وصال محمدخان
پشاورہائیکورٹ نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں مختلف ادوارمیں ہونیوالی ترامیم کالعدم قراردیکرایکٹ کواصل حالت میں بحال کر نے کاحکم جاری کردیاہے۔جسٹس سیدارشدعلی اورجسٹس فرخ جمشیدپرمشتمل دورکنی بنچ نے مردان سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندگا ن کی رٹ درخواستوں پرسماعت کی جن میں مؤقف اختیارکیاگیاتھاکہ بلدیاتی ایکٹ 2013ء میں 2015ء،2019ء اور 2022ء میں ترامیم کرکے منتخب نمائندوں کے مالی اورانتظامی اختیارات سلب کرلئے گئے بلکہ حکومتی اقدامات سے بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور اتھار ٹی کوتقریباًختم کردیاگیاجوآئین کے آرٹیکل 32اور140Aکی خلاف ورزی ہے اوراس سے درخواستگزاروں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کامؤقف تھاکہ قانون سازی حکومت اوراسمبلی کااختیارہے ان ترامیم کامقصد بلدیاتی اداروں کے اختیارات ریگولیٹ کرناہے۔دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعدعدالت نے قراردیاکہ بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم آئین سے تجاوز ہے، اگرچہ قانون سازی حکومت کاآئینی حق ہے لیکن آرٹیکل140Aکے تحت اختیارات منتقل کئے جائینگے نہ کہ انتظامی غلبہ حاصل کیاجائیگا ۔ عد الت نے ماضی کے فیصلوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ منتخب نمائندگان کے ذریعے لوکل گور نمنٹ مضبوط کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ حکومتی ترامیم اوراقدامات آئین کی روح کے منافی ہیں۔عدالت درخواستیں منظورکرتے ہوئے سیکشن23A اور 25Aمیں ترامیم کو غیر آئینی اورغیرقانونی قراردیتی ہے۔عدالت نے رولزآف بزنس 2022ء کے رول 5اور رول 6کوبھی کالعدم قرار دیتے ہوئے سیکشن 23Aاور25Aکوبحال کرنے،اختیارات اورذمہ داریاں منتخب نمائندوں کوواپس کرنے کاحکم دیتے ہوئے خیبرپختو نخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013ء کواصل حالت میں بحال کرنے کاحکم بھی دیدیا۔موجودہ بلدیاتی اداروں کوقائم ہوئے چاربرس کاعرصہ ہونے کوہے مگراس دوران منتخب نمائندوں کواختیارات دینے کی بجائے چھینے گئے۔جس کے خلاف بلدیاتی نمائندے گزشتہ چارسال تک عدالتی جنگ لڑتے رہے اورسڑکوں پراحتجاج کرتے رہے۔حکومت کوچاہئے کہ اب عدالت عالیہ کے حکم پرعملدرآمدکرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کوبااختیار بنائے تاکہ عوام کے مسائل حل ہونے کی امید پیدا ہو۔
وزیراعلیٰ پرایک بارپھرافغانستان کیساتھ مذاکرات کابھوت سوارہوچکاہے۔وہ اٹھتے بیٹھتے افغانستان کیساتھ مذاکرات کی اجازت طلب کرتے رہتے ہیں اوردہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی کھل کرمخالفت کرتے ہیں۔ہفتہ گزشتہ کے دوران ان کاکہناتھاکہ افغا ن حکومت دہشتگردی کامسئلہ حل کرنیکی حامی ہے،وہاں سے مثبت پیغام آیاہے،جس کے جواب میں ہماراوفد جاکرمذاکرات کریگا، افغانستا ن کیساتھ گفت وشنیدکے ہمارے مؤقف کوتنقیدکانشانہ بنایاگیااورکہاگیاکہ یہ وفاق کادائرۂ اختیارہے،ہمارے ابتدائی رابطے کامیاب رہے ہیں،اس ہفتے قبائلی وفدکے نام وفاق کوبھجوادئے جائیں گے،وفاق کے مطالبے پر ہم وفدمیں شامل افرادکے نام بھیج دینگے،ہم ہمیشہ سے مذاکرات کے حامی رہے ہیں،ہمارے خلاف تمام کیسزبے بنیادہیں،ادارے آئین کے مطابق کام کریں،ہم عوام کی حقیقی جنگ لڑرہے ہیں،قومی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کے ذمہ داروفاقی حکومت اورمحسن نقوی ہیں،محسن نقوی نے کرکٹ بورڈاوردیگرادارے تباہ کردئے، شدت پسندوں کے خلاف آپریشنزسے دہشتگردی مزیدبڑھ گئی ہے ہمارے مذاکرات کانتیجہ ملک وقوم کے حق میں ہوگا۔وزیراعلیٰ طویل عرصے سے افغانستان کیساتھ مذاکرات کاراگ الاپ رہے ہیں انہوں نے تووفاق کونظراندازکرتے ہوئے ازخودمذاکرات کرنے کابیان بھی دیاجس پرانہیں سیاسی،صحافتی،عوامی اوردیگرحلقوں نے کڑی تنقیدکانشانہ بنایااوریاددہانی کروائی کہ وہ جس صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں یہ پاکستان کاحصہ ہے جس کے دائرۂ اختیارمیں کسی دیگرملک کیساتھ مذاکرات شامل نہیں بلکہ یہ وفاقی حکومت کااختیار ہے وزیراعلیٰ کاکہناہے کہ قبائلی اوروفاقی مشترکہ وفدافغانستان کیساتھ مذاکرات کریگا۔افغانستان سے وفاق کامطالبہ یہی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دے مگروہاں سے پاکستان میں مداخلت اوردراندازی کاسلسلہ اب بھی جاری ہے۔اس سلسلے میں چین نے بھی کردار ادا کرنیکی کوشش کی مگرتاحال اسکے بھی خاطرخواہ نتائج سامنے نہ آسکے۔ نجانے گنڈاپورکے پاس کونسی گیدڑسنگھی ہے جوانکے مذاکرات سے مسائل حل ہوجائینگے۔ان مذاکرات کانتیجہ جلدہی سامنے آنے کی توقع ہے مگراس سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔
حکمران جماعت نے پشاورمیں جلسے کے انعقادسے سیاست میں ارتعاش پیداکرنیکی کوشش کی۔اس سے قبل سیلاب کی تباہ کاریوں اوراسکے بعددہشت گردی کے بڑھتے واقعات سے سیاسی محاذپرخاموشی چھائی ہوئی تھی۔اس دوران اگرچہ بیان بازی کا سلسلہ جاری تھامگرعوامی اجتماعا ت کاسلسلہ منقطع رہا۔ جے یوآئی نے پہلے سے طے شدہ دوعوامی اجتماعات سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظرملتوی کردیں مگرپی ٹی آئی نے 20ستمبرکومشن نورکے نام سے اذانیں دینے کی ایک سرگرمی کی جس پرپارٹی تقسیم کاشکارنظرآئی۔ چیئرمین گوہر خان اورسابق وفاقی وزیرعلی محمدخان نے اذانیں دینے والی سرگر می سے لاتعلقی کااظہارکیامشن نورکو محققین نے قادیانیوں کی سرگرمی قراردیا جس سے پی ٹی آئی کے پاس اس سے لاتعلقی کے سواچارہ نہ رہا۔بعض راہنمامشن نورسے لاتعلقی ظاہرکرتے رہے جبکہ کچھ اسے تاریخی کارنامہ قراردینے پر بضد رہے اس کی ناکامی کے بعد 27 ستمبر کوپشاورمیں جلسے کااعلان کیاگیاجس کے بارے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور دیگر راہنماؤ ں کادعویٰ تھاکہ یہ ملکی تار یخ کاسب سے بڑا،کامیاب اورانوکھاجلسہ ہوگاجو ملکی سیاست کارخ متعین کریگا اس قسم کے دعوے یہ جماعت اپنی ہرسیاسی سرگرمی کے حوالے سے کرتی ہے مگرجلسہ حسب سابق کوئی خاص تاثرقائم کرنے میں ناکام رہا۔ وزیراعلیٰ کادعویٰ تھاکہ وہ جلسے کی میزبانی خودکرینگے۔ جلسے کیلئے انتظامات کی نگرانی وزیراعلیٰ نے خودکی۔دیگرصوبوں سے تعلق رکھنے والے 35ہزار کارکنوں کی رہائش کیلئے جلسہ گاہ کے قریب شادی ہالزبک کئے گئے جن کی قیام وطعام کیلئے بھی انتظامات کئے گئے۔مگردیگرصوبوں سے شریک کارکنوں کی تعدادتوقعات کے برعکس رہی اسی طرح خیبرپختونخواسے بھی راہنماؤں کی توقعات سے خاصے کم افرادشریک ہوئے۔حالانکہ پارٹی راہنماؤں نے لاکھوں افراد کی شرکت کادعویٰ کیاتھاوزیراعلیٰ نے جلسے کی کامیابی کیلئے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور عہدیدارو ں کوسخت ہدایات جاری کر کے ارکان اسمبلی کوحکم دیاتھاکہ وہ اپنے حجروں سے نکلتے وقت ویڈیوزبنائیں گے راستے کی ویڈیوزقابل قبول نہیں ہونگیں،اس بار کوئی بہانہ نہیں چلے گا، کوتاہی برتنے والوں کیلئے کوئی معافی نہیں جلسے میں لاکھوں لوگوں کوجمع کرناہے یہ اس پارٹی کی روایت رہی ہے کہ یونین کونسل سطح پروگرا م میں بھی لاکھوں نہیں توہزاروں لوگوں کی شرکت کادعویٰ کیاجاتاہے۔وزیراعلیٰ کے بھائی فیصل امین گنڈاپور نے اے این پی سربراہ ایمل ولی خان کوہتک عزت کانوٹس دیاہے انہوں نے الزامات لگانے پرمعافی مانگنے کامطالبہ کیا بصورت دیگر انکے خلاف ا یک ارب روپے ہرجانے کادعویٰ دائرکیاجائیگا۔
