Khyber Pakhtunkhwa: 15 Indian-backed Khawarij killed during security forces operations

خیبر پختونخوا: سیکورٹی فورسز کی مختلف کارروائیوں میں 15 دہشت گرد ہلاک

آئی ایس پی آر کیمطابق 15 اور 16 نومبر کو سکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا میں دو مختلف کارروائیاں کیں، آپریشن الخوارج کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع پر کیا گیا۔ سکیورٹی فورسز نے ڈی آئی خان کے علاقے کلاچی اور شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا۔ آپریشنز کے دوران دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا گیا۔

شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق کاروائیوں کے دوران بھارتی حمایت یافتہ فتنۂ الخوارج کے 15 دہشتگرد ہلاک کر دیے گئے، ایک کارروائی میں 10 اور دوسری کارروائی میں 5 خوارج ہلاک کر دیے گئے۔ کلاچی میں آپریشن کے دوران ہلاک خوارج میں دہشت گردوں کا سرغنہ عالم محسود بھی شامل ہے۔ بھارتی سرپرستی یافتہ خوارج کےخاتمے کیلئے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ غیر ملکی پشت پناہی یافتہ دہشتگردی کے مکمل خاتمے تک انسداد دہشتگردی کی مہم جاری رکھیں گے۔

News

 347 طلبہ میں 6 کروڑ 40 لاکھ روپے کے سکالرشپس چیکس تقسیم

پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے پیر کے روز وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں مختلف جامعات میں زیرِ تعلیم انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ 347 طلبہ میں 6 کروڑ 40 لاکھ روپے مالیت کے سکالرشپس چیکس تقسیم کیے۔ تقریب محکمہ اعلیٰ تعلیم کے تحت منعقد ہوئی، جس میں صوبائی وزیر مینا خان آفریدی، محکمہ کے حکام، جامعات کے سربراہان اور طلبہ نے شرکت کی۔

وزیر اعلیٰ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خیبر پختونخوا ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے لیے 300 ملین روپے اضافی فنڈز فراہم کرنے کا اعلان کیا، جس میں 200 ملین روپے بندوبستی اضلاع اور 100 ملین روپے ضم شدہ اضلاع کے لیے مختص ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سکالرشپس کی فراہمی کا مقصد صوبے کے متوسط اور کمزور طبقے کے طلبہ کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ کوئی بھی ہونہار طالب علم مالی مشکلات کے باعث اپنی تعلیم ترک نہ کرے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے نوجوان باصلاحیت ہیں اور انہیں صرف مواقع دینے کی ضرورت ہے۔ “ہم قائد عمران خان کے وژن کے مطابق نوجوانوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ معیاری تعلیم اور بہتر صحت کی سہولیات ہماری اولین ترجیح ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے تعلیمی نظام میں مارکیٹ سے ہم آہنگ مضامین شامل کیے جا رہے ہیں تاکہ طلبہ قومی اور عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں اور فارغ التحصیل ہوتے ہی نہ صرف روزگار حاصل کریں بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔

وزیر اعلیٰ نے مزید بتایا کہ صوبہ طلبہ کے لیے انٹرن شپ پروگرام شروع کر رہا ہے تاکہ نوجوان عملی تجربہ حاصل کر سکیں اور بے روزگاری کے مسئلے میں کمی آئے۔ “ہماری تمام پالیسیاں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں اور ہم بہتر گورننس کے ذریعے ڈیلیور کر کے دکھائیں گے۔”

تقریب میں بریفنگ دیتے ہوئے حکام نے بتایا کہ رواں سال وزیر اعلیٰ ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ اور خیبر پختونخوا ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت 347 سکالرشپس جاری کی جارہی ہیں جن کے لیے 15 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔ درخواستوں کی جانچ اور سیلیکشن کے لیے آن لائن پورٹل استعمال کیا جا رہا ہے جو شفاف اور خودکار طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ حکام نے یہ بھی بتایا کہ صوبائی حکومت کے سکالرشپ پروگرام کے تحت GIK، NUST، IBA اور قائداعظم یونیورسٹی سمیت ملک و صوبے کی نمایاں جامعات میں طلبہ مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

Editorial

ثقافت کو درپیش چیلنجز

عقیل یوسفزئی
جاری بدامنی نے اگر ایک طرف پاکستان بلخصوص خیبر پختونخوا کے سیاسی ، سماجی اور ثقافتی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کرکے رکھ دیا ہے ۔ ہم عموماً اس بدامنی یا جنگ کے عسکری اور سیاسی اثرات پر بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر جاری صورتحال نے نہ صرف یہ کہ نسلوں کو متاثر کیا بلکہ ہمارے سماجی ڈھانچے کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے ۔
مثال کے طور پر خیبر پختونخوا بشمول پشاور میں سنیما گھروں کی مسماری کے عمل کو پیش کیا جاسکتا ہے جس پر کوئی بھی بات کرتے دکھائی نہیں دیتا ۔ گزشتہ ایک دہائی میں صرف پشاور میں تقریباً 10 سنیما گھروں کو مسمار کرکے کمرشل پلازے بنائے گئے ۔ یہی صورتحال مردان ، سوات ، ایبٹ آباد اور متعدد دیگر شہروں میں بھی دیکھنے کو ملی ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ چند ہفتوں کے دوران پشاور میں مزید دو سنیما گھروں کو مسمار کیا جائے گا ۔ عالمی قوانین کے تحت اگر کسی سنیما کو مسمار کیا جاتا ہے تو اس احاطے میں بننے والی عمارت میں سنیما گھر قائم کیا جائے گا مگر پاکستان میں اس قانون کو کوئی فالو نہیں کرتا ۔ یہ دلیل بہت ” فرسودہ” ہے کہ سنیما گھر اس لیے ختم ہو رہے ہیں کہ اچھی فلمیں نہیں بنتیں ۔ یہ کہانی کا ایک جز ہے ۔ اسی طرح نشتر ہال پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کسی ہال میں کوئی ثقافتی سرگرمی ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اس جمود کو توڑنے کی عملی کوشش کی جائے ۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے سیکٹری سیاحت ، ثقافت اور آثار قدیمہ ڈاکٹر عبد الصمد خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کو قدرت نے مثالی ثقافتی اور تاریخی ورثے سے نوازا ہے اب کوشش کی جارہی ہے کہ نہ صرف نئے سنیما گھر بنانے والوں کی حکومتی سرپرستی کی جائے بلکہ نشتر ہال سمیت دیگر پلیٹ فارمز کو فنکاروں اور تخلیق کاروں کے لیے حکومتی سرپرستی میں دستیاب بنایا جائے ۔ انکے بقول انہوں نے گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان میں نئے عجائب گھر کا افتتاح کیا جبکہ متعدد عجائب گھروں کی آپ گریڈیشن کی گئی ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پشاور میں موجود دلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کو قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے ان گھروں کو محفوظ بنانے کے کام کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے اور مزید متعدد منصوبے زیر تکمیل ہیں۔
سنیما گھروں کی مسماری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نامور اداکار ، ڈایریکٹر ارشد حسین نے کہا ہے کہ اگر ایک طرف جاری بدامنی نے سنیما گھروں سمیت تمام ثقافتی مراکز کو بری طرح متاثر کیا تو دوسری جانب حکومتی عدم توجہی اور انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کے منفی کردار نے بھی پشتو فلم ، ڈرامے اور تھیٹر کو برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ ان کے بقول صوبے میں چند برس قبل تک سرے سے کوئی کلچر پالیسی ہی نہیں تھی ۔ پالیسی بنائی گئی تو اب اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا کیونکہ یہ حکومت کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں ہے ۔
سینئر صحافی امجد ہادی کے مطابق پشتو فلم اور سنیما انڈسٹری کو بہت سے عناصر نے اپنی نااہلی ، عدم توجہی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کے باعث ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔ ان کے بقول فلمیں نہ چلنے کے باعث مالکان نے سنیما گھروں کو کمرشل پلازوں میں تبدیل کردیا کیونکہ ان کا مقصد پیسے کمانا ہے تاہم یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ متعلقہ حکومتی اداروں نے بھی جاری صورتحال پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔