وصال محمدخان
گزشتہ ہفتے مسلسل بارشوں سے گرمی میں کچھ نرمی واقع ہوگئی ہے مگرسینیٹ انتخابات کاشیڈول آنے سے سیاسی درجہء حرارت خاصی حدتک بڑھ چکاہے۔اے این پی،،قومی وطن پارٹی اورجماعت اسلامی ماضی میں قابل ذکرپارلیمانی قوتیں رہ چکی ہیں مگرحالیہ سینیٹ انتخابات میں ان کاکوئی کردارموجودنہیں آخرالذکردونوں جماعتیں اسمبلی میں نمائندگی سے بھی محروم ہوچکی ہیں۔ جے یوآئی اورمسلم لیگ ن کے درمیا ن قانونی جنگ کے نتیجے میں جے یوآئی ایک خاتون نشست سے محروم ہوچکی ہے جومسلم لیگ ن کومل گئی۔ایک اقلیتی نشست پردونوں کے درمیان ٹاس کافیصلہ ہوامگرمفاہمت کے نتیجے میں ن لیگ مقابلے سے دستبردارہوئی۔جبکہ پیپلزپارٹی سے واپس لی گئی نشست پرپی ٹی آئی پی اوراے این پی کے درمیان ٹاس ہواجواے این پی نے جیت لیا۔اب145رکنی ایوان میں سنی اتحاد کونسل 58، آزاد 35(درحقیقت پی ٹی آئی 93ارکان)،جے یوآئی 18،مسلم لیگ ن 17،پیپلزپارٹی 10،اے این پی4جبکہ پی ٹی آئی پی کے 3ارکان ہیں۔حکومتی ممبران کی تعداد93جبکہ اپوزیشن کو 52ارکان کاساتھ حاصل ہے۔7جنرل،2خواتین جبکہ2 ٹیکنوکریٹس سمیت کل11 نشستوں پرانتخاب ہوناہے۔ جنرل نشست پرکامیابی کیلئے کم وبیش 20،جبکہ خواتین اورٹیکنوکریٹ ہرنشست پر کامیابی کے لئے 45 ووٹ درکارہونگے۔گزشتہ سینیٹ انتخابات میں 14ووٹوں سے بھی جنرل نشست پر سینیٹرکاانتخاب ہوچکاہے۔اسلئے حکومت اگر چہ 7میں سے5نشستیں جیتنے کادعویٰ توکرتی ہے مگردوچارووٹ ادھرادھرہوجانے سے اپوزیشن تین جنرل،ایک ایک ٹیکنو کریٹ اورویمن نشستوں سمیت 5نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ یعنی حکومت سے ایک نشست چھیننے کی بھرپورکوشش ہورہی ہے۔ جے یوآئی ایک جنرل اور ایک ٹیکنو کریٹ نشست حاصل کرنیکی خواہاں ہے،پیپلزپارٹی کے پاس 10ووٹ ہیں مگروہ ایک جنرل اورایک ویمن نشست پر نظریں جما ئے بیٹھی ہے۔جبکہ مسلم لیگ ن جنرل نشست پر امیرمقام کے بیٹے نیازاحمدکوسینیٹر بنوانے کی خواہاں ہے۔ صوبے سے سینیٹ کی 11 خالی نشستوں پرپیر21جولائی کوصوبائی اسمبلی ہال میں پولنگ ہوگی۔ جنرل نشستوں پر مرزامحمدآفریدی،فیصل جاوید، مراد سعید اور نور الحق قادری،ٹیکنوکریٹ پراعظم سواتی جبکہ ویمن نشست پر روبینہ ناز حکمران جماعت کے امیدوارہیں۔ جے یوآئی نے جنرل نشست پر مولانا عطاء الحق درویش جبکہ ٹیکنوکریٹ نشست پردلاورخان کو نامزدکیاہے۔دلاورخان2018ء سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کی تعاون سے آزادکامیاب ہوئے تھے اس وقت ن لیگ سے نشان واپس لیاگیاتھااسلئے سینیٹ امیدواروں نے آزاد حیثیت میں حصہ لیادلاورخان نے کامیابی کے بعدن لیگ جوائن کرنیکی بجائے آزاد گروپ تشکیل دیا۔اس باروہ جے یوآئی کے امیدوار ہیں۔ پیپلزپارٹی نے جنرل نشست پرجے یوآئی کے سابق سینیٹرطلحہ محمودجبکہ ویمن نشست پر روبینہ خالدکونامزدکیاہے۔پیپلز پار ٹی کے پاس اگر چہ دس ارکان ہیں مگراسے اے این پی اورپی ٹی آئی پی کاتعاون حاصل ہوسکتاہے۔ اس سے قبل مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعدصوبائی حکومت نئے ارکان سے حلف لینے میں تاخیری حربوں سے کام لے رہی تھی جس کے خلاف اپوزیشن نے پشاورہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ہائیکورٹ گزشتہ برس بھی ارکان سے حلف لینے کاحکم جاری کرچکی ہے۔اس بارحلف نہ لینے کی صورت میں سینیٹ انتخابات ایک مرتبہ پھرملتوی ہونے کاخدشہ پیداہوگیاتھااپوزیشن لیڈرنے سپیکرصوبائی اسمبلی اورالیکشن کمیشن کوخط لکھ کراجلاس بلانے کی درخواست کی۔الیکشن کمیشن نے بھی ہائیکورٹ کوخط لکھا اس حوالے سے سپیکرکامؤقف تھاکہ وہ ازخوداجلاس بلانے کااختیارنہیں رکھتے۔اجلاس بلانے کے چونکہ دوطریقے ہیں یاتووزارت قانون وزیراعلیٰ کوسمری ارسال کرتی ہے جس کی منظوری دیکر اسے گورنر کو بھیجاجاتاہے دوسری صورت ارکان کی جانب سے ریکوزیشن کی ہے مگرجب تک نئے ارکان حلف نہیں لیتے تب تک اپوزیشن کے پاس ریکوز یشن کیلئے ارکان پورے نہیں۔اب وزارت قانون نے اجلاس بلانے کی سمری وزیراعلیٰ کوبھیج دی ہے جوانہیں منظورکرکے گورنر کوبھیجیں گے گورنر20جولائی بروزاتواراجلاس بلائیں گے جس میں نئے ارکان سے حلف لیاجائیگااسکے بعدپیر21جولائی کویہ ارکان سینیٹ انتخابا ت میں ووٹ کاسٹ کرسکیں گے۔حکمران جماعت کے کارکن عرفان سلیم،خرم ذیشان،وقاص اورکزئی،ارشادحسین اورعائشہ بانو کوسینیٹ کے ٹکٹس نہ ملنے پرناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔حکومت اوراپوزیشن کے درمیان بلامقابلہ انتخاب کے فارمولے پربھی اتفاق ہوچکاہے۔جس کے تحت 6نشستیں حکومت جبکہ 5اپوزیشن کوملنے کافارمولاطے پاچکاہے مگراسکی راہ میں حکمران جماعت کے ٹکٹ سے محروم امیدوار حائل ہیں جوکاغذات واپس لینے پرآمادہ نہیں ہورہے۔پارٹی کی مرکزی قیادت بھی سرگرم ہوچکی ہے اگریہ امیدوارکاغذات نامزدگی واپس لیتے ہیں توتمام سینیٹرزبلامقابلہ منتخب ہونیکے قوی امکانات ہیں۔ ثانیہ نشترکے استعفیٰ سے خالی ہونیوالی نشست پر31 جولائی کوپولنگ ہوگی اس نشست پرحکمران جماعت کی کامیابی یقینی ہے جس کیلئے مشال یوسفزئی کوامیدوارنامزدکیاگیاہے مشال یوسفزئی بشریٰ بی بی اورعمران خان دونوں کی منظورنظرہیں اسلئے شدیدمخالفت کے باوجود انہیں ٹکٹ دیا گیا اس سے قبل علی امین گنڈاپورانہیں دومرتبہ کابینہ سے فارغ کرچکے ہیں۔مشال یوسفزئی نے سینٹ میں عمران خان کی رہائی کیلئے آواز بلند کرنے کاعزم دہرایاہے۔
مولاناخان زیب کی شہادت اورثمربلورکی پارٹی چھوڑجانے سے اے این پی کودوہری پریشانی کاسامناہے۔پارٹی کے مرکزی سیکرٹر ی امور علماء مولاناخان زیب عالم دین، مصنف،دانشوراورکالم نگارکی حیثیت سے ممتاز مقام رکھتے تھے۔ باجوڑ میں انکی رہائشگاہ پرتعزیت کرنیوا لو ں کاتانتابندھارہا۔اے این پی کے علاوہ دیگرجماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین اورکارکن بھی بڑی تعداد میں اہلخانہ سے اظہار تعز یت کیلئے حاضرہوئے۔اے این پی نے صوبے میں امن وامان کی ابترصورتحال،علماء،سیاسی راہنماؤں اورسیکیورٹی فورسز اہلکاروں کی ٹار گٹ کلنگ،مائنزاینڈمنرلزبل، صوبائی حقوق اور18ویں ترمیم کے ممکنہ خاتمے کے حوالے سے باچاخان مرکزپشاورمیں 26جولائی کو پختو ن قومی جرگہ جبکہ اسلام آبادمیں آل پارٹیزکانفرنس کااعلان کیاہے اے پی سی کی تاریخ کااعلان بعدمیں کیاجائیگا۔تھنک ٹینک اجلاس کے بعدمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے مرکزی صدرایمل ولی خان کاکہنا تھا کہ مولاناخان زیب کی ٹارگٹ کلنگ پرچیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنایاجائے جس میں مولانا کے خاندان سے بھی ایک فردشامل ہو۔ہمارے راہنمااورکارکن ٹارگٹ ہورہے ہیں مگرقاتلوں کاسراغ نہیں مل رہا۔
فرنٹیئرکانسٹبلری کووفاقی فورس میں تبدیل کردیاگیاہے جس پرصوبے کے متعددسیاسی راہنماؤں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیاہے۔ وزیرقانون آفتاب عالم کاکہناہے کہ ”فرنٹیئرکانسٹیبلری ری آرگنائزیشن آرڈیننس 2025“ صوبائی خودمختاری پرحملے کے مترادف ہے۔ ایف سی کوفیڈرل فورس میں تبدیل کرنا18ویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے،ایف سی کے پاس ایف آئی آراندراج کا اختیا نہیں تھا اسے پولیس اختیارات سے لیس کرکے صوبے میں تحریک انصاف کے خلاف استعمال کیاجائیگا۔سابق وزیراعلیٰ آفتاب شیرپاؤ نے بھی اس فیصلے پرتحفظات کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ قبائلی اضلاع کے قیام امن میں فورس کاکلیدی کردارہے،اسے وفاقی فورس میں تبدیل کرناسمجھ سے بالاترہے، فیصلے کے منفی نتائج سامنے آئیں گے اورفورس کی کارکردگی پربھی برے اثرات مرتب ہونگے۔جبکہ وفاق کا کہناہے کہ فورس کووفاقی فورس میں تبدیل کرنے کے بہترین نتائج متوقع ہیں اس اقدام سے اہلکاروں کے معاوضے اورسروس سٹر کچر جیسے مسائل کاخاتمہ ہوگا۔یادرہے ایف سی فورس 1915ء میں قائم کی گئی تھی جس کی غالب اکثریت قبائلی نوجوانوں پرمشتمل ہے۔فاٹا اوربعد ازاں ضم شدہ اضلاع کے قیام امن میں فورس کاکلیدی کردار ہے۔اگرنئی تبدیلی ناگزیرہے توحکومت کویہ معاملہ پارلیمنٹ کے فلورپرلاناچاہئے۔
