9 مئی کے واقعات، فوجی عدالتوں کا قیام اور سپریم کورٹ کا فیصلہ

عقیل یوسفزئی
9 اور 10 مئ کے واقعات کو پاکستان کی سیاسی اور ریاستی تاریخ میں آسانی سے بھلایا اس لیے نہیں جاسکتا کہ اس روز ایک منظم طریقے اور پلاننگ سے ایک مخصوص سیاسی پارٹی نے ملک کے تقریباً 21 شہروں اور علاقوں میں انتہائی پرتشدد راستہ اپناکر پاکستان کی اس فوج کی اہم اور حساس تنصیبات پر حملے کئے جو کہ سال 2002 کے بعد مسلسل حالت جنگ میں رہی ہے. اس فوج نے ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں 400 سے زائد اعلیٰ افسران سمیت تقریباً 10 ہزار جوانوں کی جانوں کی نہ صرف قربانی دی بلکہ یہ جنگ اب بھی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے. امریکہ کی زیر قیادت 40 ممالک کی نیٹو فورسز نے 4 ٹریلین ڈالرز کے تاریخی نقصان کے بدلے جو کچھ 20 برسوں میں افغانستان میں ڈیلیور نہیں کیا وہ پاکستان کی فوج اور دیگر اداروں نے محدود وسائل کے باوجود نہ صرف ڈیلیور کیا بلکہ عالمی سطح پر ملٹری کاریڈورز میں ان دی ریکارڈ اس تمام پلاننگ اور صلاحیت کا اعتراف بھی کیا جاتا رہا.
ایک مخصوص پارٹی نے ایک جمہوری نظام اور طریقہ کار کے عین مطابق وفاق میں حکومت کی تبدیلی کے معمول کے عمل کو کسی مہذب احتجاج کے برعکس پاکستان کی ریاست پر حملہ کرنے کی پلاننگ اور عملی کوشش کرکے ملٹری کی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کی جو بے حرمتی کی اس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی. اس پر ستم یہ کہ اس عمل کا کریڈٹ لیتے ہوئے اس پر فخر بھی کیا گیا اور منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے ایک منظم فوج میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش بھی کی گئی.
اس تمام عمل کے بعد جب تحقیقات ہوئی تو ثابت ہوا کہ یہ ایک منظم بغاوت کرنے کی پلاننگ تھی.
اسی پس منظر میں پہلے سے موجود ایک طریقہ کار کے مطابق جب ملٹری کورٹس میں 100 کے لگ بھگ ملزمان کے خلاف ٹرایل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس فیصلے کو عوام کے علاوہ ملک کی اکثر جماعتوں کی حمایت حاصل رہی تاہم گزشتہ روز سپریم کورٹ کورٹ نے اس فیصلے یا اقدام کو کالعدم قرار دیکر ایک نئی بحث کی بنیاد رکھی.
ماہرین اور عوامی حلقوں کے مطابق اس فیصلے سے قبل شاید معزز بینچ نے پاکستان کے مخصوص حالات اور ان واقعات کے نتائج اور اثرات جیسے بنیادی عوامل کو ذہن میں نہیں رکھا. لگ یہ رہا ہے کہ اس پریکٹس کو معمول کی کارروائی سمجھ کر ڈیل کرنے کی پالیسی اپنائی گئ اور انسانی حقوق اور روایتی عدالتی پریکٹس کے عام معاملات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا.
یاد رہے کہ انہی عدالتوں سے ماضی میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ان عناصر کو بھی بار بار ضمانتیں اور رعایتیں ملتی رہی ہیں جو کہ عوام، فورسز اور ریاست پر دہشتگردی کی شکل میں حملہ آور ہوتے رہے ہیں. فرسودہ عدالتی نظام اور قوانین میں موجود نقائص ہی کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہونے والے سینکڑوں حملہ آوروں کو ماضی میں رہائ ملتی رہی جس کے بعد وہ پھر سے اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوکر بار بار ملک کی سیکورٹی اور سلامتی کے لئے خطرہ بنتے گئے.
اس ضمن میں اگر 9 مئی کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ عمل دہشتگردی سے بھی زیادہ خطرناک کام تھا جو کہ جمہوریت، اظہار رائے اور احتجاج کے لبادے میں سرانجام دیا گیا. بعض ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ فیصلے کو انصاف کے اس اعلیٰ ترین فورم کی اس رویہ، خواہش اور کوشش کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جو کہ اس ادارے یا اس کے بعض معزز “ارکان” کے ذہنوں میں عرصہ دراز سے ایک پالیسی کے اپنی بالادستی قائم رکھنے کی شکل میں موجود ہے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket