Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, July 12, 2025

خیبرپختونخواکے سینیٹ انتخابات

وصال محمدخان

مخصوص نشستوں کانظرثانی فیصلہ آنے کے بعدالیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوامیں سینیٹ انتخابات کاشیڈول جاری کردیاہے۔ خیبرپختونخوا سے سینیٹ کی 11نشستیں گزشتہ برس مارچ سے خالی چلی آرہی ہیں۔ عام طورپرپورے ملک میں سینیٹ انتخابات ہرتین سال بعدمنعقد ہوتے ہیں مگرخیبرپختونوامیں اس بارسواچارسال بعدیہ انعقادہورہاہے۔گزشتہ برس مارچ اپریل میں سندھ،پنجاب اوربلوچستان کے سینیٹ انتخابا ت منعقدہوچکے ہیں مگرخیبرپختونخواکی اسمبلی چونکہ نامکمل تھی اورمخصوص نشستوں کے حوالے سے پشاورہائیکورٹ،سپریم کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ آئینی بنچ میں مقدمہ زیرسماعت رہاجس سے سواسال کی تاخیرہوئی۔اگرچہ نئے ارکان نے تاحال حلف نہیں لیامگر آئینی منشا  کے مطابق الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات کاشیڈول جاری کردیاہے۔اگرصوبائی حکومت نئے ارکان سے حلف کے معاملے پر ٹال مٹول سے کام لیتی ہے تویہ انتخابات ایک بارپھرملتوی ہوسکتے ہیں۔ اگر انتخابات شیڈول کے مطابق منعقدہوتے ہیں تو7جنرل نشستو ں میں سے حکمران جماعت 5جنرل جبکہ خواتین اورٹیکنوکریٹ کی ایک ایک نشست حاصل کرسکتی ہے۔جنرل نشست پر کامیابی کیلئے 19 ووٹ درکارہونگے۔اگر حکمران جماعت متحدرہی اوراسکے ارکان گزشتہ تین انتخابات کی طرح سلپ نہیں ہوئے تویہ 7سینیٹرز باآسانی کامیا ب کروا سکتی ہے، ن لیگ کے درخواست پرہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعدجے یوآئی کے پاس 16ارکان ہیں اسے ایک جنرل نشست پر کامیابی کیلئے مزیدتین ووٹ درکارہیں جبکہ ٹیکنوکریٹ نشست پراسے دیگراپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکارہوگی۔مسلم لیگ ن کے 17 ارکان ہیں اسے ایک جنرل سیٹ پر کامیابی کیلئے مزیددو ووٹ درکار ہونگے جواے این پی اورپی ٹی آئی پی کے پاس تین تین ووٹس کی صورت میں موجود ہیں۔صوبائی اسمبلی کا ہرممبر ایک جنرل ایک ویمن اورایک ٹیکنوکریٹ یعنی تین ووٹ کاسٹ کریگا۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان بارگیننگ انہی ووٹوں کی بنیاد پر ہوتی ہے آئندہ ہفتے واضح ہوجائیگاکہ یہ دونوں چھوٹی جماعتیں اپوزیشن کی بڑی جماعتو ں کے حق میں اپنے ووٹ کااستعمال کرتی ہیں یاپھر انہیں حکمران جماعت اپنے حق میں رام کرتی ہے ان دونوں کے ووٹ حکمران جماعت کوملنے کی صورت میں اسکی جنرل نشستیں 5سے بڑھکرچھ یاٹیکنوکریٹ وخواتین کی ایک اضافی سیٹ بھی حاصل ہوسکتی ہے۔اپوزیشن جماعتو ں کے درمیان جوتیوں میں دال بٹنے کاسلسلہ جاری ہے۔ ہرجماعت اپنے جثے سے بڑھکر حصہ حاصل کرناچاہتی ہے اگر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہوجاتاہے تویہ11میں سے دوجنرل ایک ویمن اورایک ٹیکنوکریٹ نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں اور اگر ہرجماعت لالچ کامظاہرہ کرتی ہے تواس کافائدہ یقیناًحکمران جماعت اٹھائے گی۔ اس تمام صورتحال میں پیپلزپارٹی کوبھی نظر اندازنہیں کیا جاسکتا اگر پی پی دوچھوٹی جماعتوں کوساتھ ملانے میں کامیاب ہوتی ہے تواسے بھی ایک جنرل نشست مل سکتی ہے۔اگر پانچ جماعتی اپوزیشن اتحادو اتفاق،ایثاراوربہترین حکمت عملی کامظاہرہ کرتی ہے تو 11میں سے چارنشستیں ہاتھ آسکتی ہیں لیکن اگران میں ہر ایک خود کوسواسیرسمجھے تو عین ممکن ہے کہ اس کافائدہ حکمران جماعت اٹھانے میں کامیاب ہو۔مسلم لیگ ن نے پشاورہائیکورت سے رجوع کرکے استدعاکی تھی کہ چونکہ اسکے اورجے یوآئی کے اسمبلی میں سات سات ارکان ہیں اسلئے حکمران جماعت کی اضافی مخصوص نشستوں میں سے دونوں کاحصہ برابر ہوناچاہئے مگرالیکشن کمیشن نے جے یوآئی کودس جبکہ ن لیگ کوآٹھ نشستیں الاٹ کردیں۔اسی طرح اقلیتی نشست گجرال سنگھ کی صورت میں جے یوآئی کودے دی گئی جس پرارکان برابرہونے کے سبب ٹاس ہونا تھا۔عدالت نے جے یوآئی کے دوخواتین ارکان کوحلف سے روک کر اقلیتی نشست پر گجرال سنگھ کے انتخاب کانوٹیفکیشن بھی کالعدم قراردیااورالیکشن کمیشن کوحکم دیاکہ تمام جماعتوں کوسن کردس دن کے اندرسیٹ الاٹمنٹ کی جائے۔مذکوہ فیصلے سے جے یوآئی ارکان کی تعدادکم ہوکر16رہ گئی ہے حالانکہ یہ تعداد19تھی جس سے جے یوآئی کی ایک جنرل نشست کنفرم تھی۔ن لیگ اورجے یوآئی کے عام انتخابات میں 7, 7 نشستیں تھیں انہیں اپنے کوٹے سے دودومخصوس نشستیں ملیں جس سے دونوں کے ارکان نو،نوہوگئے۔ہائیکورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کونشستوں کی تقسیم پرنظرثانی احکامات سے جے یوآئی کی ایک خواتین جبکہ ایک اقلیتی نشست خطرے سے دوچارہوچکی ہے۔پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں میں سے جے یوآئی کودس جبکہ ن لیگ کو آٹھ نشستیں ملیں۔پی ٹی آئی پی ایک ویمن اورایک اقلیتی اضافی نشست کیلئے اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کرچکی ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے الاٹمنٹ پرنظرثانی کی صورت میں جے یوآئی دواضافی نشستوں سے محروم ہوسکتی ہے۔سینیٹ انتخابات میں سرمائے کاعمل دخل بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ تقریباًتمام جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی سرمایہ دارکوٹکٹ دے تاکہ وہ اپنے لئے دوچارووٹوں کاخود بندوبست کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہواورپارٹی فنڈمیں بھی تگڑی رقم دے سکے۔اسی کے پیش نظرجے یوآئی نے سینیٹردلاور خان کو ٹیکنوکریٹ نشست کیلئے نامزدکیاہے جن کااس پارٹی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ گزشتہ باربھی ن لیگ کی حمایت سے کامیاب ہوکرآزادبن گئے تھے۔جے یوآئی ماضی میں بھی طلحہ محموداوراعظم سواتی جیسے سرمایہ داروں کوسینیٹ بھیج چکی ہے۔اس سلسلے میں حکمران جماعت کابھی یہی وطیرہ رہاہے اس نے اکثرو بیشتر ترکئی خاندان، آفریدی خاندان،مردان کے ملیان،خانزادہ اورمحسن عزیزوغیرہ کوٹکٹس دئے ہیں۔ان سرمایہ داروں کوعوامی مسائل سے کوئی سروکارنہیں ہوتا بس وہ اپنے سٹیٹس کیلئے سینیٹرزبنتے ہیں۔ ماضی قریب کے کئی سینیٹ انتخابات میں غیرمتوقع نتائج سامنے آچکے ہیں جوواضح طورپر پیسے کاکرشمہ تھا۔اس باربھی مبصرین کوتوقع ہے کہ ایک سے تین غیرمتوقع نتائج سامنے آسکتے ہیں۔حکومت اپنے ارکا ن پرکڑی نظررکھی ہوئی ہے جبکہ اپوزیشن بھی احتیاطی تدابیرپرعمل پیرا ہے۔ اگرانتخابات کاعمل بغیرکسی غیر آئینی مداخلت کے پایہء تکمیل تک پہنچتاہے تو 11 میں سے 7نشستیں حکمران جماعت،2جے یوآئی اور1،1 نشست ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے حصے میں آسکتی ہے۔لیکن اگرپیسے کاعمل دخل ہواتونتیجہ توقعات کے برعکس بھی آسکتاہے جس کیلئے 21 جولائی کے شام کاانتظار کرناہوگا۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

خیبرپختونخواکے سینیٹ انتخابات

Shopping Basket