Aspire KP Round Table Conference

Aspire-KP کا گول میز مذاکرہ: پاکستان-افغانستان تعلقات اور خطے پر اثرات پر غور

پشاور: پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں Aspire-KP کے زیرِ اہتمام “پاکستان۔افغانستان تناؤ اور اس کے علاقائی اثرات” کے موضوع پر ایک اہم گول میز مذاکرہ منعقد ہوا، جس میں ماہرین، سابق بیوروکریٹس، تجارتی نمائندے، مذہبی سکالرز اور تعلیمی حلقوں کے افراد نے شرکت کی۔

افتتاحی خطاب میں Aspire-KP کے چیئرمین اور سابق چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا محمد شہزاد ارباب نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان تاریخی، جغرافیائی اور تجارتی لحاظ سے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، جس کا کوئی متبادل ممکن نہیں۔ شرکا نے زور دیا کہ تصادم، دباؤ اور سخت پالیسیوں سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ یہ خاص طور پر پشتون آبادی کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

مذاکرے میں ماہرین نے تجویز دی کہ حکومت افغان معاشرت، تاریخ اور سیاست کو گہرائی سے سمجھنے والی شخصیات کی خدمات سے فائدہ اٹھائے تاکہ پالیسی سازی میں درست سمت اختیار کی جا سکے۔ اس کے علاوہ شہری سفارتکاری (Citizen Diplomacy) اور معاشرے کے تمام طبقات، جیسے مذہبی رہنما، میڈیا، تعلیمی ادارے اور تجارتی برادری، کو مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

شرکا نے دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات کو سیاست سے الگ رکھنے، افغان طلبہ کو جامعات میں تعلیم بغیر رکاوٹ جاری رکھنے، اور افغان مہاجرین کی واپسی میں شفافیت اور مؤثر نگرانی یقینی بنانے کی بھی سفارش کی تاکہ انسانی حقوق کا احترام کیا جا سکے۔

گول میز میں سابق ACS فاٹا حبیب اللہ خان خٹک، ارباب محمد عارف، ضیاء الحق سرحدی، ڈاکٹر رسول جان، ڈاکٹر قبلہ ایاز، ڈاکٹر عظمت حیات اور سینیٹر نور الحق قادری سمیت دیگر اہم شخصیات نے حصہ لیا۔

مذاکرے کے اختتام پر یہ اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ہمہ جہتی اور شہری سفارتکاری کے اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ خطے میں پائیدار امن اور تجارتی استحکام قائم ہو۔

Article

صوبائی حکومت کاامن جرگہ

گزشتہ ہفتے صوبائی حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوااسمبلی میں امن جرگہ منعقدکیاگیا۔اس جرگے کیلئے دس بارہ روزسے تیاریاں کی گئی تھیں۔امن جرگہ میں شرکت کیلئے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کودعوت دی گئی تھی۔جرگہ میں جن قدآورسیاسی شخصیات نے شرکت کی ان میں سابق وزیراعلیٰ آفتاب شیرپاؤ،اے این پی کے صوبائی صدرمیاں افتخارحسین،جماعت اسلامی کے سابق امیرسراج الحق،علامہ ناصر عباس،پیرصابرشاہ،گورنرفیصل کریم کنڈی،وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اوراپوزیشن لیڈرڈاکٹرعباداللہ قابل ذکرہیں۔جرگہ میں سابق وزرائے اعلیٰ، گورنرز،سابق اورموجودہ ارکان قومی وصوبائی اسمبلی سمیت 20سے زائدسیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت،وکلاء،تاجروں،سول سوسا ئٹی کے نمائندوں اورزندگی کے دیگرشعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افرادنے کثیرتعدادمیں شرکت کی۔جرگے کی میزبانی سپیکربابرسلیم سوا تی نے کی۔جرگہ شرکاء کی جانب سے تجاویزآنے پرسپیکر نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کرسنایا۔ جرگے نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے اس میں دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہے اورکہاگیاہے کہ دہشتگردی کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کواعتمادمیں لیاجائے، داخلی سلامتی کی ذمہ داریاں پولیس اورسی ٹی ڈی کودی جائیں،غیرضروری چیک پوسٹیں ختم کی جائیں،خیبرپختونخوا کے شورش زدہ علاقوں میں معدنیات کی غیرقانونی منتقلی روکی جائے،پاک افغان تجارتی راستے کھولے جائیں،افغان پالیسی میں صوبائی حکومت سے مشاورت کی جائے، افغانستا ن کیساتھ جنگ کی بجائے سفارتکاری کوترجیح دی جائے،صوبائی حکومت اوراسمبلی نیشنل ایکشن پلان مرتب کریں،امن و امان کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کی منظورشدہ قراردادوں پرفوری عملدرآمدکیاجائے،پولیس اورسی ٹی ڈی کو صوبے کی سلامتی کی قیادت سونپ دی جائے اور ضرورت پڑنے پردیگراداروں سے معاونت لی جائے،صوبائی حکومت پولیس اورسی ٹی ڈی کی خصوصی مالی معاونت کرے،امن جرگہ نے تجویزدی کہ صوبائی اسمبلی اورحکومت صوبائی ایکشن پلان مرتب کریں،وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے درمیان تناؤ کو ختم کیاجائے،مشترکہ مفادات کونسل کااجلاس آئینی مدت کے مطابق بلایاجائے،غیرقانونی محصولات اوربھتہ خوری کے خاتمے کیلئے مربوط پالیسی بنائی جائے،صوبائی اسمبلی کو سیکیورٹی اداروں کی کارروائیوں اورقانونی بنیادوں پربریفنگ دی جائے،صوبائی سطح پرامن کیلئے فورسزقائم کی جائیں، مقامی حکومتوں کے استحکام اورمالی تحفظ کیلئے ترامیم کی جائیں،نیشنل فنانس کمیشن کوصوبائی فنانس کیساتھ منسلک کیا جائے،وفاق کے ذمے صوبے کی آئینی اور مالی حقوق کی مدمیں رقوم اداکی جائیں،آرٹیکل 151کے تحت بین الصوبائی تجارت پرعملدر آمد کیاجائے۔جرگے کے اعلامیہ اورسفارشات میں بہت سے نکات ایسے بھی ہیں جن کاتعلق صوبائی حکومت سے ہے۔محصولات اوربھتہ خوری،مقامی حکومتوں کومالی تحفظ کیلئے ترامیم اور صوبائی سطح پرامن فورسزجیسے معاملات صوبے کادائرۂ اختیارہے مقامی حکومتیں بارہ سال سے پی ٹی آئی حکومتوں کی عتاب کاشکار ہیں۔اس دوران دومرتبہ 2015ء اور2021ء میں بلدیاتی انتخابات منعقدکئے گئے مگر منتخب نمائندوں نے اپنادورانیہ حقوق کیلئے سڑکوں پراحتجاج میں گزاردیا،وہ عدالتوں سے رجوع کررہے ہیں اورکبھی وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنے دے رہے ہیں مگرصوبائی حکومتیں انہیں اپناحق دینے پرآمادہ دکھائی نہیں دے رہیں۔اس سلسلے میں محمودخان اورگنڈاپور حکومتو ں نے جو کردار اداکیاوہ قابل رشک نہیں ان دونوں حکومتوں نے بلدیاتی نمائندوں سے ان کاحق چھینااورانہیں فنڈزواختیارات سے محروم رکھا۔ صوبائی سطح پرامن فورسزقائم کرنے کانعرہ خوش کن ضرور ہے مگرپی ٹی آئی حکومتوں نے اب تک امن وامان کامعاملہ سنجیدہ لیاہی نہیں گنڈا پور اور سہیل ٓافریدی نے سیکورٹی فورسزپر تنقیدکے تیر برسا نے کے سواکچھ نہیں کیا۔بھتہ خوری کاخاتمہ اورمحصولات بھی صوبائی معاملات ہیں۔جرگہ سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے اپنے خطاب میں کہاکہ”دہشتگردی سے تمام جماعتیں یکساں متاثرہوتی ہیں بم اور بارودبلاتفریق سب کونشانہ بناتے ہیں،وقت آچکاہے کہ سیاست اور سیاسی اختلافات سے بالا ترہوکرایک مشترکہ پالیسی اپنائی جائے،امن تب قائم ہوگاجب دہشتگردی کاخاتمہ ہوگا،بندکمروں کے فیصلوں سے امن نہیں آئیگاوفاق ہماراقرضدارہے،اسے ہمارے واجبات ادا کرنے ہونگے“۔گورنرفیصل کریم کنڈی نے کہاکہ”درپیش چیلنجزکے پیش نظرماضی کوبھلانا ہوگا،افغانستان ہماراپڑوسی ہے، جسکے ساتھ معاملات بات چیت سے حل کرنیکی ضرورت ہے“۔سپیکر بابر سلیم سواتی نے کہاکہ”ہماری فوج دنیاکی بہادرترین فوج ہے اورپولیس بھی فرنٹ لائن پرڈٹی ہوئی ہے،فوج اورپولیس کی انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنزاور بیش بہاقربانیوں کے باوجودصوبہ امن سے محروم ہے جوکسی المئے سے کم نہیں“۔اے این پی کے صوبائی صدرمیاں افتخارحسین نے کم وقت ملنے پر شکوہ کیا۔ شکایت دورکرتے ہوئے انہیں پورا موقع دیاگیا انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ ”صوبائی حکومت کو امن کیلئے اونرشپ لینی ہوگی،گزشتہ بارہ برس سے ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے جس پرتمامترذمہ داری عائدہوتی ہے، ہم نے دوران حکومت دہشتگردی کیخلاف مکمل اونرشپ لی جس کی ہمیں قیمت بھی اداکرنی پڑی، وفاقی،صوبائی حکومتوں اوراداروں کوجامع پالیسی بنانی ہوگی، تنازعا ت کاحل مذکرا ت میں ہے تمام بارڈرزکھو لے جائیں اورذمہ داری صوبائی حکومت کوسونپ دی جائے،گڈاوربیڈکی تفریق ختم کرکے تمام جماعتوں اور شدت پسندتنظیموں پرپابندی عائدکی جائے انکے مالی وسائل پرنظررکھی جائے اورانہیں اپنے نظریات کی ترویج کی اجازت نہ دی جائے“۔ سابق وزیراعلیٰ آفتاب شیرپاؤنے کہا کہ”جرگہ امن کے معاملے پربلایاگیاہے مگرصوبے کے اوربھی مسائل ہیں،صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے استفسارہوناچاہئے کہ نیشنل ایکشن پلان پرعمل کیونکرنہ ہوسکا؟“۔وحدت المسلمین کے صدر علامہ ناصرعباس نے کہاکہ پاکستان کو پُر امن بنانے کیلئے تمام ایشیائی ممالک کواپناکرداراداکرناچاہئے،27ویں آئینی ترمیم ظلم ہے اسکے خلاف احتجاج کرینگے“۔ جماعت اسلامی کے سابق امیرسراج الحق نے کہاکہ جنگ کی باتیں کرنیوالے کابل اورپشاورکی تباہی کے خواہاں ہیں،آفتاب شیرپاؤکی سربراہی میں جرگے نے کابل سے بات چیت کی تھی اس جرگے کودوبارہ تشکیل دیاجائے،صوبے اوروفاق کے درمیان چپقلش سے معاملا ت آگے نہیں بڑھ رہے۔ سابق وزیراعلیٰ پیرصابرشاہ نے کہاکہ پاکستان دہشتگردی کاشکارہے،پاکستان گیس ذخائرکے اعتبارسے دنیاکا پانچواں بڑاملک ہے اگر ہم اپنے معدنی وسائل درست طریقے سے استعمال کریں توہمیں امداددینے والے ہم سے امدادمانگیں گے۔سابق گورنرشوکت اللہ خان نے کہاکہ جرگے کی آوازافغانستان تک جانی چاہئے ہم نے انکے ساتھ اپنی روٹی بانٹی مگریہ لوگ جاتے ہوئے پاکستان کوگالیاں دے رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ڈاکٹرعباداللہ نے کہاکہ جرگہ محض نشتندگفتندبرخاستندتک محدودنہیں ہوناچاہئے۔ دوسری جانب امن جرگہ میں دعوت کے باوجودسابق وزرائے اعلیٰ اکرم درانی،پرویزخٹک،امیرحیدرہوتی،علی امین گنڈاپور،اورسابق گورنرزاویس احمدغنی،اقبال ظفر جھگڑا،بیرسٹرمسعودکوثر،لیفٹیننٹ جنرل (ر)محمدجان اورکزئی اورسردارمہتاب عباسی شریک نہیں ہوئے۔

Editorial

ادارہ جاتی اصلاحات اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں

27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں جسٹس امین الدین خان نے جمعے کے روز پاکستان کی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی حیثیت سے صدر مملکت آصف علی زرداری سے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ۔ تقریب حلف برداری میں وزیر اعظم ، اور وفاقی وزراء کے علاؤہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے ۔
حکومتی ذرائع کے مطابق وفاقی آئینی عدالت 13 ججوں پر مشتمل ہوگی جن کی نامزدگی تمام وفاقی یونٹوں سے کی جائے گی ۔ قبل ازیں سپریم کورٹ کے دو ججز اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف بطور احتجاج استعفے دیئے جبکہ ایک اور جج مسرت ہلالی نے خرابی صحت کے بہانے آئینی عدالت کا جج بننے سے معزرت کرلی ہے ۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی نے 27 آئینی ترمیم پر تبادلہ خیال کے لیے فل کورٹ اجلاس بلالیا کے جس میں متعلقہ امور کا جائزہ لیا جائے گا ۔
یوں بعض حلقوں کی مخالفت اور تحفظات کے باوجود 27 ویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس کے بارے میں ترمیم کے حامیوں اور حکومت کا موقف ہے کہ اس عمل سے عدالتی نظام میں توازن پیدا کرنے کا راستہ ہموار ہو جایے گا ۔ عسکری قیادت کے اختیارات کی تقسیم اور نئے طریقہ کار کا عمل بھی مکمل ہوگیا ہے ۔
دوسری جانب فورسز سیکیورٹی اداروں نے نہ صرف یہ کہ اسلام آباد خودکش حملہ میں ملوث پورے نیٹ ورک کو گرفتار کرلیا ہے بلکہ فورسز نے باجوڑ میں انٹلیجنس بیسڈ اپریشن کرتے ہوئے 22 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کردیا ہے جبکہ علاقے میں سرچ آپریشن سمیت دیگر کارروائیاں جاری ہیں ۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اسلام آباد حملے میں ملوث 4 رکنی دہشت گرد سیل کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور مزید اقدامات جاری ہیں ۔
رپورٹس کے مطابق اسلام آباد اور وانا کیڈٹ کالج کے خودکش حملوں کی نہ صرف یہ کہ پلاننگ افغانستان میں کی گئی بلکہ ان دونوں حملوں میں بعض افغان باشندوں نے باقاعدہ حصہ بھی لیا شاید اسی پس منظر میں وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے متعدد بار یہ وارننگ دی کہ پاکستان افغانستان کے اندر مزید کارروائیاں کرنے کا نہ صرف حق محفوظ رکھتا ہے بلکہ متوقع کارروائیوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ بھی لیا جارہا ہے ۔
خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے بھی ایک گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستان کے مسلسل کوششوں کے باوجود افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال ہورہی ہے جو کہ تشویش ناک ہے ۔
ماہرین کے مطابق کاؤنٹر ٹیررازم کے حوالے سے آیندہ چند روز بہت اہم ہیں اور اس بات کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے کہ پاکستان حسب سابق افغانستان کے اندر جاکر بعض ” ٹھکانوں” کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں ۔
عقیل یوسفزئی
( 14 نومبر 2025 )