وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد تحریک انصاف کی صفوں میں انتشار کے نئے سلسلے نے جنم لیا ہے۔ نئے صدر جنید اکبر نے روایتی دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ انہیں قومی میڈیا چینلز پر بھی مدعو کیا جانے لگا ہے جہاں وہ حکومت، فوج، صدر اور وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت حکومت کی جانب سے 75 کروڑ روپے آفر کا دعویٰ بھی کیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد ہمارے کارکنوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا ہے وہ حکومت میں آ کر اس کا بدلہ لیں گے۔
8 فروری کو یوم سیاہ قرار دے کر صوابی میں جلسہ منعقد کیا گیا جس کے بارے میں حسب سابق پارٹی راہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ یہ جلسہ ملکی سیاست کا رخ متعین کرے گا۔ اوپر سے عمران خان نے آرمی چیف کے نام خط جاری کیا ہے۔ یہ خط اگرچہ آرمی چیف کو ملا نہیں مگر صوبے سمیت پورے ملک میں کئی روز سے اس پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ خط محض کمپنی کی مشہوری کے لیے میڈیا میں لایا گیا ہے، برسرزمین اس کا کوئی وجود نہیں۔ پارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت بھی اٹھتے بیٹھتے خط میں اٹھائے گئے نکات پر بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہے۔
وزیراعلیٰ نے ایک انٹرویو میں 99 فیصد معاملات طے پانے کا دعویٰ کیا، جبکہ آرمی چیف کے نام خط اس دعوے کی واضح تردید ہے۔ پارٹی کے اندر سے بھی تضاد بیانی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے پارٹی راہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے ایک انٹرویو میں نیا پنڈورا باکس کھولتے ہوئے فرمایا کہ ان کی پارٹی کے 35 ارکان حلف نامے جمع کروا کر اسمبلیوں تک پہنچے ہیں۔ انہیں خود بھی حلف نامہ جمع کروانے کے لیے کہا گیا تھا مگر انہوں نے شکست کو قبول کیا۔
اس پر اے این پی کا مؤقف ہے کہ جو باتیں شوکت یوسفزئی آج کر رہے ہیں یہی ایمل ولی خان 8 فروری 2024ء کے بعد تسلسل سے کر رہے ہیں۔ شوکت یوسفزئی کے بیان سے ایمل ولی کے مؤقف کی تائید ہو رہی ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہمارا مینڈیٹ نہ صرف گزشتہ بلکہ ان سے پچھلے دو انتخابات 2013ء اور 2018ء میں بھی چرایا گیا ہے۔ عاطف خان اور عون چوہدری کے درمیان ملاقات کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس پر پارٹی کے اندرونی ذرائع خاصے ناخوش دکھائی دے رہے ہیں۔
ابھی اس ملاقات پر تبصروں کا سلسلہ جاری تھا کہ عاطف خان نے ایک نیا پنڈورا باکس کھولتے ہوئے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے انہیں اور اسد قیصر کو صوبائی اسمبلی کے ٹکٹس جاری نہیں کیے گئے، جبکہ تیمور سلیم جھگڑا اور شوکت یوسفزئی کو جان بوجھ کر صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے ہرایا گیا تاکہ علی امین گنڈا پور کی راہ صاف ہو۔
پی ٹی آئی راہنماؤں کی جانب سے اس قسم کے بیانات سے نہ صرف ایمل ولی خان، مولانا فضل الرحمان اور دیگر راہنماؤں کی الیکشن میں دھاندلی الزامات کو تقویت ملتی ہے بلکہ صوبے سے تحریک انصاف کی طوفانی کامیابی پر بھی شکوک و شبہات کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔ دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کے حوالے سے اس قسم کے بیانات مولانا فضل الرحمان اور ایمل ولی خان تسلسل سے جاری کر رہے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ چرا کر تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے، مگر اب یہی باتیں پی ٹی آئی کے اندر سے سامنے آ رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ، علی امین گنڈا پور اور صوبائی حکومت گورنر کے اختیارات چھیننے میں مصروف ہیں۔ پہلے ان سے یونیورسٹیوں کے چانسلر کے اختیارات لے کر وزیراعلیٰ کو سونپ دیے گئے، اب انہیں آئی ایم سائنسز کے بورڈ آف گورنرز کے عہدے سے بھی فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے کچھ ہو نہ ہو، گورنر کو دہائیوں سے حاصل اختیارات چھیننے سے محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔
اس سے قبل کے پی ہاؤس اسلام آباد میں گورنر انیکسی بھی ان سے چھین لی گئی تھی، جس کے بعد اسلام آباد احتجاج کے دوران کے پی ہاؤس پر پولیس نے چھاپے مارے اور وزیراعلیٰ کو وہاں سے خفیہ طور پر فرار ہونا پڑا۔ حکومت کو اپنی توانائیاں گورنر کے اختیارات چھیننے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر صوبے کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کی پارٹی قیادت میں تبدیلی کے بعد وزیراعلیٰ کے اختیارات پر قدغن لگانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ مبینہ طور پر گڈ گورننس کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ صوبے میں تقرر و تبادلوں کا اختیار محکموں کے سیکرٹریز یا پارلیمانی کمیٹی کے پاس ہونا چاہئے تاکہ محکموں اور اداروں میں سیاسی مداخلت کا سلسلہ بند ہو۔ ایک جانب وزیراعلیٰ گورنر کے اختیارات چھین کر اپنی ذات میں منتقل کر رہے ہیں تو دوسری جانب وزیراعلیٰ کے اختیارات پر بھی قدغن کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، یعنی تحریک انصاف کی موجودہ صوبائی حکومت عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی بجائے اختیارات کی چھینا جھپٹی میں مصروف ہے۔
گزشتہ دو حکومتیں وفاق سے محاذ آرائی کے سوا کوئی کام نہ کر سکیں، جبکہ موجودہ حکومت گورنر کے اختیارات کم کرنے کے بعد اب وزیراعلیٰ کے پر کاٹنے پر توجہ مرکوز کر چکی ہے، جس کا صوبے کے باشندوں کو کوئی فائدہ نہیں ملنا بلکہ حکومتی اور انتظامی امور متاثر ہونے کا قوی خدشہ ہے۔ نئے آئی جی پولیس کی تعیناتی پر بھی عمران خان وزیراعلیٰ سے خوش نہیں۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی منظوری کے بعد پشاور ہائیکورٹ میں نو تعینات ایک خاتون سمیت 10 ایڈیشنل ججوں نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے، جس سے عدالت عالیہ میں ججز کی تعداد 23 ہو گئی ہے۔ نئے تعینات ہونے والے ججز میں آٹھ وکلا جبکہ دو کیڈر ججز شامل ہیں۔ چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے تمام ججز سے حلف لیا۔ نو تعینات ججز میں دو ڈسٹرکٹ ججز فرح جمشید اور انعام اللہ شامل ہیں جو جج کیڈر سے ہیں۔ ان کے علاوہ جسٹس طارق آفریدی سول اور کریمنل امور، جسٹس جواد احسان سول کیسز، کارپوریٹ لاء اور آئینی امور، جسٹس مدثر امیر کارپوریٹ لاز کے علاوہ احتساب، جسٹس ثابت اللہ خان آئینی امور اور سول کیسز، جسٹس صلاح الدین سول و کریمنل کیسز، جسٹس عبد الفیاض کریمنل کیسز، جسٹس اورنگزیب کریمنل و سول کیسز جبکہ جسٹس صادق علی سول کیسز کے ماہر ہیں اور خیبر پختونخوا بار کونسل کے وائس چیئرمین رہ چکے ہیں۔ نو تعینات ججز بطور وکیل مختلف محکموں کے لیگل ایڈوائزرز بھی رہ چکے ہیں۔
پشاور کا واحد بین الاقوامی کرکٹ سٹیڈیم تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ یاد رہے اس سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کا کام 2018ء میں محمود خان حکومت نے شروع کیا تھا جو تاحال مکمل نہ ہو سکا۔ گزشتہ ہفتے پی سی بی حکام نے سٹیڈیم کا دورہ کیا۔ وفد کو بتایا گیا کہ بقیہ کام چند ہفتوں میں مکمل کیا جائے گا جس کے بعد سٹیڈیم پی ایس ایل یا بین الاقوامی میچز کے لیے تیار ہوگا۔ خیبر پختونخوا پولیس نے پی ایس ایل میچز کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی ہے جس سے امید کی جا رہی ہے کہ پی ایس ایل دسویں ایڈیشن کے کچھ میچز پشاور میں منعقد ہوں گے۔
صوبے کی بدقسمتی ہے کہ کرکٹ سے عروج پانے والی پارٹی کی تیسری حکومت ہے مگر گزشتہ دو دہائیوں سے صوبے میں کسی بین الاقوامی میچ کا انعقاد نہ ہو سکا۔ 8 اپریل سے شروع ہونے والے پی ایس ایل 10th کے کم از کم دو میچز پشاور میں منعقد کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے، جس سے شائقین کرکٹ کے چہرے کھل اٹھے ہیں کہ وہ اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو ایکشن میں دیکھ سکیں گے۔ یہاں بین الاقوامی میچوں کا انعقاد بھی پی سی بی کے زیر غور ہے جو خوش آئند امر ہے، مگر پی ایس ایل کے صرف دو میچز کم ہیں، پشاور کو میزبانی کا زیادہ موقع ملنا چاہئے۔
وصال محمد خان