Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, October 15, 2025

خیبرپختونخوا میں ایک اور تجربہ

وصال محمدخان
خیبرپختونخواراؤنڈاَپ
وزیراعلیٰ،علی امین گنڈاپوربانی پی ٹی آئی کے حکم پرمستعفی ہوچکے ہیں انکے استعفیٰ کی تصدیق پارٹی کے جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجا اور چیئرمین گوہرخان کی جانب سے بھی ہوچکی ہے۔سلمان اکرم راجاکی گفتگوسے ظاہرہورہاہے کہ انہیں صوبے میں امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث استعفیٰ دینے کاحکم دیاگیااڈیالہ جیل کے باہربات چیت کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ اورکزئی میں فوجی جوانوں کی شہادت پرانہیں ہٹانے کافیصلہ کیاگیا۔آئی ایس پی آرکے مطابق 7اور8اکتوبرکی درمیانی شب سیکیور ٹی فورسزنے قبائلی ضلع اورکزئی میں بھارتی حمایت یافتہ فتنۃ الخوارج کی موجودگی پرآپریشن کیاآپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسزکی بروقت اورمؤثرکارروائی کے دوران 19 خوارج ہلاک کردئے گئے جبکہ ایک لیفٹیننٹ کرنل جنیدطارق اور انکے سیکنڈاِن کمانڈمیجرطیب راحت نے جرات وبہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔دشمن کیساتھ مقابلے میں دوافسران سمیت 11جوان شہیدہوئے۔یادرہے اورکزئی کے حالات گزشتہ چندبرسوں سے خراب چلے آرہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے وہاں جرگوں کے ذریعے امن وامان کی صورتحال پرقابوپا نیکی کوششیں کیں مگراسکے خاطرخواہ نتائج برآمدنہ ہوسکے۔ علی امین گنڈاپورکواورکزئی واقعہ پرہٹانے کامؤقف بے وزن ہے کیونکہ ماضی میں اس قسم کے واقعات پرکسی وزیراعلیٰ کی رخصتی کی مثال موجودنہیں۔اس سے قبل اورکزئی کے حالات بہت زیادہ خراب تھے اوروہاں ڈپٹی کمشنرسمیت اسسٹنٹ کمشنرپربھی حملے ہوچکے ہیں اگرانہیں اورکزئی واقعات کے سبب ہٹایاجاناتھاتوبہت پہلے ہٹایاجاتا۔صوبے میں امن وامان کی صورتحال توگزشتہ خاصے عرصے سے خراب چلی آرہی ہے جوانوں کی شہادت کابھی یہ کوئی پہلاواقعہ نہیں کہ اس کی وجہ سے وزیراعلیٰ کوہٹایا جائے۔وزیراعلٰٰ کوہٹانے کے اسباب وعوامل وہ نہیں جوبتائے جارہے ہیں۔کہاجارہاہے کہ علی امین گنڈاپوراوربانی پی ٹی آئی کے درمیان تعلقات خاصے عرصے سے خراب چلے آرہے تھے مگراس سلسلے میں شدت اس وقت پیداہوئی جب 27ستمبرکوپشاورمیں ہونیوالاجلسہ نہ صرف ناکامی سے دوچارہوا بلکہ اس میں بانی کی رہائی کیلئے اگلے لائحہء عمل کااعلان بھی نہ ہوسکااورعلی امین گنڈاپورکیخلاف جلسے میں نعرے بازی بھی ہوئی۔جلسے کے فوری بعدگنڈاپورکی بانی سے پانچ ماہ بعدہونیوالی ملاقات سردمہری کے ماحول میں ہوئی۔ ملاقات کے بعدگنڈاپور نے ایک ویڈیوپیغام میں کہاکہ انہوں نے بانی کوبتادیاہے کہ انکی بہن علیمہ خان ایم آئی کی ڈائرکشن پرچلتی ہے۔بہت سے حلقے بضدہیں کہ انکی رخصتی بانی کی ہمشیرہ پرلگانے والے الزامات کاشاخسانہ ہے۔اپنے دورِحکومت میں انہوں نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر کوبھی اسی سبب عہدے سے ہٹادیاتھاکہ انہوں نے بشریٰ بیگم کے حوالے سے کرپشن کے ثبوت ان کے سامنے رکھے تھے۔ بہرحال علی امین گنڈاپوراب ماضی کاحصہ بن چکے ہیں انہوں نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دیدیاہے اورانکی جگہ ضلع خیبرسے منتخب ایم پی اے سہیل آفریدی نئے وزیراعلیٰ نامزدکئے گئے ہیں۔سہیل آفریدی کی تقریروں سے اندازہ لگایاجارہاہے کہ وہ طالبان کے حامی اورفوج مخالف ہیں۔اگر واقعی ایساہے تویہ صوبے کیلئے بدشگون ہے۔پی ٹی آئی کابیانیہ شدت پسندی کیساتھ نمٹنے کی بجائے مل کرچلنے کاہے اس پالیسی کیلئے سہیل آفریدی کوموزوں سمجھاگیا۔پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تین وزائے اعلیٰ پرویزخٹک،محمودخان اورعثمان بزدارپہلے ہی پارٹی سے راہیں جدا کرچکے ہیں اب چوتھے وزیراعلیٰ کوبھی رخصتی کاپروانہ تھمادیاگیاہے انہوں نے ابتدائی طورپرپارٹی کیساتھ جڑے رہنے کاعزم ظاہر کیاہے۔پی ٹی آئی کارکن علی امین گنداپورکی رخصتی پرمبارکبادکے پیغامات دے رہے ہیں پارٹی کے کسی راہنمایاذمہ دارفردکی جانب سے انکے ساتھ ہمدردی کے دوبول بھی سامنے نہیں آئے۔ سیاسی، سماجی اورصحافتی حلقوں کی اکثریت نے سہیل آفریدی کی نامزدگی کوپسندیدگی کی نظرسے نہیں دیکھا۔ خیبرپختونخوایک حساس صوبہ ہے اوراسکے معروضی حالات دیگرصوبوں سے خاصے مختلف ہیں یہاں نت نئے تجربات نقصان کاباعث بن سکتے ہیں۔پی ٹی آئی کونئے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہونی چاہئے۔سینیٹ انتخابا ت کے موقع پراپوزیشن کی جانب سے عدم اعتمادلانے کے دعوے کئے گئے تھے مگرسینیٹ انتخابات میں گنداپورنے ثابت کیاکہ ایم پی ایز انکے قابو میں ہیں اورکسی کوپھسلنے کی جرات نہیں۔پی ٹی آئی اوراپوزیشن اتحادکے درمیان 21ووٹوں کافرق ہے اورکہاجارہاہے کہ پی ٹی آئی کے20سے زائدایم پی ایز بیان حلفی جمع کرواچکے ہیں۔نظربظاہرنہیں لگتاکہ اپوزیشن یاوفاقی حکومت کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرینگے کیونکہ حکومت میں رہتے ہوئے پی ٹی آئی کی مقبولیت بتدریج کم ہورہی ہے علی امین گنڈاپورکی طرزحکمرانی سے اختلاف کرنیوالوں کاکہنا ہے کہ اس حکومت سے پی ٹی آئی کے ووٹ بنک پرخاصااثرپڑچکاہے اگرچہ اس کاکوئی مظہرتوسامنے نہیں آیاکیونکہ ابھی تک صوبے میں کوئی ضمنی انتخاب منعقدنہیں ہوا۔ضمنی بلدیاتی انتخابات 19اکتوبرکوہورہے ہیں مگران میں عوام اورامیدواردونوں کوئی دلچسپی ظاہرنہیں کررہے اسلئے ٹرن آؤٹ دس پندرہ تک رہنے کاقوی امکان ہے۔ نامزدوزیراعلیٰ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدرہیں حال ہی میں انہیں معاون خصوصی سے وزیرکادرجہ دیاگیاتھاانہوں نے اسمبلی میں فوج کے خلاف اورشدت پسندوں کی حمایت میں لمبی تقریرکی تھی۔ناقدین کاکہناہے کہ یہی تقریرانکے وزارت اعلیٰ تک پہنچنے کاذریعہ بنی کیونکہ بانی پی ٹی آئی فوج مخالف افرادکوشہہ دیتے ہیں۔صوبے کے سنجیدہ اورفہمیدہ حلقے اس تشویش میں مبتلاہیں کہ جب تجربہ کارگنڈاپورصوبے کی امن وامان کودرست نہ کرسکے توناتجربہ کاراورپروطالبان سہیل اآفریدی کیاکارنامہ انجام دے سکیں گے؟صوبے میں ایک سوچ یہ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ صوبے کے اختیارات اڈیالہ جیل اور لاہور منتقل ہوچکے ہیں۔اب یہاں کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے احکامات راولپنڈی سے لاہور کے راہنماجاری کرتے ہیں۔یہ بھی دیکھناہوگاکہ پی ٹی آئی اندرونی تقسیم کے باعث نیاوزیراعلیٰ منتخب کروانے میں کامیاب ہوگی یانہیں۔اگروفاق نے نئے وزیراعلیٰ کی راہوں میں کانٹے بچھانے کافیصلہ کیاتوعین ممکن ہے کہ انہیں وزیراعلیٰ بننے میں مشکلات کاسامناہو۔انکے وزیراعلیٰ بننے سے وفاق اورصوبے کے درمیان محاذآرائی میں اضافے کی توقع کی جارہی ہے۔علی امین گنڈاپورکوبھی اسی لئے وزارت اعلیٰ کاعہدہ دیاگیاتھاکہ ابتدامیں وہ بھی فوج اور وفاقی حکومت کے خلاف سخت روئیہ اپناتے تھے مگرآہستہ آہستہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کااحساس ہونے لگاتھا اسلئے وہ بانی کے احکامات نظر اندازکرنے لگے تھے۔ امیرمقام اورانکے بھائی اپوزیشن لیڈرڈاکٹرعباداللہ کی نظریں بھی وزارت اعلیٰ کی کرسی پرجمی ہوئی ہیں۔ماضی قریب میں یہ دونوں علی امین گنڈاپورکیخلاف تحریک عدم اعتمادلانے کے بیانات بھی دے چکے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صدرایمل ولی خان نے سینیٹ میں جوتقریرکی تھی اس پرن لیگ اوراے این پی کے درمیان محاذآرائی کی سی کیفیت پیداہوگئی تھی۔ن لیگ اوراے این پی کے درمیان اگرچہ باقاعدہ اتحادموجودنہیں مگراے این پی نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد اور 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں حکومت کاساتھ دیاتھا۔یعنی اگرچہ اتحادموجودنہیں مگرورکنگ ریلیشن شپ ضرورموجودہے۔ایمل ولی کی تقریرسے اس تعلق کودھچکامحسوس ہونے لگاتھامگروزیراعظم سے انکی ملاقات میں یہ معاملہ بخیروخوبی اختتام پذیرہوا۔وزیراعظم نے دورۂ امریکہ اوردیگرمعاملات پرپارلیمان کواعتمادمیں نہ لینے پراورایمل ولی خان نے فیلڈمارشل عاصم منیرکیخلاف بات کرنے پرمعذرت کی۔
تحریک انصاف کی خاتون راہنماصنم جاویدکوپشاورسے گرفتارکیاگیاہے مگرتاحال کسی ادارے نے انکی گرفتاری ظاہرنہیں کی ہے۔انہیں لاہور کی عدالت سے سزاہوچکی ہے مگروہ پشاورمیں روپوش تھیں۔انکے حوالے سے دعویٰ کیاگیاتھاکہ انہیں پشاورمیں ایک دعوت سے واپسی پرچندنامعلوم افرادنے اغواکیا۔تھانہ شرقی میں انکے اغواکی ایف آئی آربھی درج کروائی گئی ہے۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

خیبرپختونخوا میں ایک اور تجربہ

Shopping Basket