وصال محمدخان
وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپورنے اپنے لاؤلشکرکیساتھ لاہورکادورہ کیا۔دورے کابظاہرمقصدپنجاب حکومت کوباور کرواناتھاکہ انہیں لاہورجانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔وہاں انہوں نے حسبِ عادت وفاق اورپنجاب کی حکومتوں اورسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھمکی آمیززبان استعمال کی اور90روزکاالٹی میٹم دیاکہ اگراس دوران عمران خان کورہانہیں کیاگیاتوبقول شخصے وہ پاکستان سمیت پوری دنیاکوآگ لگادینگے۔حیرت انگیزامریہ ہے کہ عمران خان کوعدالت نے 190ملین پاؤنڈزکیس میں 14سال قیدکی سزاسنائی ہے ملکی قانون کے مطابق جس کسی کوبھی سزاسنائی جاتی ہے اسکے پاس ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ سے رجوع کاراستہ موجودہوتاہے۔ مگرپی ٹی آئی پوری پارٹی کیامردو خوا تین، کیابوڑھے اورجوان سب قانون کاسامناکرنے کی بجائے سٹیبلشمنٹ سے توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہی عمران خان کورہائی دلوائیگی۔یعنی سیاسی جماعت کی بجائے ایک پریشرگروپ کاتاثرقائم کیاجارہاہے جسے آئین وقانون،قواعدوضوابط یااخلاقیات سے کوئی سروکارنہیں۔ پاکستان کابچہ بچہ جانتاہے کہ برطانوی ایجنسی نے پاکستان سے غیرقانونی طورپرمنتقل کی گئی 190ملین پاؤڈزکی رقم پکڑی اورحکومت پاکستا ن کوآگاہ کیاکہ یہ رقم ہم حکومت پاکستان کولوٹانا چاہتے ہیں یہ رقم پاکستان منتقل ہوئی اورجس نے غیرقانونی طورپر برطانیہ بھیجی تھی اسی کواپس کردیگئی رقم کی مذکورہ فردکوواپسی غیرقانونی طریقے سے ہوئی اوراس کیلئے وفاقی کابینہ سے بندلفافے کی منظوری لی گئی جس کی گواہی اس وقت کے تین وزرادے چکے ہیں اسی کرپٹ پریکٹسزکے نتیجے میں عمران خان کوعدالت نے طویل سماعتوں کے بعدسزاسنائی اس سزاکے خلاف ہائیکورٹ سے اپیل کی جاچکی ہے اور اگر سزاغلط سنائی گئی ہوتوہائیکورٹ کو اسے معطل کرنے کااختیارہے۔معاملہ چونکہ عدالتوں کا ہے اسلئے اس میں پنجاب یاوفاقی حکومتیں یاسٹیبلشمنٹ کوئی کرداراداکرنے سے قاصرہیں۔مگرحیرت انگیزطورپرپی ٹی آئی اوراسکے قائدین کبھی وفاقی حکومت توکبھی سٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان بازی اورناکام احتجاجی تحریکوں کے ذریعے دباؤڈال کربانی کی رہائی کیلئے کوشاں ہے۔گزشتہ ایک سال سے گنڈاپوراورانکے ہمنواہرقسم کی کوششیں کرچکے ہیں مگرانہیں کامیابی نہیں ملی اورقوی امکان ہے کہ آئندہ کئی برسوں تک بھی بیان بازی،بڑھک بازی اوردھمکی آمیززبان استعمال ہوتی رہی تب بھی عمران خان کی رہائی کاکوئی امکان نہیں۔مگراسکے باوجودآئے روزتحریک چلانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اورالٹی میٹمزدئے جارہے ہیں کہ فلاں تاریخ تک عمران خان کورہانہیں کیاگیاتوہم یہ کردینگے اوراگراس تاریخ تک رہائی نہیں ملی توہم قیامت برپاکردینگے۔حالانکہ انہوں نے جوکچھ کرناتھاوہ کرچکے ہیں اورانکے کچھ کرنے سے عمران خان کوکوئی فیض نہیں مل سکا۔اب ایک بارپھر90روزکاالٹی میٹم دیاگیاہے جس کے بارے میں سیاسی مبصرین کاخیال ہے کہ یہ مدت گزر جانے پر یا تو نئی تاریخ دی جائیگی یاپھرحالیہ الٹی میٹم کوبھلادیاجائیگا۔کیونکہ یہ خالصتاً ایک قانونی اورعدالتی معاملہ ہے جسے عدالتیں ہی دیکھ سکتی ہیں اوروہیں سے ہی کوئی ریلیف بھی مل سکتا ہے۔ اس کیلئے کوئی زمین سے اپناسرپٹخ دے یاآسمان سے الٹالٹک جائے کسی پرکوئی اثرہونے والا نہیں۔علی امین گنڈاپورکوخدانے ایک صوبے کی حکمرانی عطاکی ہے ان کیلئے آبرومندانہ طریقہ تویہی ہے کہ وہ اپنی سرکاری ذمہ داریوں پر توجہ دیں صوبہ دہشت گردی کی آگ میں جل رہاہے،امن وامان کی صورتحال ناگفتہ بہہ ہے،لوگ اجتماعی طورپرسیلاب کی نذرہورہے ہیں، علماء،سیاسی شخصیات،سرکاری اہلکاروں اورسیکورٹی فورسزکی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے اورصوبے کے منتظم اعلیٰ لاہورمیں فنکشنزاورقوالی نائٹس کے شغل فرمارہے ہیں۔اسی ہفتے باجوڑ میں ایک عالم دین اورسیاسی شخصیت مولاناخانزیب کوپولیس اہلکاروں سمیت دن دیہاڑے قتل کردیا گیااس سے چندہی روزقبل باجوڑمیں ایک اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلدارسمیت تین مزیدسرکاری اہلکارقتل کردئے گئے،شمالی وزیرستان میں روزانہ کے حساب سے شہریوں اورسیکیورٹی فورسزپرحملے ہو رہے ہیں،کرم کے حالات تاحال نارمل نہیں ہوئے،حکومتی کارپردازوں اور سرکار ی اہلکاروں پراربوں روپے کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں مگروزیراعلیٰ یہ سب چھوڑچھاڑکرلاہورمیں فنکشنزاورقوالی نائٹس میں شرکت فرمارہے ہیں۔ہوناتویہ چاہئے تھاکہ وزیراعلیٰ باجوڑ جا کر مولاناخان زیب کے خاندان سے تعزیت کااظہارکرتے، یتیم ہونے والے بچوں کے سرپہ ہاتھ رکھتے جوریاست اورحکومت کی کمزور رٹ کے سبب یتیم بنادئے گئے انکی اشک شوئی کیلئے اقدامات کرتے بچو ں کی کفالت اورخاندان کیلئے نقدامدادکااعلان کرتے۔اگرچہ مولانا خان زیب کاتعلق اپوزیشن جماعت اے این پی سے تھامگریہ وقت توپی ٹی آئی پربھی آسکتاہے آج یہ فتنۃ الخوارج کے گڈبکس میں ہیں کیونکہ انہوں نے انہیں یہاں لاکرآبادکیاانہیں سہولیات فراہم کیں،جیلوں سے چھڑایااور بھتے کی صورت میں رقوم فراہم کیں مگرکل جب یہ سہولیات دستیاب نہیں ہونگیں توان کارخ پی ٹی آئی کی جانب بھی ہوسکتاہے۔ اورجس آگ میں آج دوسری جماعتیں جل رہی ہیں اسی آگ کی تپش پی ٹی آئی یاگنڈاپورتک بھی پہنچ سکتی ہے۔صوبے کے منتظم اعلیٰ کو باجوڑ جاکربیٹھناچاہئے تھااورتب تک یہ سلسلہ جاری رہتا جب تک مجرم قانون کی گرفت میں نہ آجاتے۔مگر انہوں نے ماتم والے گھرکے ساتھ اظہارہمدردی یاانکی غم میں شرکت کی بجائے لاہورجاکرمیوزک نائٹ سے شغل فرماناضروری سمجھا۔قابل افسوس امریہ ہے کہ اس قسم کافنکشن سوائے پشاورریڈزون کے پورے خیبر پختونخوامیں کہیں بھی منعقدکرناممکن نہیں یعنی اپناصوبہ اس قابل نہیں کہ خون خرابے سے پاک کوئی اجتماع منعقدہو اب فنکشنزکیلئے بھی صوبے کے منتظم اعلیٰ کو پنجاب کے دارالحکومت لاہورجاناپڑتاہے۔کوئی حساس،سنجیدہ اور درد دل رکھنے والے وزیراعلیٰ ہوتے توان حالات پرخون کے آنسوروتے مگریہاں ”روم جل رہاہے اورنیروبانسری بجارہاہے“۔ کاش وزیراعلیٰ گنڈاپور یہ دورہ مریم نوازکے تجربات سے استفادہ یاکچھ سیکھنے کی نیت سے کرتے مگرصدافسوس کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات میں بھی وہ دورۂ لاہورکی اجازت اور عمران خان سے ملاقات کا دکھڑا لیکربیٹھ جاتے ہیں۔علی امین گنڈاپورکی لاہوریاتراکے منفی اثرات سے انکارممکن نہیں انکی لاابالی پن اورسنگدلی پرتبصرے جاری ہیں، پی ٹی آئی راہنماؤں کے باہمی اختلافات کھل کرسامنے آئے ہیں اورپارٹی کی شکست وریخت کے عمل میں تیزی آئی ہے۔
