خیبر پختونخوا کا سیاسی حالات حاضرہ

خیبر پختونخوا کے سیاسی حالات حاضرہ

وصال محمدخان
بلاول بھٹوزرداری نے سوات میں جلسے سے انتخابی مہم کاآغازکردیاہے پیپلزپارٹی نے سوات جیسے علاقے(جوماضی قریب میں تحریک انصاف کاگڑھ تھا) میں اچھاخاصاپاورشوکیاجس کی توقع شائدپیپلزپارٹی قیادت کوبھی نہ تھی جلسے سے خطاب کے دوران بلاول بھٹونے شائداپنی ہی حکومت کودھمکی دی کہ اگرسیلاب زدگان کیلئے رقم مختص نہیں کی گئی توپیپلز پارٹی بجٹ پاس نہیں ہونے دے گی انکی اس دھمکی کو سیاسی تجزیہ کارمحض سیاسی بیان بازی قراردے رہے ہیں کیونکہ اگروفاقی بجٹ پاس نہیں ہوتا تواسکے بداثرات سے وفاقی حکومت کیونکرمحفوظ رہ سکتی ہے؟پیپلزپارٹی کی جانب سے حکومت مخالف بیانات کوانتخابات کی تیاری کے تناظرمیں دیکھاجارہاہے ورنہ آخری ایک دو ماہ میں حکومت سے علیٰحدگی جیسے انتہائی فیصلے سے پیپلزپارٹی بھی یقیناًاجتناب برتے گی مگرسیاست میں کچھ نہ کچھ توکہتے رہناہے تاکہ کارکن متحرک رہیں باخبرتجزیہ کاروں کاکہناہے کہ پیپلزپارٹی وکٹ کی دونوں جانب کھیلناچاہتی ہے اورآصف زرداری سمیت بلاول بھٹوکی پینترابازیوں کامقصدن لیگ سے پنجاب میں فوائدسمیٹناہے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ پنجاب میں نشستیں مسلم لیگ ن کی تعاون سے ہی حاصل کی سکتی ہیں ن لیگ سے پنجاب کی حدتک پیپلزپارٹی اورجہانگیرترین دونوں کی امیدیں وابستہ ہیں اب یہ ن لیگ پرمنحصرہے کہ وہ کس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ یااتحادمیں جاتی ہے اسکے خدوخال تواس وقت واضح ہونگے جب انتخابات کابگل بجے گااورنوازشریف کی وطن واپسی ہوگی جہانگیرترین کی استحکام پارٹی کااثروروخ بھی پنجاب تک محدودہے خیبرپختونخواسے تاحال اس نوزائدہ پارٹی میں کوئی بڑانام شامل نہیں ہوااسکے تمام ہیوی ویٹس سندھ اورپنجاب سے ہیں یقینی طورپرنئی پارٹی کی قیادت آمدہ الیکشن میں اپنے جثے سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہے گی پارٹی کو انتخابات میں من پسندنتائج کیلئے ن لیگ سے اتحادکی ضرورت ہوگی جہانگیرترین کی لندن یاترا بھی اسی سلسلے کی کڑی بتائی جارہی ہے اگر جہانگیرترین اورن لیگ میں قربتیں بڑھتی ہیں تویہ پیپلزپارٹی کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔ پنجاب میں پارٹی کااحیا ایک طویل اورصبرآزماعمل ہے اس لئے پیپلزپارٹی گیم میں اِن رہنے کیلئے ن لیگ کی مجبوریوں سے کھیل رہی ہے اسکی سیاست کامحوراگلے سیٹ اپ میں کنگ میکروالی پوزیشن ہے اگرنوازشریف کی واپسی ہوتی ہے توپنجاب سے آصف زرداری کو مایوسی کاسامناکرناپڑسکتاہے جوحال پیپلزپارٹی کاپنجاب میں ہے کچھ اسی سے ملتاجلتا خیبرپختونخوامیں بھی ہے یہاں بھی پارٹی کاووٹ بینک پی ٹی آئی نے شدیدمتاثرکیاہے نہ صرف ووٹ بنک بلکہ الیکٹیلزکے حوالے سے بھی پیپلزپارٹی مشکلات کاشکارہے پرویزخٹک لمبے عرصے تک پیپلزپارٹی کاحصہ رہے ہیں اس لئے انہوں نے2012 ء سے2018ء کے دوران لگ بھگ 80فیصدپیپلزپارٹی پی ٹی آئی میں شامل کروائی پی ٹی آئی چونکہ اب صوبے میں حالت نزع سے دوچار ہے اسکے نامی گرامی راہنماپارٹی یاعہدے چھوڑچکے ہیں،کچھ پابند سلاسل ہیں جبکہ بقیہ روپوشی کی زندگی گزاررہے ہیں اگرآئندہ انتخابات تک اس پرپابندی لگتی ہے یایہ مزیدٹوپھوٹ کاشکارہوتی ہے توممکنہ طورپراس کے اہم راہنماوسابق اراکین اسمبلی پیپلزپارٹی کا رخ کرینگے کیونکہ انکی اکثریت پیپلزپارٹی سے ہی آئی تھی پی ٹی آئی کے ممتازراہنمااگرپی پی میں شامل ہوتے ہیں توپارٹی آمدہ انتخابات میں کچھ بہتر کارکردگی کامظاہرہ کرسکتی ہے مگر اپناووٹ بنک واپس حاصل کرنے کیلئے بلاول بھٹو اورآصف زرداری کوہاتھوں کی لگائی گانٹھیں دانتوں سے کھولناپڑیں گی۔ نظربظاہریہی لگ رہاہے کہ پی ٹی آئی کے منظر سے ہٹنے پراصل مقابلہ اے این پی اورجے یوآئی ف کے درمیان ہوگا یہ دونوں پارٹیاں گزشتہ پانچ سال سے متحرک اور انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔دوسری جانب پرویزخٹک نے بھی عمران خان کے خلاف خاموشی توڑدی ہے اب وہ کھل کر عمران خان پرتنقیداورانکی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں کوئی ایک ماہ قبل انہی صفحات پرعرض کیاگیاتھاکہ پرویزخٹک اورعمران خان کے راستے جداپوچکے ہیں ٹریلرپرویزخٹک کاعہدہ چھوڑناتھااب پوری فلم کیلئے سکرین سے پردہ سرکنے لگاہے پرویزخٹک کے بارے میں ابھی وثوق سے نہیں کہاجا سکتامگرشنیدہے کہ وہ اپنی علاقائی پارٹی لانچ کرنے والے ہیں جوپختونخوا کی حدتک استحکام پارٹی کادوسراروپ ہوگا۔ پی ٹی آئی کے بہت سے ارکان توایسے ہیں جنہیں ن لیگ،اے این پی یاجے یوآئی لینے میں دلچسپی کااظہارنہیں کررہیں جنہیں دیگرجماعتوں میں جگہ ملے گی وہ پروازکرنے میں ہی عافیت سمجھیں گے مگرجنہیں دیگرپارٹیوں میں من پسندپوزیشن میسرنہیں آئے گی وہ یقیناًپرویزخٹک کی مبینہ جماعت میں شامل ہوں گے مگراس کادارومداراس بات پرہے کہ عمران خان کے ساتھ کیاسلوک ہوتاہے اگروہ سیاست میں حسب سابق متحرک رہتے ہیں توخیبرپختونخوامیں اب بھی ان کاووٹ بنک قائم ہے جس کے بل بوتے وہ غیرمعروف امیدواروں کی اچھی خاصی تعداد کامیاب کروا سکتے ہیں لیکن اگراسکی پارٹی تتربترہوتی ہے اوراس کاشیرازہ بکھرتاہے جیساکہ یہ نوشتہ دیوارہے توگزشتہ دس برسوں میں اسکے بل بوتے نام بنانے والے اکثر راہ نمادیگرجماعتوں کیساتھ ساتھ پرویزخٹک کی جماعت میں بھی شامل ہونگے اوراگرپرویزخٹک کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیارکر لیتے ہیں تواس صورت میں بھی اچھاخاصاگروپ ان کیساتھ جائیگا انہیں تحریک انصاف کی جانب سے شوکانوٹس بھی دیاگیاہے جس میں ان پریہی الزام لگایاگیاہے کہ وہ پارٹی کے اہم ارکان کوورغلارہے ہیں یہ نوٹس پارٹی کے جنرل سیکرٹری عمرایوب نے جاری کیاہے جس کاپرویزخٹک نے خاصابرامنایاہے وہ ایک دن عمران خان کے خلاف بیان جاری کرتے ہیں تودوسرے روزاسکی تردید جاری کرتے ہیں انکی سیاست تاحال نیم دروں،نیم بروں والی کیفیت کاشکارہے وہ کھل کرواشگاف اندازمیں کوئی فیصلہ کرنے سے قاصرنظر آرہے ہیں انکے قریبی ذرائع کادعویٰ ہے کہ وہ تیل دیکھواورتیل کی دھاردیکھو والی پالیسی پرعمل پیراہیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket