو چارسدہ،25 کو خیبرجبکہ 26 کو کرک میں جلسوں سے خطاب کروں گا،کرک جلسے میں آئندہ کے لائحہء عمل کااعلان بھی ہو گا“۔

آٹے کے معاملے پربریفنگ
وزیراعلیٰ کو آٹے کے بحران پربریفنگ میں بتایاگیاکہ گندم کی سالانہ ضرورت 53لاکھ میٹرک ٹن جبکہ صوبے کی اپنی پیداوار15لاکھ میٹرک ٹن ہے بقیہ ضرورت پنجاب اوردیگرذرائع سے پوری کی جاتی ہے۔ صوبے کے پاس 2لاکھ73ہزارمیٹرک ٹن گندم موجودہے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ پنجاب سے گندم اورآٹے کی ترسیل پرپابندی ہے،چینی کے حوالے سے بتایاگیاکہ صوبے کی سالانہ ضرورت10لاکھ میٹرک ٹن ہے 30فیصدگھریلوجبکہ70فیصدکمرشل مقاصدکیلئے استعمال ہوتی ہے اس وقت صوبے کے پاس 4لاکھ 80 ہزارمیٹرک ٹن چینی کاذخیرہ موجودہے۔آٹابحران کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کاکہنا تھاکہ ملک میں اشیائے خوردونوش کی نقل وحمل پرپابندی آئین کی خلاف ورزی ہے پنجاب حکومت سیاسی اختلاف کے سبب خیبر پختونخوا کے بنیادی حقوق سلب کررہی ہے آٹے اورگندم کی ترسیل اورنقل وحمل پرعائدپابندی ہٹانے کیلئے پنجاب حکومت کومراسلہ ارسا ل کر رہے ہیں۔،وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے منتخب ہونے اور حلف لینے کے بعدعوامی مسائل پرتوجہ دینے کی بجائے اپنے پیشروعلی امین گنڈا پور کی طرح بانی چیئرمین کی رہائی کوترجیح قراردیاہے۔وہ بارباراس کا اظہاربھی کررہے ہیں اوروفاق کودھمکی آمیززبان میں مخاطب بھی کر رہے ہیں انکے قول وفعل سے واضح ہورہاہے کہ انہیں عہدہ ہی وفاق کیساتھ محاذآرائی اورفوج کے خلاف بیانات کیلئے ملاہے۔جس مقصد کیلئے وہ عہدے پرمتمکن ہوئے ہیں وہ توپوراکررہے ہیں مگرعوامی مسائل پرکوئی توجہ نہیں۔

بلدیاتی نمائندوں کاخط
صوبے کے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارا ت کے حصول،بلدیاتی اداروں کوترقیاتی فنڈزنہ دینے سمیت دیگرمسائل کیلئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کوخط لکھنے کافیصلہ کیاہے خط کیساتھ بلدیاتی اداروں کے حق میں کئے گئے عدالتی فیصلے بھی بھیجے جائینگے۔بلدیاتی نمائندوں کے مطابق پی ٹی آئی کی سابق اورموجودہ حکومتوں نے بلدیاتی نظام کومفلوج کردیاہے جس سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہواہے۔

بارڈربندش اور افغان مہاجرین کی واپسی
افغانستان کیساتھ جنگ بندی کے بعدبارڈربارہ دن تک بندرہا۔دوحہ معاہدے کے بعدکئی روزتک سرحد کھولنے کاامکان ظاہر کیاجارہاتھا طورخم بارڈرپر کسٹم اورسکریننگ عملہ بھی پہنچ چکاتھا مگرگیٹ کھولنے کے احکامات موصول نہیں ہورہے تھے۔اس دوران سپین بولدک میں پھنسی 5سوسے زائدپاکستانی گاڑیاں واپس آنے میں کامیاب ہوئیں۔ایف آئی اے حکام کے مطابق بارڈرکی بندش سے 5 ہزارسے زائد پاکستانی افغانستان میں پھنس چکے تھے جواب واپس آسکیں گے۔محکمہ داخلہ خیبرپختونخواکے مطابق صوبے سے اب تک 6 لاکھ 25 ہزار 842افغان مہاجرین واپس جاچکے ہیں۔ڈی پورٹ شدہ افراد میں 9ہزار8سو30افغان سٹیزن کارڈہولڈرزبھی شامل ہیں۔

Editorial

امن کے قیام کے لیے اہم اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داریاں

عقیل یوسفزئی
سیکیورٹی چیلنجز اور پاک افغان کشیدگی کے نئے منظر نامے کے باوجود خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت یا ریاست کے درمیان گزشتہ تین برسوں سے چلی آنیوالی کشیدگی یا تصادم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوپارہی جس کے باعث خیبرپختونخوا کے مسائل اور انتظامی معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں ۔ خیبرپختونخوا محض اس وجہ سے صوبائی کابینہ سے محروم ہے کہ پنجاب حکومت صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو ان کے لیڈر سے ملاقات کرنے نہیں دے رہی ۔ یہاں تک کہ جمعرات کے روز بھی ان سمیت سلمان اکرم راجہ اور جنید خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملنے نہیں دیا گیا ۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے پھر سے واضح کردیا کہ وہ اپنے قائد سے رہنمائی حاصل کیے بغیر کابینہ تشکیل نہیں دیں گے اور یہ کہ اگر جاری رویہ اس طرح جاری رہا تو وہ اپنے عوام سے رجوع کرنے کا یعنی احتجاج کا آپشن استعمال کریں گے ۔ دوسری جانب سنجیدہ تجزیہ کار اس بات پر تشویش اور حیرت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو بانی پی ٹی آئی سے ملنے کیوں نہیں دیا جارہا ؟
سینئر تجزیہ کار نجم سیٹھی کے مطابق یہ ایک نامناسب رویہ ہے ایک طرف بانی پی ٹی آئی کو بنی گالا منتقل کرنے کی پیشکش کی جارہی ہے تو دوسری جانب ایک حساس صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ان سے ملنے نہیں دیا جارہا ۔ ان کے بقول لگ یہ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے کوئی ایسی بات یا حرکت کروانی چاہتی ہے جس سے بانی کی کمزوری ظاہر ہو ۔
نامور اینکر پرسن بتول راجپوت نے اس ضمن میں اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ایک وفاقی وزیر کی جانب سے عمران خان کو بنی گالا منتقل کرنے کی پیشکش کی گئی ہے مگر اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کو عوام اور لیڈر شپ سے دور رکھنے کے لیے بلوچستان کی مچھ جیل میں منتقل کیا جائے ۔
اس تمام تر کشیدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ اور دیگر پارٹی لیڈران کے پاس اتنا اختیار بھی نہیں ہے کہ وہ ایک فرد واحد کی اجازت کے بغیر کابینہ تشکیل دیں ۔
اسی طرح کے بعض اشارے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے گزشتہ روز غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ ٹوپی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیئے ہیں ۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا میں گورننس کی گیپس نے صوبے کی سیکیورٹی صورتحال کو پیچیدہ بنادیا ہے مگر صوبے کے حکمرانوں کو اس کے نتائج اور اثرات کا کوئی ادراک نہیں ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اپنی صلاحیت اور قربانیوں کے ذریعے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا نہ صرف دفاع کریں گی بلکہ ضرورت پڑنے پر ماضی کی طرح ہر اس جگہ کو نشانہ بنایا جائے گا جہاں سے دہشتگردی کی سہولت کاری ہورہی ہو۔
یہ تمام صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ اور محاذ آرائی کا رویہ اور سلسلہ ترک کرکے کم از کم قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز اپنا اپنا کردار ادا کریں کیونکہ پاکستان کو بوجوہ اندرونی خطرات کے علاؤہ اپنی دونوں سرحدوں پر بھی کشیدگی کا سامنا ہے ۔
( 24 اکتوبر 2025 )