امن و امان کے حوالے سے سابقہ قبائلی ضلع کرم کا ماضی تابناک نہیں، حال دگرگوں ہے مگر مستقبل میں اگر دانشمندی کا مظاہرہ کیا گیا تو یہاں کے باسیوں کو نئے سال میں امن کا تحفہ دینا مشکل نہیں۔ سال کے پہلے ہی دن فریقین کی جانب سے امن معاہدے پر دستخط کو ملک کے طول و عرض میں سراہا گیا تھا اور اس پر مسرت کا اظہار کیا گیا تھا مگر صد افسوس شرپسند قوتوں کو یہ معاہدہ ایک آنکھ نہیں بھایا اور اسے سبوتاژ کرنے کی ایک مذموم کوشش کی گئی۔ یہ کوشش ناقابل معافی ہے اور حالات کا تقاضا ہے کہ اس میں ملوث تمام عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
کرم میں امن جرگہ کی کوششوں سے ایک 14 نکاتی امن معاہدہ عمل میں آیا ہے جس سے اس خانماں برباد علاقے کے شہریوں کو امن کی امید پیدا ہو چکی ہے۔ کرم کا مسئلہ اگرچہ عشروں پرانا ہے اور گزشتہ برسوں میں بھی یہاں خونریزی کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں، مگر گزشتہ تین ماہ سے اس علاقے میں مسلح تصادم کے نتیجے میں دو سو کے قریب افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ دو سو سے زائد دکانوں پر مشتمل ایک پورا بازار نذرِ آتش کیا جا چکا ہے، گھروں میں گھس کر بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کی جا چکی ہیں۔
کرم کا علاقہ چونکہ آغاز سے ہی ایک حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے، یہاں فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں سینکڑوں اموات ہو چکی ہیں۔ شیعہ سنی فسادات اس علاقے کی روایت سی بن چکی ہے، یہاں اکثر و بیشتر اراضی تنازعات فرقہ واریت کا روپ دھار لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے علاقے میں غیر قانونی اور بھاری اسلحہ کی بھرمار ہے، اس لیے امن معاہدے میں بھاری اسلحہ حکومت کو حوالگی کی شق بھی شامل کی گئی ہے۔
حکومتی اور ریاستی عدم توجہی کے سبب کرم شرپسندوں کے نرغے میں جا چکا ہے۔ وہ آئے روز زمینی تنازعات یا فرقہ واریت کی آڑ میں معصوم شہریوں کا خون بہا رہے ہیں اور اس خونریزی میں بھاری اسلحہ استعمال ہو رہا ہے۔ کرم میں کچھ قبائل یا گروہوں کے پاس ایسا اسلحہ بھی موجود ہے جو صرف ریاست یا حکومت کے پاس ہونا چاہئے۔
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹ ممبران، قبائلی مشران، ملکان، سرداران، ڈی سی اور ڈی پی او جیسے اعلیٰ انتظامی افسران اس بات پر متفق ہیں کہ علاقے کو اگرچہ تمام اسلحے سے پاک کرنا ممکن نہیں، مگر بھاری ہتھیاروں کی حوالگی سے خاصا فرق پڑ سکتا ہے۔ جو مسئلہ فوری توجہ کا طالب تھا، یعنی شاہراہوں کی بندش کا خاتمہ، اس مقصد کیلئے ہفتے کے روز تجرباتی طور پر ایک قافلے کی روانگی کا اعلان کیا گیا، مگر بدقسمتی سے یہ پہلا قافلہ دوائیں اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ کرم کی جانب روانہ نہ ہو سکا۔
ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کی گاڑی پر شرپسندوں کی فائرنگ سے یہ کارواں روک دیا گیا۔ افسوسناک واقعے میں جاوید اللہ محسود تین گولیاں لگنے سے زخمی ہو چکے ہیں جنہیں سی ایم ایچ پشاور میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ ترجمان صوبائی حکومت کے مطابق ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ قافلے پر حملے سے 6 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے فریقین کے مابین مصالحت کی کوششوں کے بعد امن معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے بعد بند راستے بتدریج کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ حکومت اور انتظامیہ کی کوشش تھی کہ علاقے میں محصور شہریوں کو امداد پہنچائی جائے۔ اس کوشش کے تحت 80 ٹرکوں پر مشتمل قافلہ پاراچنار روانہ کیا گیا لیکن بگن میں ڈپٹی کمشنر کی گاڑی پر فائرنگ کے باعث امن کوششوں کو دھچکا لگا اور بند راستے نہ کھل سکے۔
گرینڈ امن جرگہ کے ذریعے ہونے والے معاہدے میں راستوں کی بندش کا خاتمہ بھی شامل تھا بلکہ معاہدے کی ایک شق کے مطابق جس علاقے میں شاہراہ پر حملہ کیا جائے گا یا کوئی غیر قانونی قدم لیا جائے گا، اسی علاقے کے باشندے اس کے لئے ذمہ دار ہوں گے اور وہ کرم رواج اور قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔
حکومت اور متعلقہ ادارے اس حملے کی تحقیق و تفتیش کر رہے ہیں اور حملے کی ذمہ داروں کا تعین ریاست کے لئے زیادہ مشکل نہیں۔ یہ حملہ جس نے بھی کیا یا کروایا ہے، اس نے ریاست پاکستان کو چیلنج کیا ہے، اس کی رٹ کو للکارا ہے اور پختونوں کے تشخص کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کی ہے۔
حملے میں ڈپٹی کمشنر کو نشانہ بنانا، جو حکومتی نمائندے ہوتے ہیں، ریاست پاکستان کے لئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ صوبائی حکومت نے حملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مبینہ طور پر چار پانچ شرپسندوں نے ڈپٹی کمشنر کی گاڑی پر فائرنگ کی جبکہ ایک اور غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق چالیس پچاس افراد نے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کے سرکاری قافلے اور گاڑیوں کو حملے کا نشانہ بنایا۔
باخبر ذرائع کے مطابق حملے میں خوارج کا ہاتھ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن کے خلاف گزشتہ ہفتے پاک فوج نے افغانستان میں فضائی کارروائی کی تھی۔ کرم کی خونریزی میں مقامی شرپسندوں کے ساتھ بیرونی ہاتھ کی کارفرمائی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
علاقے میں امن کیلئے حکومتی کوششیں قابل تعریف رہیں۔ تین ہفتے کی مغزماری اور نشیب و فراز کے بعد کرم کے متحارب فریقین امن معاہدے پر متفق ہوئے تھے جس سے حکومت اور عوام نے سکھ کا سانس لیا مگر پہلے ہی روز حکومتی نمائندے کی گاڑی پر فائرنگ کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس سے امن کوششوں کو دھچکا ضرور لگا ہے، مگر حکومت اور جرگہ مشران امن کوششوں سے مایوس نہیں ہوئے بلکہ شرپسند عناصر کی سرکوبی اور علاقے کو امن کا گہوارہ بنانے کا عزم اپنی جگہ قائم ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت امن دشمن قوتوں کی سازشیں ناکام بنائے اور حملہ کرنے والے شرپسند عناصر کا کھوج لگا کر انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ ان کی کڑی سزا سے علاقے میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ کرم امن معاہدہ اہم پیشرفت ہے، شرپسندوں کو اسے سبوتاژ کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
وصال محمد خان