وصال محمدخان
موروثیت دنیاکے ہرشعبے میں موجودہے بلکہ خدمات کے بعض شعبوں کاوجودہی موروثیت کے سبب قائم ہے۔لوہارکابیٹا لوہار، کمہار کا بیٹا کمہار،بڑھئی کابیٹابڑھئی،سائنسدان کابیٹاسائنسدان،فوجی کابیٹافوجی،افسرکابیٹاافسرچپڑاسی کابیٹاچپڑاسی،ڈاکٹرکابیٹا ڈاکٹر، وزیرکابیٹا وزیر اوربادشاہ کابیٹابادشاہ ہوتاہے مگرحیرت انگیزطوپرسیاست میں موروثیت کوناپسندکیاجاتاہے۔مندرجہ بالاشعبوں سے اگربیٹے یابیٹیاں ہٹا دی جائیں توشائدیہ شعبے ہی ختم ہوں۔کسی بھی شعبے میں موروثیت بری نہیں بیٹااگرباپ کے نقش قدم پرچلناچاہتاہے اوراس میں صلاحیت موجودہے تواسے وہی بننے میں کوئی حرج نہیں جواس کاباپ ہے۔اکثرشعبوں میں باپ ہی اپنے کسی بیٹے یابیٹی کی پرورش اسی نیت سے کرتا ہے کہ یہ میری گدی سنبھالے گایاسنبھالے گی۔جوسیاستدان اپنے بچوں کوسیاستدان کے روپ میں دیکھناچاہتے ہیں وہ اسکی تربیت بھی کر تے ہیں اوروہ جانتے ہیں کہ میری گدی کون سنبھال سکتاہے۔ذوالفقارعلی بھٹوکے دوبیٹے اوردوبیٹیاں تھیں مگرانہوں نے بینظیربھٹوکوشروع سے ہی اپنا سیاسی جانشین سمجھاجب باپ نے اس قابل سمجھاتوبیٹی نے بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کوبروئے کارلاتے ہوئے اپنے باپ کا انتخاب درست ثابت کیا۔نوازشریف نے بھی مریم نوازکواپنے بیٹوں پرفوقیت دی جس نے اپنے باپ کا انتخاب درست ثابت کیا۔ دیگر شعبہ جات کی طرح سیاست میں بھی موروثیت قابل نفرت چیزنہیں۔اگرکسی سیاستدان کے بچوں میں سیاستدان بننے کی صلاحیت موجود ہے تو اسے اس بناپرروکناکہ وہ چونکہ سیاستدان کابیٹاہے اسلئے وہ سیاستدان نہیں بن سکتا۔متمدن اورترقی یافتہ دنیاکے بیشترممالک میں صدر کا بیٹاصدر،وزیراعظم کابیٹاوزیراعظم اوربادشاہ کابیٹابادشاہ بنتاہے اوراس میں کوئی قباحت بھی نہیں سمجھی جاتی مگرحیرت انگیزطورپرپاکستان میں عمران خان نے سیاست میں بیٹے یابیٹی کوباپ کی جگہ لینے کاعمل مکروہ قراردیاہے۔انہوں نے شریف اوربھٹوخاندانوں کو موروثیت پر اس شدت سے مطعون کیاکہ اب یہاں اگرچہ ہرسیاسی جماعت میں موروثیت موجودہے مگراسے قابل فخرکی بجائے باعث ندامت سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں بش فیملی کی تیسری نسل سیاست میں سرگرم ہے، بھارت میں گاندھی خاندان کابھی یہی سلسلہ ہے جبکہ بنگلہ دیش، انڈو نیشیااوربرماوغیرہ میں بیٹیوں نے باپ کی گدیاں سنبھالیں جہاں کے باسیوں نے بھی انہیں قبول کیابلکہ محبتوں سے نوازا۔تقریباًپوری دنیا میں موروثیت کومعیوب نہیں سمجھاجاتامگرپاکستان میں عمران خان نے اسے قابل نفرین بنادیاہے اگرچہ وہ بزعم خود موروثی سیاست کی مخا لفت کے بڑے داعی بنے پھرتے ہیں مگردرحقیقت انکی سیاست بھی موروثیت سے محفوظ نہیں۔انکی پہلی بیوی جمائمہ گولڈسمتھ نہ صرف اپنے باپ کاکاروبارسنبھالی ہوئی ہیں بلکہ وہ عمران خان کیلئے بھی اپنا کرداراداکرنے میں کوئی عارنہیں سمجھتی حالانکہ انکی علیٰحدگی کوبھی پندرہ برس سے زائد کاعرصہ گزرچکاہے مگروہ اب بھی عمران خان کیلئے ٹویٹ کرتی ہیں،برطانیہ میں انکی مظلومیت کاروناروتی ہیں اورامریکہ ودیگر ممالک میں ان کیلئے لابنگ کرواتی ہیں،اسی طرح انکی دوسری بیوی ریحام خان جوایک سال سے بھی کم عرصہ کیلئے انکی شریک حیات رہیں وہ بھی انکی سیاست سنبھالنے کی کوشش میں تھی اور اس پرعمران خان کوکوئی اعتراض نہ تھا۔انکی تیسری بیوی بشریٰ بیگم گھریلوخاتون کی آڑلیکر سیاست میں بھرپورطریقے سے حصہ لیتی آرہی ہیں خان کی حکومت میں انکی پسندسے وزرائے اعلیٰ کاتقررہوا،وفاقی وزراانکی مرضی سے تعینا ت ہو ئے،اے سی،ڈی سی اورڈی پی اوزتک کی تقرروتبادلے انکی مرضی سے ہوتے رہے اور عمران خان کے جیل جانے پر انہوں نے ڈی چوک میں پرتشدداحتجاج کولیڈکیامگرناکامی پروہ اسلام آبادسے نکل کرمانسہرہ میں نمودارہوئیں اوراسلام آبادسے فرارکووزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورکے کھاتے میں ڈال دیاگیا۔بشریٰ بیگم کے سیاسی کردارپرپارٹی کے سنیئرراہنماؤں نے بھی انگلیاں اٹھائیں خصوصاًسنجانی کی بجائے ڈی چوک میں احتجاج پرضداوراسکی ناکامی کاساراملبہ بشریٰ بیگم پرگرادیاگیا۔ عمران خان کی بہنیں خصوصی طورپرعلیمہ خان گزشتہ دو برس سے اپنے بھائی کی سیاسی وراثت سنبھالنے کی کوشش میں مصروف ہیں اگرچہ سیاسی ناتجربہ کاری انکے آڑے آرہی ہے مگروہ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔بعض مصدقہ ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ بشریٰ بیگم اورعلیمہ خان کے درمیان عمران خان کی وراثت سنبھالنے پرچپقلش ہے۔یعنی ننداوربھاوج وراثت پرحق جتانے میں مصروف ہیں۔موروثیت کی اس کھینچاتانی میں عمران خان کے دونوں بیٹوں کی انٹری ہورہی ہے۔قاسم اورسلیمان برطانیہ کے شہری ہیں اوراپنی والدہ جمائمہ گولڈسمتھ کیساتھ رہ رہے ہیں۔انکی پھوپھی علیمہ خان کے مطابق وہ پاکستان آکراپنے والدکی رہائی کیلئے تحریک کاحصہ بنیں گے۔جب سے یہ مژدہ سنایاگیاہے عمران خان کوموروثیت کے حوالے سے مطعون کرنے کاسلسلہ شروع ہوچکاہے انہوں نے سیاست کیلئے جومعیارمقررکرکھے ہیں ان سے خودروگردانی کے مرتکب ہورہے ہیں۔انکے بیٹوں کی پاکستانی سیاست میں انٹری کوکوئی بھی ذی شعورشخص قبول نہیں کرسکتا۔وہ جس ملک اورماحول میں پلے بڑھے ہیں پاکستان اس سے یکسرمختلف ہے۔تحریک چلاناتودورکی بات انہیں سیاست کابھی کوئی تجربہ نہیں۔پاکستانی سیاست بچوں کاکھیل نہیں۔ جن قوتوں کا مقابلہ عمران خان کرنے سے قاصرہیں اورانکے ہاتھوں زچ ہورہے ہیں ان قوتوں کامقابلہ انکے نوآموزفرزندان کیسے کرسکتے ہیں؟قاسم اورسلیمان کی آمدکاشوشہ خان صاحب کاسیاسی حربہ ہوسکتاہے کیونکہ جب سے یہ شوشہ چھوڑاگیاہے ملکی سیاست میں ہلچل سی مچ گئی ہے کوئی انکے بیٹوں کی نا تجربہ کاری کارونارورہاہے توکوئی خان صاحب کوموروثیت کے بارے میں انکے ارشادات یاددلارہاہے۔ جوبھی ہے جیسے بھی ہے عمران خان میڈیامیں اِن ہے اور منظرنامے پرچھائے ہوئے ہیں۔قاسم اورسلیمان کی پاکستان آمداورسیاست میں حصہ لینے میں کئی رکاوٹیں ہیں جوان نوجوانوں کیلئے عبورکرنابہت مشکل ہے۔انکی سیاسی تربیت کاجووقت تھاوہ عمران خان نے موروثیت پرتنقیدمیں گزاردیا ، اپنے بیٹوں کوسیاست کیلئے تیارنہیں کیا،انکی تربیت نہیں کی توان سے اپنی رہائی کیلئے کسی کامیاب تحریک کی امیدکیسے باندھ لی؟ وہ اس ملک کے شہری بھی نہیں کسی بھی ملک کے شہری دوسرے ملک میں سیاسی تحریک کاحصہ بنیں گے یاانارکی پھیلانے کی کوشش کرینگے تواس ملک کاقانون حرکت میں آنے پرتعجب نہیں ہوناچاہئے۔ یہ شوشہ سوشل میڈیاکیلئے فائدہ مندثابت ہوسکتاہے مگر عمران خان کی سیاست پراسکے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ ہمیشہ موروثی سیاست پردوسروں کو ہدف تنقیدبناتے رہے ہیں۔
