Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, July 27, 2025

سینیٹ انتخابات کے بعد

وصال محمدخان
خیبرپختونخواسے ایوان بالا کی 11خالی نشستوں پرسواسال کی تاخیرسے انتخابات منعقدہوئے۔اس تاخیرکاسبب مخصوص نشستوں پرارکان کے حوالے سے تنازعہ تھا۔جیساکہ بیشترقارئین بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ عام انتخاابات میں پی ٹی آئی سے انٹراپارٹی انتخابات نہ کروانے پر انتخابی نشان واپس لے لیاگیا۔یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ پارٹی سے انتخابی نشان واپس لیاگیاتھااسے کالعدم قرارنہیں دیاگیا مگرپی ٹی آئی کے پاس چونکہ سمجھ بوجھ کافقدان ہے اسلئے اس نے اپنے منتخب ارکان کیلئے سنی اتحادکونسل نامی جماعت کو ہائیرکیا ذرا واضح الفاظ میں اسے کرائے پرحاصل کیاگیااوراپنے منتخب ارکان کواس جماعت میں شامل کروادیاگیا۔جس کامقصدمخصوص نشستوں کا حصول تھامگر بدقسمتی سے سنی اتحادکونسل نے اپنے نشان پرانتخابات میں حصہ نہیں لیا،عام انتخابات میں کسی امیدوارکوٹکٹ جاری نہیں کیابلکہ اسکے سربراہ نے بھی آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا اورالیکشن کمیشن کے پاس مخصوص نشستوں کیلئے نامزدامیدواروں کے نام بھی جمع نہیں کروا ئے۔آئینی طور پرسنی اتحاد کونسل کومخصوص نشستیں الاٹ کرناممکن نہیں اس حوالے سے پہلے پشاورہائیکورٹ اوربعدازاں سپریم کورٹ آئینی بنچ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پرمہرتصدیق ثبت کردی۔مگرپی ٹی آئی مخصوص نشستوں پراپناحق جتارہی تھی اوریہ نشستیں دیگرجماعتوں کو الاٹ کرنے کی مخالفت کررہی تھی۔اس دوران الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخواسے خالی سینیٹ نشستوں پرانتخابات کاشیڈول جاری کردیا۔ پی ٹی آئی اپوزیشن کے نئے ارکان سے حلف لینے کے معاملے پرتاخیری حربے استعمال کرتی رہی۔18جولائی کواسمبلی ہال الیکشن کمیشن کے حوا لے ہوناتھامگراس دوران نئے ارکان سے حلف نہیں لیاگیاجس پرحکومت اوراپوزیشن کے درمیان اتوار20جولائی کواجلاس بلاکرنئے ارکان سے حلف لینے کا معاہدہ ہوا۔اس دوران حکومت اوراپوزیشن کے درمیان سینیٹرزکے بلامقابلہ انتخاب کامعاہدہ بھی عمل میں آیا جس کے تحت 6نشستیں حکو مت جبکہ5اپوزیشن کے حصے میں آئیں مگرحکومت کے کورنگ امیدوارنظریاتی ہونے کانعرہ بلندکرکے دستبردار ہونے سے انکاری ہوگئے یہ ارکان حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ہونے والے بلامقابلہ انتخاب کی بھی مخالفت کرتے رہے مگروزیراعلیٰ سمیت پوری پارٹی قیادت بلا مقابلہ انتخاب پربضدتھی۔اسکے باوجودپانچ امیدواردستبردارہونے کیلئے تیارنہیں تھے اوران کادعویٰ تھاکہ وہ کم از کم ایک سینیٹرمنتخب کرواسکتے ہیں۔ان میں سے ایک امیدوار نے ہفتے کے روزایک انٹرویومیں دعویٰ کیاکہ کل ہونے والاحلف برداری کیلئے اسمبلی کااجلاس کورم کے سبب ملتوی ہوگااورنئے ارکان حلف نہیں اٹھاسکیں گے۔20جولائی کواجلاس مقررہ وقت سے اڑھائی گھنٹے تاخیر سے منعقدہواجس میں حکومتی ارکان شریک نہیں ہوئے اوروہی ہواکہ کورم کی نشاندہی ہوئی اورسپیکرنے اجلاس چاردن کیلئے ملتوی کردیا۔ حالانکہ اگلے ہی دن سینیٹ انتخابات کاانعقادہوناتھااوران ارکان کے حلف نہ لینے کی صورت میں یہ انتخابات ملتوی ہونے کے قوی امکانا ت تھے۔ مگرحکومتی حکمت عملی کے تحت نئے ارکان سے حلف نہیں لیاگیاحالانکہ اس سے ایک دن قبل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سینیٹ ممبران کے بلا مقابلہ انتخاب کامعاہدہ بھی عمل میں آیاتھاجس کے تحت اپوزیشن نے اپنے اضافی امیدوار دستبردار کروادئے مگرحکومتی اضافی امیدوارمیدان میں تھے یعنی اپوزیشن تومعاہدے پرعملدرآمدکیلئے پرعزم تھی مگرحکومت کی نیت میں کھوٹ واضح نظرآرہی تھی کہ وہ معاہدے کے باوجود اپوز یشن سے دومزیدنشستیں چھیننے کیلئے کوشاں تھی کیونکہ اجلاس ملتوی ہونے تک حکومتی اضافی امیدواردستبردارنہیں ہوئے تھے۔ اجلاس ملتوی ہونے کے خلاف اپوزیشن نے ہائیکورٹ سے رجوع کیاجہاں سے گورنرکوحلف لینے کاحکم دیاگیا۔حیرت انگیزطورپر گورنر ہاؤس میں حلف برداری کے خلاف سپیکراوروزیراعلیٰ نے ہائیکورٹ سے رجوع کرلیاہے حالانکہ حکومت کو اس پرچپ سادھ لینی چاہئے تھی۔ اسے گورنرکی جانب سے حلف لینے کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کی کوئی ضرورت نہیں تھی مگرشائدیہ اپنی سبکی مٹانے کیلئے ہائیکورٹ چلے گئے اوروہاں مؤقف اپنایاکہ ہم توحلف لیناچاہتے تھے مگرکورم پورانہیں تھا۔کورم توحکومتی سازش کے تحت پورانہیں ہونے دیاگیااسمبلی میں اپوزیشن ممبرا ن موجودتھے مگرحکومتی ارکان غیرحاضررہے۔اس معاملے پرسپیکرکوایکشن لیکرحکومتی ارکان پرجرمانہ عائدکرنے کی ضرورت تھی نجانے یہ کس مدمیں ہائیکورٹ سے ریلیف کے متقاضی ہیں؟پی ٹی آئی قائدین کاوطیرہ رہاہے کہ یہ ہمیشہ ان عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہیں جو انکے خلاف ہوں۔جب یہ اپنے خلاف ہونے والے عدلیہ کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتے اوران پرعملدرآمدسے راہ فرار اختیارکر تے ہیں توکس منہ سے عدالتوں میں ریلیف کی توقع لیکرجاتے ہیں؟اس سے قبل سپیکراسدقیصراورڈپٹی سپیکرقاسم سوری بھی آئین کی دھجیاں بکھیر کرعدم اعتمادکی تحریک مستردکرچکے ہیں یعنی ان کاجہاں بس چلتاہے عدالتی فیصلوں اورآئین کوروندنے سے گریزنہیں کرتے مگر آئین و قانون کے چیمپئینزبھی بنے پھرتے ہیں۔ہائیکورٹ کوانکی درخواست نہ صرف مستردکردینی چاہئے بلکہ جن ارکان نے جان بوجھ کر کورم پورا نہیں ہونے دیا،نئے ارکان کی حلف برداری میں روڑے اٹکائے اوراجلاس سے غیرحاضررہے ان سے جواب طلبی ہونی چاہئے۔ عوام نے انہیں آئین کی دھجیاں بکھیرنے کیلئے ایوانوں میں نہیں بھیجابلکہ آئین وقانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے ان کا انتخاب ہواہے اس جماعت نے اپنے ہی ہاتھوں انتخابی نشان گنوادیا،خودہی دوسری جماعت کرائے پرحاصل کی اوراپنے ارکان کوایسی جماعت میں شامل کروایا جس نے عام انتخابات میں نہ ہی حصہ لیااورنہ ہی مخصوص نشستوں کیلئے نام الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائے مگر ان کامؤقف ہے کہ مخصوص نشستیں انکی جھولی میں ڈال دی جائیں حالانکہ یہ نشستیں اپنی بے وقوفی یاآئین وقانون سے لاعلمی کے نتیجے میں گنواچکے ہیں اب اخلاقیات کا درس دیکرکہاجارہاہے کہ نشستیں اخلاقی طورپرانکے حوالے کی جائیں اوراگرنہیں کی گئیں تویہ آئین قانون اور عدلیہ کے فیصلوں کوجوتے کی نوک پررکھیں گے۔یہ روئیے غیرجمہوری اورغیرآئینی ہیں دوسروں کوآئین وقانون پرعملدرآمدکادرس دینے والے خودکواس سے ماوارمخلوق سمجھتے ہیں۔خیبرپختونخواکے سینیٹ انتخابات توہوگئے مگرسواسال تاخیرکی ذمہ داری بلاشبہ تحریک انصاف پر عائد ہوگی۔یہ معمہ بھی تاحال حل طلب ہے کہ نومنتخب سینیٹرزکادورانیہ2024ء سے شمارہوگایاجولائی 2025ء سے؟

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

سینیٹ انتخابات کے بعد

Shopping Basket