وصال محمدخان
خیبرپختونخواکے سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کاعمل شروع ہوچکاہے۔اس سلسلے میں وفاقی،صوبائی اورغیرسرکاری ادارے تندہی سے اپنا کام کررہے ہیں خدمت خلق کے اسی جذبے کومدنظررکھتے ہوئے امیدکی جاسکتی ہے کہ بہت جلد سیلاب زدہ علاقوں میں زندگی بحال ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کو سیلاب کے حوالے سے آن لائن بریفنگ میں بتایاگیاکہ اب تک صوبے میں 406اموات اور247زخمیوں کی باقاعدہ تصدیق ہوئی ہے۔جن میں سے 332جاں بحق افرادکے لواحقین کو20لاکھ روپے جبکہ 35زخمیوں کو 5لاکھ روپے فی کس معاوضوں کی ادائیگی ہو چکی ہے۔ 28 افرادتاحال لاپتہ ہیں جنکی تلاش کاکام جاری ہے۔جاں بحق افرادمیں 305مرد،55 خواتین اور46بچے شامل ہیں۔ زخمیوں میں 179مرد،38خواتین اور30بچے شامل ہیں۔بونیرمیں سب سے زیادہ 238افرادجاں بحق اور128زخمی ہوئے۔صوابی میں دوسرے نمبرپر42افرادجاں بحق اور20زخمی،مانسہرہ 25،باجوڑ22،سوات 20اورڈی آئی خان میں 8افرادجاں بحق ہوئے۔ 5720خاندان متاثرہوئے ہیں جن میں 4398خاندانوں کوفوڈپیکیج کی مدمیں رقوم اداکی جاچکی ہیں،باجوڑکے نقل مکانی کرنیوالے 9698افرادکوبھی فوڈپیکیج فراہم کیاگیاہے،مجموعی طورپر3526مکانات کونقصان پہنچاجن میں 598مکانات مکمل طور پرتباہ ہوئے ہیں جبکہ2971مکانات کوجزوی نقصان پہنچاہے،43متاثرہ مکانات کے مالکان کومعاوضہ اداکیاگیاہے یہ عمل جاری ہے جسے بہت جلد پایہء تکمیل تک پہنچادیاجائیگا۔سیلاب کی تباہ کاریوں سے526رابطہ سڑکیں اور106پل متاثرہوئے ہیں،326تعلیمی مراکز، 38مراکز صحت اور67سرکاری دفاتربھی سمیت 2808دوکانات بھی متاثرہوئے ہیں۔وزیراعلیٰ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کوبھی معاوضے اداکر نیکی ہدایت کردی ہے،جبکہ سیلاب متاثرین کوادائیگی کیلئے ایک ہفتے کی ڈیڈلائن بھی دی گئی ہے،وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ جاں بحق افراد کے وہ کمسن بچے جن کے شناختی کارڈزاوربینک اکاؤنٹس نہیں بن سکتے انہیں معاوضوں کی ادائیگی کیلئے کوئی قابل عمل طریقہء کاروضع کیا جائے۔ زخمیوں کے تصدیقی عمل کوبھی جلد مکمل کرنے کیلئے محکمہ صحت کی مزیدٹیموں کوذمہ داریاں سونپی جا ئیں،دوکانوں اورمکانوں کی تصدیقی عمل کوبھی تیزکیاجائے،آبی گزرگاہوں پرقائم تباہ شدہ گھروں کابھی ڈیٹااکھٹاکرکے مالکان کومحفوظ مقامات پرمکانوں کی تعمیرکیلئے قائل کیاجائے۔جن گھروں میں ریلے داخل ہوئے انہیں صفائی کیلئے 1لاکھ روپے فی گھر انہ اداکیاجائے۔وزیراعلیٰ نے سختی سے ہدایت کی کہ متاثرین کومعاوضوں کی ادائیگی کاعمل مقررہ وقت میں مکمل کیاجائے ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں فنڈزکے استعمال میں شفافیت یقینی بنائی جائے اورمانیٹرنگ کے عمل کومؤثربنایاجائے۔
محکمہ مواصلات نے صوبے میں سڑکوں اورپلوں کوپہنچنے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق 15سے22اگست تک صوبے میں بارشوں اورسیلاب سے331سڑکوں کو336مقامات پرنقصان پہنچا،493کلومیٹرپرمشتمل سڑکیں سیلاب اور لینڈ سلائیڈ نگ کی نذرہوئیں،57سڑکیں تاحال بندہیں ان تمام سڑکوں کی بحالی پراخراجات کاتخمینہ9ارب45کروڑروپے لگایاگیا ہے۔ 229 سڑکیں جزوی جبکہ50سڑکیں مکمل طورپربحال کی گئی ہیں۔32پل سیلاب میں بہہ چکے ہیں جن میں سے ایک پل مکمل،22 جزو ی طورپر ٹریفک کیلئے کھول دئے گئے ہیں جبکہ9پل تاحال بندہیں اورقابل استعمال نہیں۔ان پلوں کی مرمت اوربحالی پر1ارب 12 کروڑروپے اخراجات کاتخمینہ لگایاگیاہے۔سوات میں سب سے زیادہ79سڑکیں 80مقامات پرمتاثرہوئیں،43کلومیٹرسڑکیں سیلا ب میں بہہ گئیں، 3سڑکیں مکمل،75جزوی طورپرٹریفک کیلئے کھول دی گئی ہیں جبکہ 2سڑکیں تاحال بندہیں۔ان سڑکوں کی بحالی پر 45 کروڑروپے سے زائدرقم خرچ کی گئی۔بونیرمیں 43سڑکیں متاثرہوئیں،39سڑکیں مکمل بحال 4مکمل بندہیں ان سڑکوں کی بحالی پر ساڑھے4ارب روپے کی لاگت آئیگی۔جبکہ صوابی میں 41سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوئیں جن میں 32سڑکیں تاحال بندہیں۔
سیاسی محاذپردیکھاجائے توپی ٹی آئی خودکوہرصورت خبروں میں اِن رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔ہفتہء گزشتہ کے دوران بانی کے حکم پر جنید اکبر نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیدیاہے جبکہ دواراکین فیصل امین گنڈاپورممبرقائمہ کمیٹی اقتصادی امور اورنیشنل فوڈسیکیورٹی جبکہ علی اصغرقائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ اورنجکاری،پلاننگ اینڈڈویلپمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوئے ہیں۔ جنیداکبر جو خیبرپختونخواکیلئے تحریک انصاف کے صوبائی صدربھی ہیں نے اپنے استعفے کی باضابطہ تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ یہ فیصلہ بانی کی ہدایت پر کیاگیاہے،میں نے پی اے سی کی چیئرمین شپ سمیت انرجی کمیٹی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دیاہے،بانی کے حکم پربلاتاخیراستعفے دئے، قیادت کے فیصلوں پرعملدرآمدہم سب کی ذمہ داری ہے،بانی کومکمل معلومات فراہم نہیں گئیں گوہرخان نے بغیرتصدیق رائے قائم کی کہ میں استعفیٰ نہیں دے رہاحالانکہ میں نے انہیں بتادیاتھاکہ بانی سے ملتے وقت میرااستعفیٰ ساتھ لیتے جائیں،لیکن وہ میرااستعفیٰ لیکرنہیں گئے اسلئے میں نے استعفیٰ انہیں واٹس ایپ کردیا۔ پارٹی چیئرمین گوہرخان بھی چارقائمہ کمیٹیوں کی رکنیت سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی تمام قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دینے کافیصلہ کیاہے جوکسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ایک جانب پارٹی قائدین ایکدوسرے کی تانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں تودوسری جانب استعفوں اوربیان بازی پرزیادہ توجہ مرکوزکی جاچکی ہے۔استعفوں کی سیاست کامقصدملک میں سیاسی عدم استحکام پیداکرنے کے سواکچھ نہیں مگراس قسم کی سیاست کاپہلے کوئی فائدہ ہواہے اورنہ ہی آئندہ ایسے کوئی امکانات ہیں۔اس سے قبل2022میں بھی قومی اسمبلی سے استعفے دئے گئے اوردوصوبائی اسمبلیاں بے وقت توڑدی گئیں مگربعدمیں برملاا عتراف کیاگیاکہ یہ دونوں فیصلے درست نہیں تھے اوران کاسیاسی نقصان ہوا۔اب ایک بار پھر استعفو ں کاکھیل شروع کردیاگیاہے جس پر مستقبل قریب میں خودہی پشیمانی کااظہارمتوقع ہے۔
سیلاب کی صورتحال پربحث کیلئے بلایاگیااسمبلی کااجلاس الزامات اورجوابی الزامات کی نذرہورہاہے۔اجلاس میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی بجائے اپوزیشن اورحکومتی اراکین ایک دوسرے پرکرپشن،بدعنوانی اورطالبان کوبھتہ دینے کے الزامات میں مصروف ہیں۔رواں اجلاس میں حکومتی رکن شفیع جان نے اے این پی کے رہبرتحریک اسفندیارولی خان پرپختونوں کومارنے کے بدلے ڈالرزلینے کاالزام لگایاجس پرنہ صرف اسمبلی میں گرماگرمی ہوئی بلکہ اسفندیارولی خان نے انہیں 100ملین روپے ہرجانے کانوٹس بھی جاری کردیاہے۔اس سے قبل اسی طرح کاایک مقدمہ اسفندیارولی شوکت یوسفزئی کے خلاف بھی جیت چکے ہیں۔شوکت یوسفزئی کے علاج کیلئے صوبائی کابینہ نے 2کروڑ روپے کی رقم منظورکی ہے جس پرانہیں کڑی تنقیدکاسامناہے کیونکہ وہ نوازشریف کے اپنے خرچ پربیرون ملک علاج کوتنقیدکانشانہ بناتے رہے ہیں آج وہ خودبیرون ملک سرکاری خرچ پرعلاج کروارہے ہیں جس پرتنقیدکی جارہی ہے کہ 12سالہ دورِحکومت میں پی ٹی آئی کوئی ایساہسپتال نہ بنواسکی جس میں شوکت یوسفزئی کاعلاج ہو۔یہی تنقیدیہ پہلے شریف خاندان پرکرتے تھے۔
