Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, October 1, 2025

پاک سعودی دفاعی معاہدہ

وصال محمد خان
بلاشبہ پاکستان اورسعودی عرب دو برادراسلامی ممالک کے درمیان عشروں پرمحیط مثالی تعلقات قائم ہیں ان دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات وقت کے ہرامتحان پرپورااترے ہیں اورزمانے کی گرم وسردکے بداثرات سے محفوظ ہیں۔پاکستانی عوام سعودی عرب کیساتھ مذہبی عقیدت کارشتہ رکھتے ہیں یہ وہی رشتہ ہے جسے دنیاکے پونے دو ارب مسلمان اپنے ایمان کاحصہ سمجھتے ہیں۔مسلمان دنیاکے کسی بھی کونے میں ہواسے سعودی عرب کیساتھ دلی لگاؤرہتاہے کیونکہ مسلمانوں کے سب سے زیادہ مقدس مقامات سعودی عرب میں موجودہیں جن میں حرمین شریفین،روضہء رسول ؐاورمسجدنبوی ؐقابل ذکرہیں جبکہ دنیا کے دوسرے بڑے مذہب اسلا م کاظہوربھی اسی ملک میں ہوااور یہیں سے یہ آفاقی مذہب پاکستان سمیت دنیاکے کونے کونے تک پہنچا۔ مذہبی عقیدت کے سبب پاکستانی قوم کے دل سعودی عرب کیساتھ دھڑکتے ہیں۔پاکستان ایٹمی صلاحیت سے لیس دفاعی طورپر ایک مضبوط ملک ہے مگراسکے معاشی حالات بسااوقات دگرگوں رہتے ہیں جبکہ سعودی عرب تیل اوردیگرمعدنی وسائل سے مالامال امیرملک ہے۔ دونوں کے درمیان برادرانہ تعلقات آٹھ عشروں پرمحیط ہیں اس عرصے میں یہ تعلقات کبھی سردمہری کاشکارنہیں ہوئے۔ پاکستان کوایٹمی تجربات کی پاداش میں امریکہ اورمغربی ممالک کی جانب سے اقتصادی پابند یوں کاسامناکرناپڑاتوسعودی عرب نے اس دوران پاکستان کواربوں ڈالرزکامفت اورقرض تیل دیاحالانکہ اسکے مغربی اتحادی اس اقدام پرسیخ پاہوئے مگرسعودی عرب نے انہیں اہمیت نہ دی۔پاکستان کواپنے پڑوس میں ابتداسے ہی ایک کینہ پروردشمن کا سا منا ہے جس کے ساتھ پاکستان تین بڑی اوران گنت چھوٹی جنگیں لڑ چکاہے بھارت آغازسے ہی پاکستان کی وجودکے درپے ہے اوروہ یک نکاتی مذموم ایجنڈارکھتاہے کہ پاکستان کوکسی طرح صفحہء ہستی سے مٹا دے یاباجگزارریاست بنادے۔اسی خواہش کے تحت اس نے پاکستان پرکئی جنگیں مسلط کیں اورہرجنگ کے پیچھے پاکستان کوتباہ کرنے کا مذموم ایجنڈاکارفرمارہامگرپاکستانی قوم اپنے سے آٹھ گنا بڑے دشمن کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہرجنگ سے سرخرو ہو کرنکلتی ہے۔اپنی سلامتی کویقینی بنانے اورکسی کیلئے ترنوالہ نہ بننے کے نظریئے پرکاربندہو کر پاکستا نی قوم78برسوں سے اپناوجودقائم رکھی ہو ئی ہے بلکہ یہ قوم ہمہ وقت سرپرمنڈلاتے خطرات کے پیش نظرایک لڑاکاقوم بن چکی ہے جس کے سامنے بھارت جیسابڑاملک ٹھہرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ دوسری جانب سعودی عرب تیل اورمعدنی وسائل کے باعث امیرملک ہے مگراس کادفاع زیادہ مضبوط نہیں۔اگرچہ سعودی عرب دفاع پرایک بڑی رقم خرچ کرتاہے مگراس کازیادہ انحصار امریکہ اورمغربی ممالک پرہے۔ سعودی عرب کے پڑوس میں اسرائیل ایک غاصب ریاست کی روپ میں موجودہے جس نے امریکہ اور مغرب کی پشت پناہی سے فلسطین کی زمینوں پرقبضہ کرکے ریاست کی بنیادرکھی اوراپنے قیام سے ہی پڑوسی ممالک کے خلاف جارحیت کا سلسلہ شروع کیا۔ساٹھ اور سترکی دہائیوں میں عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں جس میں امریکہ اورمغربی ممالک کی مدد سے اسرائیل فاتح رہا۔ جارح اسرائیل کی جارحیت سے خطے کاکوئی ملک محفوظ نہیں اس نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران چھ مسلم ممالک کی خودمختاری پامال کرتے ہوئے حملے کئے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کیخلاف گزشتہ مئی والی جارحیت اسکے گلے پڑگئی کچھ یہی حالت اسرائیل کی جانب سے قطرپرہونیوالے حملے کے بعد بھی پیداہوچکی ہے۔اسرائیل کی اس ننگی جارحیت کودنیاکے تقریباًتمام ممالک نے مستردکیااسکی مذمت کی اورقطرکیساتھ یکجہتی کااظہار کیاگیا۔ قطر پرحملہ اسرائیل کیلئے بداثرات اثرات کاحامل ہے ساتھ ہی امریکہ نے بھی عرب دنیا میں اپنااعتمادکھودیاہے قطراورامریکہ کے درمیان قریبی دفاعی تعاون اورامریکہ کے قطرمیں خطے کاسب سے بڑافوجی اڈہ قائم ہے اسکے باوجودامریکہ نے نہ ہی اسرائیلی حرکت کوناپسندکیااورنہ ہی اسکی سرزنش تک گواراکی۔جس سے عرب دنیامیں یہ احساس جنم لے چکا ہے کہ امریکہ اسرائیل کاحقیقی دوست اورسرپرست ہے اوروہ اسرا ئیل کے مقابلے میں کسی عرب ملک کاساتھ نہ دے رہاہے اورنہ ہی مستقبل میں ایساکوئی امکان ہے۔ اسلئے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں یہ سوچ اب پختہ ہورہی ہے کہ اپنے دفاع کیلئے امریکہ پرانحصارکم کیاجائے اوردوسرے مواقع تلاش کئے جائیں۔قطرپراسرائیلی حملے نے اس سلسلے میں بارش کے پہلے قطرے کاکرداراداکیا۔سعودی عرب اورپاکستان کے درمیان جارحیت کے مقابلے میں مشترکہ دفاع کامعاہدہ عمل میں آچکاہے غیرمصدقہ اطلاع کے مطابق خطے کے دیگرممالک بھی دفاعی سٹریجک معاہدے کاحصہ بننے کے خواہش مندہیں۔ایسا ہو نیکی صورت میں مسلم ممالک کی سلامتی کودرپیش خطرات خاصے حدتک کم ہوجائینگے۔جب تک دنیامیں اسرا ئیل اوربھارت جیسے مسلم دشمن ممالک موجود ہیں مسلمان ریاستوں کے وجودکوخطرات لاحق رہینگے جس کاتدارک باہمی اتحادسے ہی ممکن ہے۔ اس قسم کے معا ہدے نیٹو اورامریکہ سمیت کئی ممالک کے درمیان عملی طورپر موجودہیں۔بعض حلقے پاک سعودی دفاعی معاہدے پرامریکی ناراضگی کاخدشہ ظاہرکر رہے ہیں۔بائیڈن دورمیں پاک امریکہ تعلقا ت سردمہری کاشکارہوگئے تھے مگرٹرمپ کے دوسرے دورمیں دونوں کے درمیان گرمجوشی پائی جارہی ہے ان تعلقات کی آزمائش کایہ بہترین موقع ہے اگرامریکہ نے معاہدے پرناراضگی کااظہار کیایا پاکستا ن کے خلاف اقدامات کئے تویقیناًیہ تعلقات سطحی اورعارضی تھے اوراگرامریکہ پاک سعودی معاہدے کودونوں ممالک کااندرونی معاملہ قرار دے توسمجھ لیں پاک امریکہ تعلقات نئے دورمیں داخل ہوچکے ہیں۔امریکہ سعودی عرب کادفاعی شراکت دارہے جبکہ پاکستا ن کیساتھ سعودی عرب کامعاہدہ دونوں کے خلاف ہونیوالی کسی بھی جارحیت کامل کرمقابلہ کرنے کاہے۔امریکہ سعودی قریبی تعاون اورپاک سعودی معاہدے میں خاصا فرق ہے اس معاہدے سے دونوں ممالک ایک دوسرے کی دفاع کیلئے باقاعدہ ذمہ داربن گئے ہیں۔جبکہ امریکہ سعودی تعاون اسلحہ کی خریداری یادیگرمعاملات تک محدودہے۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ امت مسلمہ کے درمیان تعاون کی نئی راہیں کھولنے کا آغاز ہے جو مسلمانوں کی حالت زارمیں تبدیلی کامؤجب بن سکتاہے۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

پاک سعودی دفاعی معاہدہ

Shopping Basket