ڈی جی آئی ایس پی آر کی گفتگو اور صوبائی حکومت
عقیل یوسفزئی
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے گزشتہ روز اسلام آباد کے صحافیوں کے ساتھ ایک نشست میں ریاست پاکستان اور مسلح افواج سے متعلق اہم امور پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ دنوں پڑوسی ملک افغانستان پر فضائی حملے نہیں کئے اور جب کرےگا تو اس کا اعلان بھی کیا جائے گا تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ افغان حکومت کے ساتھ اس وقت تک بات چیت نہیں کی جاسکتی جب تک وہ کراس بارڈر ٹیررازم کے خاتمے کے ” قابل تصدیق اقدامات” نہیں کرتی ۔ ان کے بقول پاکستان افغان عوام کا خلاف ہے نا ہی ہم سویلین کو نشانہ بناتے ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے گڈ اور بیڈ طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے اور سب کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کی جارہی ہیں ۔ گزشتہ حکومت کے دوران افغان عبوری حکومت کے ذریعے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کیے گئے مذاکرات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت کی سیاسی حکومت کا فیصلہ تھا اور فوج ایک حکومتی ادارے کے طور پر سیاسی حکومتوں کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے تاہم نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ وہ پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت اب بھی مذاکرات اور مفاہمت کی وکالت اور بات کرتی ہیں ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مخصوص پارٹی نہ صرف یہ کہ دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاست اور فورسز کے ساتھ تعاون نہیں کررہی بلکہ اس کے بیرون ملک موجود سوشل میڈیا فورمز اور ہینڈلرز ریاست اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم جوئی میں مصروف عمل ہیں ۔ ان کا موقف تھا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کے برعکس بلوچستان کی صوبائی حکومت دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے باعث وہاں دہشت گردی کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں صورتحال مختلف ہے ۔
مذکورہ بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی مزمل سہروری نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جہاں خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف ایک بار پھر چارج شیٹ پیش کی ہے وہاں انہوں نے افغانستان میں رجیم چینج کی کسی عملی یا براہ راست کوشش سے لاتعلقی کا بھی اظہار کیا اور خیبرپختونخوا کی حکومت کی بجائے بلوچستان حکومت کو مینڈیٹ سے نوازا ہے ۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی گزشتہ روز اپنے وکیل کے ہمراہ ہزارہ میں دوران الیکشن کمپین شریک ہونے کی پاداش میں ملنے والے الیکشن کمیشن کے نوٹس کے تناظر میں پیش ہوئے جہاں ان کے کیس کے پریکٹس کو چار دسمبر تک چلانے کا فیصلہ کیا گیا تاہم اسی دوران خیبرپختونخوا اسمبلی کے منعقدہ اجلاس میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی جانب سے وہی لہجہ استعمال کیا گیا جو کہ وہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے گزشتہ ڈیڑھ دھائی سے اختیار کرتے آرہے ہیں ۔ یہی وہ رویہ ہے جس کے باعث خیبرپختونخوا میں امن قائم نہیں ہورہا اور صوبائی حکومت کی تمام توجہ اپنے بانی کی رہائی پر مرکوز ہے حالانکہ ہری پور میں ایوب خان فیملی کو ضمنی الیکشن میں عبرتناک شکست نے اس پارٹی کے پارلیمانی مستقبل کو مشکوک بنادیا ہے ۔
