دہشت گردی کے خلاف  جنگ جیتنے کیلئے جدیدتربیت اورانتظامات کی ضرورت

دہشت گردی کے خلاف  جنگ جیتنے کیلئے جدیدتربیت اورانتظامات کی ضرورت

وصال محمدخان

عید کے تیسرے دن سوات کبل سی ٹی ڈی تھانہ میں دھماکوں سے عید کی خوشیاں ماند پڑگئیں۔  1979ء افغان وارسے شروع ہونے والی خونریزی اب 44ویں برس میں داخل ہوچکی ہے نصف صدی سے جاری خون کی ہولی سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ غیرمصدقہ اعدادوشمار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی امریکی جنگ 2001 ء سے تاحال 70ہزار افرادزندہ رہنے کے حق سے محروم کردئے گئے ہیں۔ سوویت افغان جنگ کے دوران ہونے والے بم دھماکوں سے بھی بھاری جانی نصان ہوا۔ 80ء کی دہائی میں بازاروں، سینماگھروں، شاپنگ سینٹرز، بس اڈوں، کورٹ کچہریوں اورہسپتالوں کونشانہ بناکرمعصوم اور بے گناہ شہریوں کی خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہادامریکی جنگ کے دوران بے گناہ اورنہتے شہریوں کی زندگی چھیننے کے نت نئے طریقے دریافت کئے گئے۔ سکول، کالجوں، یونیورسٹیوں، مساجد، بازاروں اوردیگرپبلک مقامات پرخوکش حملوں کاسلسلہ شروع ہوا جوتاحال جاری ہے مگراب اس میں سیکیورٹی فورسز پرحملوں کے ایک نئے باب کااضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدارآنے پران حملوں میں تیزی آئی ہے۔ محمود خان حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کیساتھ پراسرار مذاکرات اور ارکان کی رہائی کے بعد صورتحال گھمبیرہوچکی ہے۔ اب دہشت گرد عام لوگوں کی نسبت پولیس اورسیکیورٹی اہلکاروں کونشانہ بنارہے ہیں۔ ۔پشاورپولیس لائن حملے کے 80شہداء کے زخم ابھی تازہ تھے کہ اس دوران عید کے پرمسرت موقع پرکبل کاسانحہ پیش آیا جسکے نتیجے میں تاحال18افرادجاں بحق جبکہ 66 زخمی ہوچکے ہیں، معمولی نوعیت کے35زخمی ہسپتال سے فارغ کردئے گئے ہیں مگرچھ افرادکی حالت نازک بتائی جارہی ہے،جاں بحق ہونے والوں میں 12 پولیس اہلکارایک خاتون اور5سویلین افرادشامل ہیں۔ آئی جی پختونخواکے مطابق دہشت گردی کے الزام میں زیرحراست 5 افرادبھی جان کی بازی ہارگئے انکے مطابق واقعہ دہشت گردی نہیں بلکہ مال خانے میں موجودبارودی موادپھٹنے سے دھماکے ہوئے ہیں۔رات8بج کر20 اور25 منٹس پرہونے والے دھماکوں سے دورتک عمارتیں لرزاٹھیں،آس پاس کے پلازوں اوردوکانوں کوبھی نقصان پہنچا،پہلا دھماکہ  کم جبکہ دوسراشدیدنوعیت کاتھا۔  سرکاری ذرائع کے مطابق دھماکے اس مال خانے میں ہوئے جہاں گزشتہ کئی برسوں سے پکڑاگیااسلحہ موجودتھا جوسوات،بونیر،دیراورباجوڑمیں سماج دشمن عناصرسے برآمدکیاگیا تھامال خانے میں 3سے4سوکلوگرام تک بارودی مواد،مارٹراورآرپی جی سیون گولے رکھے گئے تھے ابتدائی تحقیقات کے مطابق تھانے کی سیکیورٹی اطمینان بخش تھی باہرسے کوئی مشکوک شخص داخل نہیں ہوا۔ ممکنہ طورپرواقعہ شارٹ سرکٹ کاساخسانہ ہے۔حسب سابق تحقیقات کاآغازہوچکاہے واقعہ دہشت گردی ہویا متعلقہ ذمہ دارافراد کی غفلت کانتیجہ ہو،دونوں صورتوں میں افسوسناک ہے۔حقائق سامنے آنے پرحکومت کواس سلسلے میں نظرآنے والے اقدامات کرنے ہونگے اگرواقعہ دہشت گردی ہے توذمہ داروں کوکیفرکردارتک پہنچاناہوگا۔اوراگر  اندرونی کوتاہی کانتیجہ ہے تومزید افسوسناک ہے دہشت گردوں سے نبردآزماپولیس فورس اپنے ہاں موجوداسلحے کانشانہ بن رہی ہے اس بڑی تعدادمیں اسلحے کی موجودگی کیلئے فول پروف انتظامات کی ضرورت تھی تھانے کے مال خانے میں اسلحے کاانباراحمقانہ ہے،4سوکلوبارودی مواداس قدرغیرمحفوظ کیوں تھا؟ اسکے ذمہ داروں کوکڑی سزادینی ہوگی خیبرپختونخواپولیس کے گلے پڑنے والی دہشت گردی جنگ کیلئے جدیدخطوط پرتربیت اورانتظامات کی ضرورت ہے دہشت گردوں کوامریکی سورماوؤں کے چھوڑے ہوئے جدیدہتھیار دستیاب ہیں جس سے وہ پولیس پرحملے کررہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں دہشت گردوں سے پکڑے گئے اسلحے کیلئے سٹوریج کامناسب انتظام تک موجودنہیں۔ تحریک انصاف کی گزشتہ دوحکومتوں نے دہشت گردی کی مدمیں ملنے والی رقوم کادرست استعمال نہیں کیا محمودخان حکومت اگردہشت گردی کی مدمیں وفاق سے ملنے والے فنڈزسوشل میڈیاکی بجائے کاؤنٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پرخرچ کرتی توآج قیمتی جانیں یوں ضائع نہ ہوتیں۔آج یہ جماعت اپنی سیاست چمکانے کیلئے سوات واقعے کے خلاف مظاہرے کررہی ہے اگرواقعہ دہشت گردی کاشا خسانہ نہیں تومظاہر ے کس کے خلاف کئے جارہے ہیں؟ محمودخان نے سوات میں موجودگی کے باوجودمظاہرے میں شرکت نہ کی جبکہ مراد سعیدنے زمان پار ک سے ویڈیولنک خطاب کیاجسے تنقیدکانشانہ بنایاجارہاہے۔مولانافضل الرحمان نے تحریک انصاف کوناقابل اعتمادقرار دیکراسکے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے انکارکیاہے میاں افتخارحسین،زاہدخان اورخادم حسین پرمشتمل اے این پی کے اعلیٰ سطحی وفدنے تحریک انصاف راہنماؤں سے ملاقات میں انہیں 3مئی کوہونے والی اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی ہے جبکہ ایمل ولی خان نے پشاور ہائیکورٹ میں رٹ دائرکرتے ہوئے مؤقف اپنایاہے کہ دہشت گردوں کی رہائی پرمحمودخان سمیت اس وقت کے اعلیٰ حکام سے جواب طلب کیاجائے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket