پاک افغان کشیدگی، بدامنی اور پراکسیز

پاک افغان کشیدگی، بدامنی اور پراکسیز
عقیل یوسفزئی
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی واقع ہوگئی ہے جبکہ بدامنی میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جس کے باعث نہ صرف یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان مخالفانہ بیان بازی عروج پر پہنچ گئی ہے بلکہ دونوں پڑوسی ممالک کے عوام بالخصوص ان افغان باشندوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے جو پاکستان میں قیام پذیر ہیں اور اب ان کو نکلنے کی تیاریاں جاری ہیں. دوسری جانب دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی سرگرمیوں پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوگئے ہیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کھبی مثالی تعلقات نہیں رہے تاہم اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ممالک کے عوام متعدد مذہبی، لسانی، ثقافتی اور تجارتی رشتوں اور ضرورتوں میں بندھے ہوئے ہیں. پڑوسی تبدیل نہیں کئے جاسکتے اور ان کے درمیان تعلقات مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کے رہتے ہیں. تعلقات میں اتار چڑھاو کا سلسلہ جاری رہتا ہے تاہم ہمارا خطہ چونکہ 40 برسوں سے مسلسل حالت جنگ میں ہے اس لیے تعلقات کی نوعیت بھی پیچیدہ قسم کی ہے اور ایک دوسرے سے توقعات بھی زیادہ ہیں. حالیہ کشیدگی کی بنیادی وجہ کراس بارڈر ٹیررازم ہے جس میں اگست 2021 کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد خطرناک اضافہ ہوا اور پاکستان کا موقف ہے کہ کہ اس کی وجہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کو حاصل وہ سرپرستی ہے جس میں حملہ آوروں کو مختلف طریقوں سے سہولیات فراہم کی گئی ہیں. اس صورتحال نے پراکسیز کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی. اگر چہ افغانستان کی عبوری حکومت کی خواہش پر ماضی قریب میں افغان حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے متعدد ادوار ہوئے مگر جب یہ سلسلہ جاری تھا اس وقت بھی پاکستان پر حملے جاری رہے جس کے باعث یہ کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی اور کشیدگی میں اس وقت بے پناہ اضافہ ہوا جب 6 ستمبر 2023 کی صبح چترال پر طالبان نے حملہ کیا.
اب پاکستان کا مطالبہ ہے کہ افغان عبوری حکومت افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی قیادت اور جنگجوؤں کو لگام دے اور اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں جبکہ افغانستان کی عبوری حکومت کا موقف ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جو کہ عجیب و غریب منطق ہے. عالمی برادری اس مسئلے پر نہ صرف پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ اس تشویش کا اظہار کررہی ہے کہ اس سے خطے کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے. دوسری جانب پاکستان نے یہاں موجود 40 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں اکثریت نہ صرف یہ کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں بلکہ بہت سے افغانیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسمگلنگ اور دوسری سرگرمیوں کے علاوہ دہشتگردی کے واقعات میں بھی ملوث ہیں. اس صورتحال نے کشیدگی میں اضافہ کیا ہے تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک فیصلہ کن وقت ہے کہ ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور پاکستان پر ہونے والے حملوں کا مستقل حل نکالا جائے. اگر چہ فریقین کے درمیان گزشتہ چند روز کے دوران بعض اہم ملاقاتیں ہوئیں اور کہا جاتا ہے کہ “کچھ لو اور کچھ دو” کے ایک فارمولا کے تحت بعض امکانات پر اتفاق ہوچکا ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان موجود بداعتمادی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے کم کئے جائیں کیونکہ یہ اہم خطہ مزید پراکسیز کا متحمل نہیں ہو سکتا اور عوام کو امن، ترقی کی اشد ضرورت ہے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket