Chairman Joint Chiefs of Staff Committee (CJCSC) General Sahir Shamshad Mirza has held meetings with the sultan of Brunei Darussalam

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا دورہ برونائی دارالسلام

جنرل ساحر شمشاد مرزا، NI, NI (M)، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (CJCSC) نے برونائی دارالسلام کے سرکاری دورے کے موقع پر حضرت سلطان حاجی حسنال بولکیہ معیزالدین ودولہ ابنی المرحوم سلطان حاجی عمر‘ علی سیف الدین السعودیہ اور سید الانبیاء السعودیہ سے ملاقات کی۔ برونائی دارالسلام کا دی پرتوان۔

CJCSC نے Yang Berhormat Pehin Datu Lailaraja میجر جنرل (ریٹائرڈ) Dato Paduka Seri Awang حاجی حلبی بن حاجی محمد یوسف، وزیر اعظم کے دفتر اور وزیر دفاع-II اور میجر جنرل داتو پڈوکا سیری حاجی محمد حسائمی بن بول رومن فار آرمڈ روم کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ اس کے علاوہ، CJCSC نے KDB دارالامان میں مورا نیول بیس اور ڈیفنس اکیڈمی رائل برونائی آرمڈ فورسز کا بھی دورہ کیا، جہاں انہوں نے “علاقائی امن اور استحکام میں پاکستان کی شراکت” پر گفتگو کی اور 19 بیرونی ممالک کے افسران سمیت کمانڈ اینڈ اسٹاف کورس کے طلباء سے بات چیت کی۔

ملاقاتوں کے دوران، دونوں اطراف نے عالمی اور علاقائی سلامتی کے ماحول پر تبادلہ خیال کیا۔ چیئرمین جے سی ایس سی نے برونائی دارالسلام کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار تعلقات پر زور دیا اور ملٹری ٹو ملٹری تعلقات اور دفاعی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

برونائی دارالسلام کے سلطان اور سول ملٹری قیادت نے پاکستان کی مسلح افواج کے اعلیٰ پیشہ وارانہ معیارات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی کامیابیوں اور قربانیوں کو سراہا۔

ہیڈ کوارٹر رائل برونائی آرمڈ فورسز پہنچنے پر، چاق و چوبند فوجی دستے نے CJCSC کو ‘گارڈ آف آنر’ پیش کیا۔

Wisal Article

خیبرپختونخواحکومت کی تبدیلی

وصال محمدخان
8فروری2024ء کومنعقدہ انتخابات کے نتیجے میں وفاق اورچاروں صوبوں میں جوحکومتیں تشکیل دی گئی تھیں انہیں اب20ماہ کاعرصہ ہو چکاہے۔حکومتی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی وفاقی اورصوبائی حکومتیں اپنے کام میں جت گئیں مگرخیبرپختونخواکی واحدحکومت تھی جوحکومتی امور پر توجہ دینے اورعوامی مسائل حل کرنے کی بجائے غیرفروعی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئی۔اگرگزشتہ 20ماہ کی کارکردگی کاسرسری جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگاکہ اس حکومت کے زیادہ تراقدامات، زیراعلیٰ کے بیانات اورحرکات وسکنات ایسے تھے جوکسی حکومت کوزیب نہیں دیتے۔ ابتداہی سے وزیراعلیٰ،علی امین گنڈاپورنے اپنی ترجیحا ت کاجوتعین کیااس میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی،9مئی مقدمات کاخاتمہ اور گرفتار کارکنوں کی رہائی کے احکامات سرفہرست تھے۔گڈگورننس اورخان صاحب کے وژن کاتڑکابھی گاہے بگاہے لگتارہامگرحکومت کی اصل منشا بانی کی رہائی تھی جس کیلئے وہ کچھ بھی کرگزرنے پرآمادہ تھی اوراس سلسلے میں عملی کارروائیوں سے بھی گریزنہیں کیاگیا۔کسی سیاسی جماعت کو اپنے قائدکی رہائی کیلئے کوششیں کرنامکروہ عمل نہیں بلکہ یہ اس کا آئینی حق ہے مگرخیبرپختونخواکی حکومت جس طریقے سے بانی کی رہائی کیلئے سرگرم عمل تھی و آئین اوراخلاقیات دونوں کے خلاف تھا۔علی امین گنڈاپورجتھہ بازی اور بزوربازواپنے قائدکی رہائی کے خواہاں تھے اس سلسلے میں انہوں نے جوبیانات دئے ان کالب لباب یہ تھاکہ وہ خیبرپختونخواسے بہت بڑی تعدادمیں عوام کونکال کرپنجاب پرحملہ آور ہو نگے اوروفاق سمیت پنجاب کی حکومتیں انکے احتجاج سے مجبورہوکربانی کورہاکردیں گی بلکہ پنجاب اوروفاقی حکومتیں مستعفی ہوکرملک انکے حوالے کردیں گی۔اوراس طرح ملک کوحقیقی آزادی مل جائیگی جوبانی کاوژن ہے یہ پی ٹی آئی یااسکی صوبائی حکومت کاخواب تھاجسے تعبیر ملنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بھی تھا۔مگرصوبائی حکومت اورحکمران جماعت بضدتھے کہ وہ اپنے بانی کواسی طریقے سے رہائی دلوائیں گے۔اس سلسلے میں چارمرتبہ پنجاب اوراسلام آبادپرحملہ آورہونے کی کوشش کی گئی مگرہربارایک نئی داستان چھوڑکریاتوراہ فراراختیارکیاگیایاپھرنئی تاریخ دیکراحتجاج کومعطل کیاگیا۔مگرمحمودخان کے آخری چند ماہ اورعلی امین گنڈاپورکے بیس ماہ حکومتوں میں پرتشدداحتجاجوں،دھمکی آمیز بیانات اورانقلاب کے دعوؤں کی ناکامی سے ثابت ہواکہ کوئی بھی بات ریاست سے بزوربازومنواناممکن نہیں۔اگرایساممکن ہوتاتوآج بانی پی ٹی آئی یاتووزیراعظم کی کرسی پربراجمان ہوتے یا پھر کم ازکم جیل میں نہ ہوتے۔علی امین گنڈاپورکی بیس ماہی حکومت میں بانی کی رہائی کیلئے کیاکیاحربے نہیں آزمائے گئے،وفاق اورریاست کودھمکیاں اورتڑیاں لگاناتوروزکامعمول تھا،احتجاج بھی کیاگیاجس میں تشدد کا عنصر بھی شامل رہا،خیبرپختونخواکے سرکاری وسائل کوسیاسی احتجاجوں کیلئے بروئے کارلایاگیا،سرکاری محکموں کے اہلکاروں کوپنجاب اور اسلام آبادپرچڑھائی کیلئے استعمال کیاگیا،1122کی گاڑیاں تاحال اسلام آبادپولیس کی حراست میں ہیں اٹھتے بیٹھتے حکومت اوراسکے تمام کارپردازوں کادعویٰ ہوتاتھاکہ اس بارکے احتجاج سے بانی رہا ہوجائینگے۔اورہم اڈیالہ جیل کادروازہ توڑکرانہیں پشاورلے آئیں گے اس طرح کے ان گنت غیرضروری اورخالی خولی دعوے کئے گئے مگر کسی دعوے میں صداقت کاشائبہ تک موجودنہ تھا۔گنڈاپورحکومت میں وفاق اورریاست کیساتھ محاذآرائی کاروئیہ اپنایاگیایہ شائدپاکستانی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کااضافہ تھااس سے قبل کسی صوبے نے اس طرح وفاق پرچڑھائی نہیں کی اورنہ ہی وفاق پرقبضے کی بڑھکیں لگائی واحدگنداپورہی تھے جنہوں نے وزیراعظم ہاؤس کے بیڈرومزمیں گھسنے کی باتیں کیں مگربیس ماہ کی سرپھٹک کے بعدانہیں محسوس ہواکہ پاکستان کوئی بناناری پبلک نہیں یہاں نیپال یابنگلہ دیش کی طرح کسی احتجاج سے من پسندنتائج کاحصول ممکن نہیں اسلئے علی امین کی باتوں میں اب وہ دم خم نہیں رہاتھاجوابتداکے دنوں میں ہواکرتاتھا۔بانی پی ٹی آئی نے علی امین کاجتنااستعمال کرناتھاوہ کرچکے اب انہیں معلوم ہوا تھاکہ مزیداس قسم کے ڈھکوسلوں سے کام چلنے والانہیں اسلئے انہیں تبد یل کرنے کافیصلہ کیاگیااورقرعہ فال سہیل آفریدی کے نام نکلا۔سہیل آفریدی اب پاکستان کے اس صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں جہاں آئے روزدہشتگردحملے ہوتے ہیں جن میں بیگناہ اورمعصوم شہریوں سمیت سیکیورٹی فورسزکے اہلکاراورافسران نشانہ بنائے جاتے ہیں اس صوبے کے ساتھ افغانستان کابارڈر غیرمحفوظ تصورکیاجاتاہے سہیل آفریدی کے ہوتے ہوئے اس بارڈرپرافغانستان سے ایک بڑاحملہ ہوچکاہے جس میں دودرجن سے زائدسیکیورٹی اہلکارجان کی بازی ہارچکے ہیں مگرسہیل آفریدی کاٹیون بھی وہی ہے جوعلی امین گنڈاپورکاتھابلکہ یہ ان سے دوہاتھ آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔اگریہ دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں تواس تبدیلی کی کیاضرورت پیش آگئی تھی؟ تبد یلی کی دوتوجیح پیش کی جارہی ہیں ایک تویہ کہ پی ٹی آئی کے پاس عوام کوبتانے کیلئے کوئی کارنامہ نہیں علی امین کوپہلے توبڑے طمطراق سے وزیراعلیٰ بنایاگیاحکومت سازی کے وقت بڑے بڑے دعوے کئے گئے مگرانہیں وہ کام کرنے نہیں دیاگیاجس کام کیلئے عوام نے ووٹ دئے تھے۔عوام کامسئلہ کسی کی رہائی یااسیری نہیں بلکہ اپنے سلگتے ہوئے مسائل ہیں،عوام کومناسب نرخوں پرآٹے کی ضرورت ہے،علاج اورتعلیمی سہولیات اورسب سے بڑھکرزندگی کاتحفظ چاہئے۔مگرحکومت کی ترجیحات میں عوامی مسائل نہیں اسلئے حکومت عوام میں غیرمقبول ہورہی ہے جس سے توجہ ہٹانے کیلئے سہیل آفریدی کوسامنے لایاگیاہے وہ نہ توقدآورسیاستدان ہیں،نہ کسی معتبرسیاسی خاندان سے تعلق ہے اورنہ ہی پارلیمانی جمہوریت کاوسیع تجربہ رکھتے ہیں بس انکی تعیناتی کے یہی مقاصدہیں کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے بٹ جائے نئے وزیراعلیٰ زیادہ دھمکی آمیززبان استعمال کریں جس سے عوام کوبہلایااورورغلایاجائے۔بانی پی ٹی آئی کواپنی رہائی کیلئے سیاسی داؤپیچ آزمانے کی ضررورت ہے ایک صوبے کوغلط طریقے سے اپنے سیاسی مقاصدکیلئے استعمال کے سنگین نتائج برآمدہونگے۔خیبرپختونخواکی نئی حکومت کو آزادانہ کام کرنے دیاجائے وزیر اعلیٰ کو اڈیالہ جیل کے باہرتھیٹرلگانے کی بجائے حکومتی اموراورذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے سخت ہدایات جاری کی جائیں۔اگرسہیل آفریدی بھی گزشتہ حکومت کے نقش قدم پرچلتے رہے توحکومت کی یہ تبدیلی محض میلے کپڑوں کاتبادلہ ثابت ہوگا۔