خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

خیبرپختونخواکے سیاسی ،انتظامی ،پارلیمانی، حکومتی ،امن وامان کی صورتحال سمیت تمام شعبے ابتری کے شکارہیں۔حکومت نے وفاق کے خلاف اپوزیشن کاکردارسنبھال لیاہے ۔پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں اگرچہ اچھی پوزیشن ہے اوروہ وہاں پراپوزیشن کابھرپوراورتعمیری کردار اداکرنیکی قابل ہے مگرقومی اسمبلی کے ارکان اپناپارلیمانی کرداراداکرنیکی بجائے یہ ذمہ داری صوبائی حکومت نے اٹھائی ہوئی ہے۔ ہفتہ کے سات دن وزیراعلیٰ احتجاج پرہوتے ہیں کبھی وہ پارٹی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کبھی احتجاج کیلئے لوگوں کونکالنے میں مصروف ہوتے ہیں توکبھی جلوس ،پولیس اورمشینری کے ہمراہ پنجاب کی جانب عازم سفرہوتے ہیں ۔وزیراعلیٰ اور کابینہ کی ان مصروفیات سے حکومتی معاملات تعطل کاشکارہوچکے ہیں وزیراعلیٰ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی انقلاب کے اعلانات کرتے رہتے ہیں ۔گزشتہ ہفتے انہوں نے سخت لہجہ اپناتے ہوئے ملک میں انقلاب برپاکرنے کااعلان فرمادیا۔ایک ویڈیوپیغام میں ان کاکہناتھاکہ ‘‘ ہمارے احتجاج پر گولیاں چلائی گئیں اورشیل برسائے گئے ،اب گولی کاجواب گولی اورشیل کاجواب شیل سے دیاجائیگا،ہمارے پاس انقلاب کے سواکوئی راستہ نہیں ،ادارے سیاست سے دوررہیں سیاسی فیصلے سیاستدانوں کوکرنے دیں ’’۔اس ویڈیوپیغام کوصوبے کے سیاسی حلقوں میں شدید تنقید کانشانہ بنایاجارہاہے ۔‘‘مولانافضل الرحمان نے اسے صوبے کو صوبے سے لڑانے کے مترداف قراردیکرکہاکہ وزیراعلی کے منصب کواس قسم کے بیانات زیب نہیں دیتے’’دیگرسیاسی قائدین نے بھی اسی سے ملتے جلتے خیالات کااظہارکیاہے وزیراعلیٰ کوحکومتی معاملات پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیوہیں انہیں اپوزیشن لیڈرکے خول سے نکلناہوگا۔احتجاج وفاق کے خلاف ہویا پنجاب کیخلاف ،اس کیلئے پارٹی پلیٹ فارم استعمال کیاجائے حکومتی نہیں۔ پارٹی کی تنظیمیں اپنی ذمہ داری سنبھالیں اوروزیراعلیٰ آئے روز ادھرادھر کے بیانات اوراحتجاجوں کی بجائے حکومتی معاملات پرتوجہ مرکوزکریں تاکہ عوام کوحکومت کی موجودگی کااحساس ہوجواس سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں وزیراعلیٰ صوبے کے انتظامی سربراہ کی بجائے بیک وقت وفاق اورپنجاب دونوں کے اپوزیشن لیڈربنے ہوئے ہیں جبکہ انکی منصبی ذمہ داریاں سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں ۔

صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے حکومت کے خلاف پشاورہائیکورٹ سے رجوع کیاہے ۔اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 19ارکان صوبائی اسمبلی نے دوسینئروکلاکی توسط سے دائردرخواست میں مؤقف اختیارکیاہے کہ ‘‘اے ڈی پی میں بعض بلاک ،امبریلا سکیمزاورترقیاتی منصوبے شامل کئے گئے ہیں جوقانون کی خلاف ورزی ہے اوراس کے خلاف پشاورہائیکورٹ سمیت سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجودہیں ،ان میں سڑکوں کی تعمیراورملٹی سیکٹوریل ڈویلپمنٹ وغیرہ کے منصوبے شامل کئے گئے ہیں جن کیلئے ایک ہزارملین روپے کی خطیررقم مختص کی گئی ہے ،مذکورہ امبریلاسکیموں کوغیرقانونی طریقے سے منظورکیاگیاہے اوراس کیلئے فنڈزریلیزکاطریقہ کارحکومت کی اپنی فنڈریلیزنگ پالیسی کے بھی خلاف ہے، یہ منصوبے اقرباپروری کی بنیادپرشامل کئے گئے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں 3کروڑسے زائدووٹ حاصل کئے انکے ارکان سے امتیازی سلوک برتاجارہاہے اپوزیشن ارکان کے علاقوں کوان منصوبوں میں دیدہ دلیری سے نظراندازکیاگیاہے جس کے خلاف اپوزیشن ارکان اسمبلی میں بھی آوازاٹھاتے رہے ہیں مگر شنوائی نہ ہونے پرمجبوراً عدالت سے رجوع کرناپڑاہے ’’سماعت کے دوران چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل سے استفسارکیاکہ بلاک ایلوکیشن فنڈزتوسپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے ؟جس پرانہوں نے جواب جمع کروانے کیلئے عدالت سے مہلت طلب کی ۔ فاضل بنچ نے تین روزکی مہلت دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کوصوبدیدی فنڈزکے استعمال سے روک دیا ۔سماعت کے بعداپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ کاکہناتھاکہ صوبے کے فنڈزپرتمام اراکین کامساوی حق ہے مگروزیراعلی فنڈزپاس رکھ کرصرف اپنے ارکان کودے رہے ہیں اے ڈی پی میں بلاک فندزوزیراعلی اپنی مرضی سے استعمال کررہے ہیں ۔عدالت نے ہمارے مؤقف کوتسلیم کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کیاہے اب وزیراعلی ٰصوابدیدی فنڈزاستعمال نہیں کرسکیں گے۔
صوبائی حکومت نے گزشتہ نگران دورمیں بھرتی ہونے والے کم وبیش چھ ہزارملازمین فارغ کرنے کافیصلہ کیاہے۔وزیرقانون آفتاب عالم کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی نے چھان بین مکمل کرنے کے بعدملازمین کوفارغ کرنیکی سفارش کی ہے وزیرقانون کے مطابق بھرتیوں کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ نگران حکومت نے بھرتیوں کیلئے الیکشن کمیشن سے این اوسی بھی لیاتھاجبکہ الیکشن کمیشن کے پاس بھرتیوں کیلئے این اوسی جاری کرنے کااختیارہی نہیں نگران دورمیں بھرتیاں الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ء،انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق اورآئین کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے اسلئے حکومت نے ملازمین کوفارغ کرنے کیلئے ایکٹ لانے کافیصلہ کیاہے۔ پبلک سروس کمیشن اورسن کوٹہ کے ذریعے بھرتی ہونے والے ملازمین کوفارغ نہیں کیاجائیگاجبکہ نگران دورسے قبل انٹرویودینے والے ملازمین بھی ایکٹ سے مبراہونگے۔

پیسکو(پشاورالیکٹرک سپلائی کمپنی)نے بجلی چوری اورنادہندگان کے خلاف کارروائیوں کی ایک سالہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 7ستمر2023ء سے اب تک صوبے بھرمیں آپریشن کے دوران87ہزارسے زائدغیرقانونی بجلی کنکشن پکڑے گئے جبکہ نادہندگان سے 19 ارب31کروڑروپے سے زائدبقایاجات وصول کئے گئے،بجلی چوری کی مدمیں2ارب76کروڑروپے کے جرمانے بھی عائد کئے گئے ۔ڈائرکٹ کنڈے استعمال کرنے پر36ہزار583افرادکے خلاف مقدمات درج کرنے کیساتھ ساتھ 10ہزار 490 افراد کوموقع پرگرفتارکیاگیارپورٹ کے مطابق یہ آپریشن محض عام صارفین تک محدودنہیں رکھاگیابلکہ پیسکوملازمین کوبھی اسکے دائرۂ کارمیں شامل کیاگیا بجلی چوری میں معاونت پر53پیسکوملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی ۔اگریہ رپورٹ حقائق پرمبنی ہے اورپیسکوکایہ دعویٰ درست ہے تواس بڑی ریکوری اورایک لاکھ کے قریب غیرقانونی کنکشنزپکڑے جانے کے باوجودصوبے میں بجلی فراہمی کی صورتحال ابتری کاشکارکیوں ہے ؟ یہاں آج شہری علاقوں میں سولہ گھنٹے شیڈول لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جس سے چھوٹے کاروبارٹھپ ہوکررہ گئے ہیں ۔ شہریوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثرہوچکے ہیں۔ ان حالات میں کیامعاشی سرگرمیاں ہونگیں اورکیاصوبہ ترقی کرے گا؟

صوبے میں ڈینگی وائرس کے واربھی جاری ہیں اس مرتبہ حالات گزشتہ برسوں کی طرح سنگین نہیں ہیں مگر پھربھی تشیخص شدہ کیسزکی تعداد 1081تک پہنچ چکی ہے مرنے والوں کی تعداد2ہے۔رپورٹ کے مطابق ایکٹیوکیسزکی تعداد 436ہے جبکہ 643افرادصحتیاب ہوچکے ہیں ۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket