وطن عزیز کیلئے سال 2024ء کئی حوالوں سے یادگار رہا۔ 8 فروری کو عام انتخابات کے نتیجے میں موجودہ حکومتیں برسر اقتدار آئیں۔ وفاقی حکومت کو معیشت کی ڈوبتی کشتی سنبھالنے کا مشکل ترین چیلنج درپیش تھا جس سے عہدہ برآ ہونے کیلئے اس نے دن رات ایک کر دیے۔ حکومت اور افواج پاکستان کی انتھک کوششیں سال کے آخر تک رنگ لائیں اور ملکی معیشت سنبھل گئی۔ کئی بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے معیشت بحالی کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا، شرح سود میں نو فیصد تک کی بڑی کمی واقع ہوئی، سٹاک ایکسچینج نے نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے ایک لاکھ کا ہندسہ عبور کیا، ملک میں معاشی سرگرمیاں بحال ہوئیں، مہنگائی میں کمی آئی اور بین الاقوامی مانیٹرنگ اداروں نے پاکستانی معیشت کے حوالے سے مثبت رپورٹس دیں، جس سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونا قدرتی امر ہے۔

مجموعی طور پر تقریباً تمام شعبوں نے گزشتہ برس اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بس دو شعبے ایسے ہیں جن کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی۔ ایک تو وطن عزیز کو سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوا، دوسرے امن و امان کی مجموعی صورتحال مایوس کن رہی۔ جہاں تک سیاسی استحکام کا تعلق ہے تو اس کیلئے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے، جن سے توقع کی جا رہی ہے کہ یہ معاملہ بھی خوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ فی الحال پی ٹی آئی کی جانب سے تعطل کا سامنا ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے تحریک انصاف کمیٹی سے تحریری شکل میں مطالبات مانگے ہیں جس پر پی ٹی آئی تذبذب کا شکار ہے۔ یہ جماعت چونکہ ہر معاملے کو سوشل میڈیا ٹرینڈز کا حصہ بناتی ہے اور سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹ سچ کی تمیز کے بغیر کسی بھی معاملے کو غیر ضروری طور پر اچھالتی ہے، اس لئے اسے خوف دامن گیر ہے کہ اگر حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو مطالبات تحریری شکل میں دیے گئے تو یہ تحریر گلے پڑ سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کا یہ خدشہ کسی حد تک درست بھی ہے۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ پیش کردہ مطالبات ان کے خلاف استعمال ہوں۔ زبانی پیش کئے گئے مطالبات پر عملدرآمد حکومت کیلئے مشکل ضرور ہے، مگر سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اور پیچیدہ مسائل سیاسی فہم و فراست سے حل کئے جا سکتے ہیں۔ پارٹی اپنے قائد کی رہائی چاہتی ہے، اگرچہ اس کے ساتھ دیگر کارکنوں کی رہائی بھی نتھی کر دی گئی ہے، مگر اصل مطالبہ عمران خان کی رہائی ہے، جو حکومتی نہیں عدالتی معاملہ ہے۔ انہیں جن مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں، جو مقدمات زیر سماعت ہیں یا جن کے فیصلے محفوظ ہوئے ہیں، یہ تمام معاملات عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں۔ یہ نعرے سوشل میڈیا پر یا پریس کانفرنسوں میں توجہ کھینچ لیتے ہیں کہ عمران خان کو رہا کرو، مگر قانونی طور پر یہ رہائی حکومت کا نہیں عدالتوں کا معاملہ ہے۔

فریقین کی جانب سے مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزائم ظاہر کیے جا رہے ہیں، مگر مبصرین کے خیال میں ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ اس لئے برآمد ہونے کے امکانات کم ہیں کہ تحریک انصاف کے مطالبات غیر متعلقہ ہیں۔

گزشتہ برس ملکی معیشت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بارہ ارب ڈالرز کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یاد رہے یہ ذخائر 2022ء میں عمران خان حکومت کی رخصتی پر ساڑھے چار ارب ڈالرز تک گر گئے تھے اور پاکستان کسی مالیاتی ادارے کو ارب دو ارب ڈالرز ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔ مگر شہباز شریف کی گزشتہ اور موجودہ حکومت نے معاشی اصلاحات پر توجہ مرکوز کئے رکھی۔ دوست ممالک نے بھی اہم کردار ادا کیا جبکہ پاک فوج کا مثبت کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جس کے سبب آج معیشت اگرچہ زیادہ اچھی حالت میں نہیں، مگر سر پر ڈیفالٹ کی لٹکتی تلوار ہٹ چکی ہے اور پاکستان بیرونی ادائیگیوں کیلئے مجبوری کے فیز سے نکل چکا ہے۔

جہاں تک امن و امان کی صورتحال کا تعلق ہے تو آئی ایس پی آر کے مطابق گزشتہ برس پاک فوج نے 59 ہزار 775 مختلف نوعیت کے آپریشنز کئے جن میں 925 دہشت گردوں بشمول خوارج کو جہنم واصل کیا گیا۔ دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے پاک فوج، انٹیلی جنس ادارے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے روزانہ کی بنیاد پر 170 آپریشنز کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس ان آپریشنز کے دوران 73 انتہائی مطلوب دہشت گرد ہلاک ہوئے، جبکہ ریاستی اداروں کی بہترین حکمت عملی کے باعث 14 انتہائی مطلوب دہشت گردوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شمولیت اختیار کی۔

شمالی وزیرستان میں چوکیوں پر خوارج کے حملے میں 17 فوجی جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، جس کے ردعمل میں پاکستان نے افغانستان کے صوبے پکتیکا میں دہشت گرد کیمپوں پر فضائی حملہ کیا۔ حملے میں پاکستان کو مطلوب درجنوں دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

2024ء میں سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کو کئی کامیابیاں ملیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس سے بیرونی دنیا کو اچھا پیغام گیا۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کا خاتمہ ہوا اور کئی معاہدے عمل میں آئے۔

تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا کا غلط استعمال جاری رہا جس کے خلاف قانون سازی بھی ہوئی۔ پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا مؤقف ہے کہ قواعد و ضوابط کے بغیر آزادی اظہار رائے معاشروں میں اخلاقی اقدار کی تنزلی کا باعث بن رہی ہے۔ گمراہ کن پروپیگنڈا، فیک نیوز اور غلط معلومات کی روک تھام کیلئے حکومتی قانون سازی خوش آئند ہے۔

حکومت اور عسکری قیادت کی تمام کاوشیں اور کامیابیاں ملک کے روشن مستقبل کی نوید ہیں۔ پاکستانی عوام کو امید ہے کہ عسکری قیادت اور حکومت کی بہترین حکمت عملی اور کاوشوں سے نیا سال 2025ء امن و استحکام کا سال ہوگا۔ اس سال زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافہ متوقع ہے، جس سے معیشت مستحکم ہوگی اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔

وصال محمد خان


About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket