ریاست کو گالیاں؟

آٹھ فروری کو گزشتہ عام انتخابات کا ایک سال پورا ہونے پر پی ٹی آئی نے یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پارٹی کا مؤقف ہے کہ گزشتہ برس منعقد ہونے والے انتخابات میں اس کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔ گزشتہ پورا سال پی ٹی آئی قائدین اور پیڈ سوشل میڈیا بریگیڈ نے فارم 45 اور 47 کی گردان اور پروپیگنڈے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش جاری رکھی کہ پنجاب اور کراچی میں ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔

اس سلسلے میں شدت پیدا کرنے کیلئے رواں ماہ کی 8 تاریخ کو یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے تحت پورے ملک میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور عوام نے احتجاج کرنا تھا۔ مگر صد افسوس کہ یہ یوم سیاہ پورے ملک میں نظر نہیں آیا۔ لاہور اور راولپنڈی سمیت پنجاب کے بڑے شہروں اور کراچی سے جیت کا دعویٰ شدت سے کیا جاتا ہے، مگر ان علاقوں پر یوم سیاہ کے کوئی اثرات مرتب نہ ہوسکے اور عام شہری معمول کے مطابق اپنے روزمرہ کے امور انجام دینے میں مصروف رہے۔

پی ٹی آئی قیادت بھی اب جان چکی ہے کہ عوام کو ان کی ذاتی مفادات پر مبنی احتجاجی اور پرتشدد سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں عام شہریوں نے یوم سیاہ پر کان دھرنا ضروری نہیں سمجھا۔ عمران خان اور پارٹی کے دیگر قائدین اگرچہ برملا اظہار نہیں کرتے اور مقبولیت کا راگ الاپتے رہتے ہیں، مگر اندرونِ خانہ وہ بھی جان چکے ہیں کہ قوم ان کی طرزِ سیاست سے دلبرداشتہ ہو رہی ہے۔

عمران خان اگر اقتدار کی سنگھاسن تک پہنچے تو انہوں نے خود نمائی، شعلہ بیاں ترجمانوں کے پروپیگنڈے، عزیز و اقارب کی بدعنوانی سے چشم پوشی اور سیاسی مخالفین کو ہٹلر طرز پر ختم کرنے کی خواہش اور کوشش کے سوا عوامی فلاح و بہبود یا ملکی ترقی کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ اسی طرح سابقہ اور موجودہ صوبائی حکومتوں نے بھی سیاسی محاذ آرائی اور بلند بانگ دعوؤں کے سوا کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ اپوزیشن میں آنے کے بعد تو پی ٹی آئی نامی سیاسی جماعت عوامی مسائل سے لاتعلق ہو چکی ہے۔ پارٹی قائدین نے اپوزیشن کا مقصد ہمہ وقت تنقید، برا بھلا کہنا، میں نہ مانوں کی رِٹ اور بے معنی الزامات سمجھ لیا ہے۔

اسی سبب پارٹی قائدین بخوبی جانتے تھے کہ ملک کے دیگر حصوں سے یوم سیاہ کو اہمیت نہیں ملے گی، اس لیے یوم سیاہ پر مرکزی احتجاجی جلسہ صوابی میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ امر باعث حیرت یہ ہے کہ اس صوبے سے تحریک انصاف نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے، جس پر دیگر جماعتیں معترض ہیں اور وہ دھاندلی الزامات لگا رہی ہیں، جن کی تصدیق اب حکمران جماعت کے راہنما بھی کر رہے ہیں۔ یہاں پارٹی کی ایک مستحکم حکومت قائم ہے اور اس کے ساتھ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ دیگر جماعتیں فریاد کناں ہیں کہ تحریک انصاف کے حق میں دھاندلی ہوئی ہے۔

خیبر پختونخوا میں یوم سیاہ کے مرکزی اجتماع کا انعقاد شدید مایوسی کی عکاس ہے، جس سے یہی آشکارا ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف حکومتی وسائل کے بغیر ایک جلسہ تک کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتی۔ جلسوں پر چونکہ کروڑوں روپے کی رقم خرچ ہوتی ہے، جس کا انتظام اس سے قبل پرویز خٹک، محمود خان کرتے تھے، اب علی امین گنڈا پور کر رہے ہیں۔ لاہور میں جلسے کیلئے ایک بادل نخواستہ کوشش ہوئی، جسے حکومت نے بین الاقوامی کرکٹ مقابلوں کے سبب مسترد کیا۔ مگر پنجاب یا ملک کے دیگر کسی حصے سے کارکنوں نے صوابی جلسے میں شرکت گوارا نہیں کی، جس کا یہی مطلب لیا جا رہا ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں میں پی ٹی آئی اور اس کے قائد کی مقبولیت بتدریج کم یا ختم ہو رہی ہے۔

ایک سبب یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی کو اجاگر کرتے رہتے ہیں، انہیں حکومتی وسائل بھی میسر ہیں اور پروپیگنڈہ محاذ پر بھی وہ پی ٹی آئی کو اگرچہ پچھاڑ تو نہ سکیں مگر مقابلہ خوب کر رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جے یو آئی (ف) اور اے این پی اپوزیشن پارٹیاں سمجھی جا رہی ہیں، مگر یہ سوشل میڈیا اور پروپیگنڈہ محاذ پر تحریک انصاف سے خاصی کمزور ہیں۔

اس لیے اس صوبے میں اگرچہ پی ٹی آئی کی مقبولیت وہ نہیں رہی جو گزشتہ انتخابات کے دوران تھی کیونکہ حال ہی میں اے این پی نے اپنے بانی راہنما باچا خان اور رہبر تحریک عبدالولی خان کی برسیوں پر تقریباً ہر ضلعے میں عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا، جس میں عوام کی شرکت متاثر کن رہی۔ اسی طرح جے یو آئی بھی جب کسی عوامی اجتماع کا انعقاد کرتی ہے تو کارکنوں سمیت عام لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد اس میں شرکت کرتی ہے۔

مگر ایک تو ان جماعتوں کے ارکان صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، جو ان جماعتوں کا خاصہ رہا ہے اور دوسرے قومی اور سوشل میڈیا پر ان جماعتوں کی متاثر کن موجودگی نظر نہیں آ رہی۔ ورنہ علی امین گنڈا پور کی گزشتہ ایک برس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، وہ پورا سال احتجاجوں اور پنجاب و اسلام آباد پر چڑھائیوں اور دھاوا بولنے میں مصروف رہے۔

پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومتیں بھی عوامی فلاح و بہبود کا کوئی خاطر خواہ کام نہ کر سکیں اور موجودہ حکومت کا دامن بھی تاحال خالی نظر آ رہا ہے۔ علی امین گنڈا پور کو صوبائی صدارت سے ہٹانے پر پارٹی کے اندر گروہ بندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کسی گروہ کی آرزو ہے کہ عمران خان کی رہائی عمل میں آئے تاکہ ان کا بوجھ ہلکا ہو، تو کسی کی خواہش ہے کہ وہ جیل میں رہیں تاکہ ان کی چوہدراہٹ قائم رہے۔

یوم سیاہ کے موقع پر صوابی جلسے میں کئی ممتاز راہنماؤں نے شرکت گوارا نہیں کی۔ جلسے میں حاضرین کی تعداد متاثر کن نہیں رہی۔ علی امین گنڈا پور سمیت دیگر قائدین نے قابل اعتراض زبان کا استعمال کیا۔ وزیر اعلیٰ کو اس قسم کی زبان زیب نہیں دیتی، وہ چار کروڑ باشندوں پر مشتمل ملک کے تیسرے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ شاید وہ دنیا کے واحد وزیر اعلیٰ ہیں جو اپنی ریاست پر تھوک رہے ہیں۔

ناقدین کا مؤقف قرین قیاس ہے کہ دیگر صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اس دن اپنی کارکردگی اجاگر کی، جبکہ علی امین کا دامن کارکردگی سے خالی ہے، اس لیے وہ عمران خان کی خوشنودی کیلئے ریاست کو گالیاں دے رہے ہیں۔ یہ طرز عمل کسی صورت سیاسی، جمہوری تقاضوں سے ہم آہنگ اور آبرومندانہ نہیں بلکہ یہ بچگانہ رویے اور فرسٹریشن کی علامت ہے۔ وزیر اعلیٰ کو اپنی حیثیت کے پیش نظر ان رویوں سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket