Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, October 19, 2025

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

وصال محمدخان

خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی 

ضم قبائلی ضلع خیبرسے تعلق رکھنے والے محمدسہیل آفریدی نے خیبرپختونخواکے32ویں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھالیاہے۔وہ صوبائی نشست پی کے70خیبر2سے 8فروری کے انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔اس سے قبل وہ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صوبائی صدر بھی رہ چکے ہیں۔سہیل آفریدی سے قبل علی امین گنڈاپور8اکتوبرکوبانی پی ٹی آئی کے حکم پرمستعفی ہوئے وہ مارچ2024ء کو وزیر اعلیٰ بنے تھے۔سہیل آفریدی مجموعی طورپرپی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صوبے کے چوتھے وزیر اعلیٰ ہیں۔ پرویزخٹک 2013ء اورمحمودخان2018میں وزیراعلیٰ بنے تھے یہ دونوں پارٹی سے راہیں جداکرچکے ہیں۔پرویزخٹک وزیراعظم شہبازشریف کے مشیرداخلہ ہیں جبکہ محمودخان پی ٹی آئی پی کے چیئرمین ہیں انکی پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں تین ارکان کی حمایت حاصل ہے۔خیبرپختونخواکی 145رکنی ایوان میں سادہ اکثریت کیلئے73ارکان کی حمایت درکارہے سہیل آفریدی نے 90ووٹ لئے وہ کسی قبائلی ضلع سے پہلے وزیراعلٰی ہیں اس سے قبل 31وزرائے اعلیٰ کاتعلق صوبے کے بندوبستی اضلاع سے تھاجن میں منتخب،غیرمنتخب اورنگران وزرائے اعلیٰ شامل ہیں۔2018ء انتخا با ت کے بعدگزشتہ سات سال میں یہ پانچویں وزیراعلیٰ ہیں 16اگست 2018ء کوحلف لینے والے محمودخان نے 18جنوری 2023ء کوقبل ازوقت اسمبلی توڑی توسنیئربیوروکریٹ اعظم خان نگران وزیراعلیٰ بن گئے۔اعظم خان 11نومبر2023ء کوانتقال کرگئے توانکی جگہ کابینہ کے رکن جسٹس ریٹائرڈارشدحسین نے وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالیں جوعلی امین گنڈاپورکے حلف لینے تک عہدے پر رہے۔خان عبدالقیوم خان بطوروزیراعلیٰ چھ سال(23اگست1947ء سے23اپریل1953)تک عہدے پرفائزرہے۔ انہیں سب سے زیادہ عرصے تک صوبے کے وزیراعلٰٰ رہنے کااعزازحاصل ہے۔خدائی خدمتگارباچاخان کے بڑے بھائی عبدلجبارخان المعروف ڈاکٹرخان صاحب قیام پاکستان سے قبل اوربعدمیں تین مرتبہ وزیراعلٰٰ بنے جبکہ آفتاب شیرپاؤدومرتبہ اس عہدے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ سردار بہادرخان اوراقبال جدون تین تین ماہ جبکہ پیرصابرشاہ چارماہ تک اس عہدہ جلیلہ پرفائزرہے۔جنرل (ر)فضل حق صوبے کے گورنر اوروزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں نبھانے والے منفردریکارڈکے حامل ہیں وہ ضیاء الحق دورمیں گورنراوربعدازاں نگران وزیراعلیٰ بھی رہے۔ سا بقہ فاٹا سے گورنرتوگزرے ہیں مگر وزیراعلیٰ پہلی بار سامنے آئے ہیں سہیل آفریدی نے منتخب ہونے کے بعداپنے پہلے خطا ب میں وفاق کیساتھ محاذآرائی بڑھانے کاعندیہ دیا اوردھمکی آمیززبان استعمال کرتے ہوئے کہاکہ ”میراقائدملٹری آپریشنز کیخلاف تھاتو ہم بھی اسکے خلاف ہیں،دہشتگردی کاحل آپریشنزنہیں،وفاقی حکومت کواس حوالے سے قبائلی مشران،عوام اورصوبائی حکومت کواعتمادمیں لینا ہوگا،9مئی کوریڈیوپاکستان کی عمارت جلانے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کااعلان کرتاہوں،یہ واقعہ تحریک انصاف کودباؤمیں لانے کیلئے کیاگیاتھا، وفاق کواپنی افغان پالیسی پرنظرثانی کرنی ہوگی، میں اپنے قائدکامشکورہوں جنہوں نے مجھ جیسے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کارکن کو وزیراعلیٰ بنوایا،میراکوئی بھائی یاخاندان کا فردسیاست میں نہیں اورنہ ہی میرے نام کیساتھ بھٹویازرداری کالاحقہ موجو د ہے،دیگر لو گ سیا ست کرتے ہیں جبکہ میں اپنے قائدسے عشق کرتاہوں،اندرون اوربیرون ملک کارکنوں کویقین دلاتاہوں کہ قائدکی رہائی کیلئے آج سے اقدامات لینے شروع کردئے ہیں،انکی رہائی کیلئے جواقدامات پہلے نہیں لئے گئے وہ میں لوں گا،اگرمیرے لیڈرکو مرضی کیخلاف کہیں او ر منتقل کیاگیاتومیں پورے پاکستان کوجام کردوں گا“سہیل آفریدی کی کابینہ ان سطورکی اشاعت تک سامنے نہیں آئی ان کاکہنا تھا کہ بانی سے ملاقات اورانکی اجازت کے بعدہی کابینہ تشکیل دینگے۔سوشل میڈیاپرزیرگردش مجوزہ کابینہ میں علی امین دورکے تین برطرف شدہ وزرا بھی شامل ہیں۔اسدقیصرکے بھائی عاقب اللہ اورشہرام ترکئی کے بھائی فیصل ترکئی کوگنڈاپورنے اپنے استعفے سے چندروزقبل ہی مستعفی ہو نے پرمجبورکیاتھاجبکہ ملاکنڈ سے شکیل خان کوسال بھرپہلے کرپشن کے الزامات پروزارت سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔اگریہ تینو ں نئی حکومت میں شامل ہوتے ہیں تو اس سے واضح ہوجائیگاکہ علی امین کوناقص کارکردگی،امن وامان یاملٹری آپریشنزنہ روکنے پرنہیں باہمی اختلا فا ت کے باعث عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ نئی حکومت کے سامنے امن وامان سمیت بیڈگورننس کا معاملہ بھی ہے۔ تحریک انصا ف کی گزشتہ حکومت وفاق کیساتھ محاذآرائی اوراحتجاجوں میں مصروف رہنے کے سبب گورننس پرتوجہ نہ دے سکی۔نئے وزیراعلیٰ نے جن عزائم کااظہارکیاہے ان پرکاربندرہنے کی صورت میں صوبے کامزیدنقصان ہوگا۔علی امین گنڈاپورصوبے کی عوام اورپارٹی کارکنوں میں غیرمقبول ہوگئے تھے اس لئے انکے استعفیٰ پرپارٹی کے اندریاباہرکہیں سے بھی کوئی آوازنہیں اٹھی۔ نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے پہلے صوبا ئی صدرجنیداکبر،اسدقیصراوردیگرقائدین نے سیاسی رواداری کامظاہرہ کرتے ہوئے اے این پی،جے یوآئی،ن لیگ اوردیگرجماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کیں اوران سے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں تعاون کی درخواست کی۔اے این پی نے کسی کاساتھ دینے کی بجائے نیوٹرل رہنے کی پالیسی اپنائی ایمل ولی خان کا کہناتھاکہ پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہے ہم کسی غیرجمہور ی عمل کاحصہ نہیں بنیں گے۔گورنرنے علی امین کے استعفے پرٹال مٹول کے ذریعے سسپنس پیداکرنیکی کوشش کی مگر وفاق اورصوبائی اپوزیشن کی عدم دلچسپی سے انہیں پیچھے ہٹناپڑا۔اپوزیشن جماعتوں کاخیال تھاکہ علی امین کی ناقص کارکردگی کے سبب پی ٹی آئی عوام میں غیرمقبول ہورہی ہے حکومت چھن جانے کی صورت میں اسے سیاسی شہیدبننے اورنئی لائف لائن ملنے کاامکان ہے۔

پاک افغان سرحد پر جھڑپوں کے بعد کشیدگی برقرار

افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پرحملوں کے جواب میں پاک فوج نے بھرپورجوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں نہ صرف افغان طالبان کاحملہ پسپاکردیاگیابلکہ جوابی حملوں میں ٹی ٹی پی اوردیگردہشتگردتنظیموں کے ٹھکانوں کوبھی نشانہ بنایاگیا۔ابتدائی جھڑ پوں اوربھرپورجواب کے بعدکرم کیساتھ ملحقہ سرحدپرایک بارپھرحملہ کیاگیاجسے پسپاکرنے کے بعدکابل اورقندہارمیں دہشتگردکیمپوں کو نشانہ بنایاگیا۔اس بھرپورحملے نے افغان طالبان کوجنگ بندی کی اپیلیں کرنے پرمجبورکردیا۔نئے وزیراعلیٰ نے وفاق کی افغان پالیسی کو تنقیدکانشانہ بنایاہے بانی پی ٹی آئی نے بھی پے رول پررہائی کی صورت میں معاملہ حل کرنے کابیان جاری کیاہے مگرجب اس معاملے میں امریکہ،چین، روس،ترکی اورایران کی کوششیں بارآورثابت نہ ہوسکیں توپی ٹی آئی قیادت یاوزیراعلیٰ کیاکرداراداکرسکتے ہیں؟ طالبان رجیم کی درخواست پر بدھ کی شام چھ بجے سے 48گھنٹے کیلئے عارضی جنگ بندی عمل میں آئی ہے۔افغان عبوری حکومت کوذمہ داری کامظاہرہ کرناہوگاتاکہ خطے میں امن اوراستحکام ہواورعوام کوسکون کاسانس نصیب ہو۔پاک فوج نے نہ صرف افغانستان کے اندربلکہ خیبر پختو نخوا میں بھی دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈکارروائیاں کی ہیں جن کے نتیجے میں درجنوں شدت پسندہلاک کئے جاچکے ہیں۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

Shopping Basket