نوجوان ہماراقیمتی سرمایہ

وصال محمدخانی
یہ بات شک وشبہے سے بالاترہے کہ نوجوان کسی ملک کاقیمتی سرمایہ ہوتا ہے موجودہ سرپٹ بھاگتی دوڑتی ہوئی دنیامیں اگرچہ کسی بھی عمرکے فردکوبے کارقرارنہیں دیاجاسکتا مگرجوان عمرکے افرادنہ صرف کسی ملک کاآج سنوارتے ہیں بلکہ یہ مستقبل میں بھی ملک کی بھاگ ڈورسنبھا لتے ہیں وطن عزیزمیں جس طرح دیگرایج گروپ کے لوگ استحصال کاشکارہیں اسی طرح نوجوانوں کوبھی وہ مواقع میسر نہیں جس سے وہ اپنی اورقوم کی تقدیرسنوارسکیں یہاں نوجوانوں کے ذہن میں یہی بات بٹھادی گئی ہے کہ وہ سرکاری نوکری کرینگے توقابل رشک زندگی گزار نے کے قابل ہونگے ورنہ دھکے ہی کھاتے پھروگے چونکہ یہاں تعلیم کے مواقع انتہائی محدودہیں،تعلیم کاحصول ازحدمشکل ہے تعلیم مہنگی ہے جوغالب اکثریت کی پہنچ سے دورہے جن نوجوانوں کوتعلیم کی سہولت حاصل ہے انہیں مناسب رہنمائی دستیاب نہیں کچھ عرصہ قبل تک توخواتین کی تعلیم کومعیوب سمجھاجا تاتھامگراب ملک کے بیشترحصوں میں خواتین کی تعلیم پرتوجہ دی جارہی ہے چونکہ ماہرخواتین کی کمی ہے جس کایہ نقصان ہورہاہے کہ بچیاں محض سرکاری سکول میں ٹیچربننے کی تعلیم حاصل کررہی ہیں تاکہ وہ تعلیم سے فارغ ہوکر سرکاری سکول میں ٹیچربھرتی ہوں راقم کے مشاہدے میں درجنوں بچیاں آئی ہیں جنہوں نے بی اے،بی ایڈوغیرہ کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے یہ تعلیم انہوں نے جان جوکھوں میں ڈال کرحاصل کی ہے لیکن یہ بچیاں سرکاری سکولوں میں اسامیاں خالی ہونے کے انتظارمیں جوانی کی دہلیزپارکرجاتی ہیں مگرملازمت انکی پہنچ سے دورہوتی ہے مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہرنوجوان بچی کاخواب سرکاری سکول میں ٹیچربننااورہرنوجوان بچے کاسپناکلرک بننارہ گیاہے سکولوں میں ایسامیکانزم بنائے بغیرجوان خون کوملکی ترقی کیلئے بروئے کارنہیں لایاجاسکتاجس سے ابتدائی سطح سے بچے یابچی کوپڑھنے لکھنے کیساتھ ساتھ فنی تعلیم کے زیورسے بھی آراستہ کیاجائے تاکہ وہ ٹیچریابابوبننے کی بجائے دیگر سینکڑوں پیشوں میں سے کسی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کالوہامنوائے جن ملکوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ترقی کی منازل طے کی ہیں وہاں کلرک اورسرکاری سکول کاٹیچر بننے کی بجائے نوجوانوں کو دیگرشعبوں کی جانب راغب کیاجاتاہے جاپان،چین اورکوریامیں نوجوان چارچار ایم اے کرنے کی بجائے کسی بھی شعبے میں مہارت کی ڈگری حاصل کرتے ہیں فنی مہارت کی ڈگری نہ صرف اپنے ملک کے کام آتی ہے بلکہ بیرون ملک بھی اسکی مانگ ہوتی ہے یہاں صرف پڑھایاجاتاہے سکھایانہیں جاتا اورجوسکھایاجاتاہے اس سے فائدہ اٹھانایاتوجان جوکھوں کاکھیل ہے یاپھراسکے مواقع دستیاب نہیں حکومتی سطح پرنوجوانوں کیلئے تعلیم کے مواقع پیداکرنے کے محض دعوے کئے جاتے ہیں مگرموقع مہیاکرنے پرکوئی توجہ نہیں دی جاتی یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کاحال اورمستقبل دونوں تباہ ہورہے ہیں مناسب سہولیات اورمواقع نہ ملنے کے سبب نوجوان منشیات کے عادی بن رہے ہیں، مذہبی انتہاپسندوں کاروپ دھاررہے ہیں،دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ رہے ہیں، چورڈاکواوررہزن بن رہے ہیں، یاپھرعمران خان جیسے فتنے کی باتوں میں آکراپنی ہی محافظ فوج کے تنصیبات پرحملے کررہے ہیں 9مئی کے واقعات میں ملوث نوجوان اگر عمران خان جیسے سہانے سپنے بیچنے والے سے متاثرنہ ہوتے توملکی تاریخ میں سیاہ باب کااضافہ کیونکرہوتا؟کھیل اورتفریح کی مثبت اورمعیار ی سہولیات میسرہوتیں توعمران خان کی الٹی سیدھی باتوں میں آنے کی نوبت نہ آتی بدقسمتی سے ملکی میڈیانے کرکٹ کوعوام کامقبول ترین کھیل بنادیااس کھیل میں کچھ بہتر کارکردگی کامظاہرہ کرنے والے بڑبولے کوقومی ہیروکادرجہ دیاگیا اس نام نہادقومی ہیرونے کوتاہ فہم نوجوانوں کواپنی بات سننے پرمائل کیا جب اسے یقین ہواکہ یہ نوجوان اب اسکی ٹرانس میں آچکے ہیں تواس نے انکی طاقت کوذاتی مفادات کیلئے قومی مفادکے خلاف استعمال کر نے پرآمادہ کیاجس کالازمی نتیجہ 9مئی کی صورت نکلناتھااس ملک کے نوجوان کویہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ملک کے کوئی200ارب ڈالرباہرنہیں پڑے ہوئے اورنہ ہی اتنی بڑی رقم مرادسعیدکے کہنے سے ملک آسکتی ہے آج کے نوجوان نے ہی محنت کرکے ملکی دولت کودوسو ارب ڈالرتک پہنچاناہے مرادسعیدکے کہنے سے ڈالرزکے انبارلگناممکن نہیں دولت کے انبارکیلئے محنت کرکے دولت کمانی ہوگی، بیرونی ملک قانونی طریقے سے جاکرذرمبادلہ کماناہوگا باہربطورلیبرنہیں بلکہ کوئی نہ کوئی ہنرسیکھ کرجاناہوگا ایسے ہنروں کی بہتات ہے جن کی بہت سے ممالک میں ضرورت اور مانگ ہے اوروہاں سے بطور لیبر ہزاردرہم کمانے کی بجائے بطورہنرمندیاکسی شعبے کے ماہرایک کی بجائے آپ پانچ دس ہزاردرہم کماسکتے ہیں ریاست اپنے قیمتی سرمائے کومحفوظ بنانے کیلئے اقدامات کرے،صرف کرکٹ کی فروغ کے بجائے دیگرکھیلوں پرتوجہ دی جائے، کھیلوں کے میدان بنائے جائیں، سکول سطح سے فنی تعلیم یقینی بنائی جائے،تیس سال سے کم عمرافرادکی سیاست میں حصہ لینے پرپابندی لگائی جائے،بلکہ ووٹرکیلئے کم ازکم عمربھی تیس سال مقررکی جائے تاکہ کوئی شہری اس وقت ووٹ ڈالنے کے قابل ہوجب اس کاذہن پختہ ہوجائے، والدین اپنے بچوں اوربچیوں پرکڑی نظررکھیں، دسویں جماعت پاس کرنے سے قبل بچوں کوموبائل سے دوررکھاجائے،گھراورسکول میں بچوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کی جائے، بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گودہوتی ہے یہیں سے بچوں کواخلاقیات سکھائی جائیں،سوشل میڈیاکوکنٹرول کیاجائے،دین اسلام میں مادرپدرآزادی کاتصور موجودنہیں ریاست اورقوم مل کرہی اپنے قیمتی سرمائے نوجوانوں کوبے راہروی،منشیات کے استعمال،بداخلاقی، بدتہذیبی اوردہشت گردوں کے ہتھے چڑھنے سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔اوراب ہمیں اس جانب توجہ دیناہوگی ورنہ ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket