صوبائی حکومت کونگران وزیراعظم کے دورے سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں مگران کادورہ بظاہرگفتند،نشستنداوربرخاستندتک محدودرہا صوبائی حکومت گزشتہ 9ماہ سے مالی مشکلات کاشکارچلی آرہی ہے محمودخان حکومت نے وفاق کیساتھ واجبات کی ادائیگی کیلئے گفت وشنیدکی بجائے محاذآرائی، عمران خان کے لانگ مارچزاوردھرنوں پرتوجہ مرکوزکئے رکھی جس کے نتیجے میں صوبے کووفاق سے فنڈز نہ مل سکے نگران حکومت نے آتے ہی مالی مشکلات کارونادھوناشروع کردیا مگراس پر شہبازشریف حکومت نے کان دھرے اورنہ ہی نگران حکومت نے کوئی توجہ دی کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں فیصلہ ہواتھا کہ وزیراعلیٰ کابینہ ارکان کے ہمراہ وزیراعظم سے ملاقات کرینگے اورانہیں صوبے کے مالی مشکلات سے آگاہ کرکے واجبات کی فوری ادائیگی کیلئے درخواست کی جائیگی صوبے کی مالی مشکلات اس حدتک بڑھ چکی ہیں کہ حکومت کیلئے صوبائی ملازمین کی تنخواہیں اداکرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں محمودخان حکومت میں بھی ملازمین کوتنخواہوں کی ادائیگی تعطل کاشکاررہی ہے مالی بحران کااندازہ اس سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ صوبے کے تمام سرکاری ہسپتالوں نے صحت کارڈپرعلاج کی سہولت عارضی طورپر معطل کی ہے صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ پشاورنے بھی صحت کارڈپرعلاج کی فراہمی روک دی ہے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق سٹیٹ لائف انشورنس نے ہسپتال کودوارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے مگرحکومت کی جانب سے انشورنس کمپنی کو عدم ادائیگی کے سبب ہسپتال کوبھی ادائیگی نہ ہوسکی جس پرہسپتال نے نہ صرف صحت کارڈپرعلاج کی سہولت روک دی ہے بلکہ دواسازکمپنیوں نے بھی ہسپتال کودواؤں کی فراہمی بندکردی ہے جس کی وجہ سے ہسپتال صرف ایمرجنسی میں مفت علاج کی سہولت فراہم کررہاہے دیگر مریضوں کودوائیوں کاانتظام خودکرناپڑتاہے صوبے کے پاس فندزکی عدم موجودگی کے سبب رواں مہینے کی تنخواہوں پربھی عدم ادائیگی کی تلوارلٹک رہی ہے اوپر سے نگران حکومت نے آئندہ چارماہ کابجٹ بھی دیناہے رقم کی عدم موجودگی بجٹ پرعمل درآمدکے راستے میں بھی رکاؤٹ بن سکتی ہے صوبائی حکومت کے مطابق وفاق کے ذمہ واجبات 16سوارب روپے تک پہنچ چکی ہیں جوصوبے کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے مگروفاق خراب معاشی صورتحال کی آڑلیکر صوبے کوادائیگی نہیں کررہاجس کے سبب صوبہ گوناگوں مسائل ومشکلات سے دوچار ہے۔نگران وزیراعظم نے صوبے کادورہ کیااوریہاں مصروف ترین وقت گزارابزنس کمیونٹی اوردیگرافرادسے ملاقاتیں کیں مگرجب صوبائی حکومت نے انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیاتوانہوں نے فوری اقدامات کرنے کی بجائے چین سے واپسی پرایک کمیٹی کے قیام کافیصلہ کیاصوبائی حکومت کوفوری رقم کی ضرورت ہے جبکہ وزیراعظم نے معاملہ کمیٹی کے سپردکرنے کافیصلہ کیاجس سے حکومت کے مالی مشکلات کافوری طورپرکوئی حل نہ مل سکا البتہ مستقبل قریب میں انتہائی محدود فنڈزملنے کے امکانات کوردنہیں کیاجاسکتاسیاسی اورعوامی حلقوں نے وفاق کے اس طرزِعمل کوناپسندیدہ قراردیتے ہوئے صوبے کے واجبات فوری ریلیزکرنے کامطالبہ کیاہے۔ وزیراعظم نے پشاورمیں ٹی ٹی پی سمیت تمام گروپوں کوواضح پیغام دیاکہ دہشت گردوں کیساتھ مذاکرات نہیں کئے جائینگے بلکہ ریاست انکے خلاف عملی اقدامات کریگی انہوں نے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے بھی دوٹوک مؤقف اپنایااورکہاکہ تمام غیرقانونی تارکین وطن کوواپس جاناہوگااس سلسلے میں کوئی رورعایت نہیں برتی جائے گی تمام تارکین وطن کورضاکارانہ واپسی یقینی بنانی چاہئے بصورت دیگرڈیڈلائن کے خاتمے پرسخت اقدامات لئے جائیں گے۔