Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Tuesday, December 2, 2025

خیبرپختونخوامیں گورنرراج

وصال محمدخان
خیبرپختونخوامیں ایک بارپھرگورنرراج لگنے کی خبریں زوروں پرہیں اوراس باریہ خبریں اسلئے بھی سچ لگ رہی ہیں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ان خبروں کی تردیدنہیں کی جارہی۔ان خبروں کومہمیزکن باتوں سے ملی؟کیاگورراج لگنے کی خبریں قرین قیاس ہیں یابعیدازقیاس۔ اور گورنر راج لگنے کے بعدکیاصوبے کے مسائل حل ہوجائینگے؟ان باتوں کاسرسری سا جائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ ماضی میں جوگورنر راج نافذہوئے ہیں اس وقت اسکی نفاذکیلئے ایک توحالات سازگارنہیں تھے دوسرے یہ گورنرراج سیاسی مخالفت کی بنیادپرلگے مگرآج اگر خیبرپختونخوامیں گورنرراج لگتاہے تواس کی بنیادنہ ہی سیاسی ہوگی اورنہ ہی سیاسی مخالفت کی بنیادپرگورنرراج جیساانتہائی قدم لیاجائیگابلکہ آج صوبے میں امن وامان کی جوحالت ہے،گورننس نام کی کوئی چیزموجودنہیں،وزیراعلیٰ کابیشتروقت اسلام آبادیااڈیالہ جیل یاتراؤں میں گزررہاہے صوبے میں روزانہ کے حساب سے پانچ سات دہشتگردی کے چھوٹے بڑے واقعات رونماہورہے ہیں جن میں سویلین اور باوردی اہلکارشہیدہورہے ہیں،دارالحکومت میں صوبائی اسمبلی، وزیر اعلیٰ ہاؤس،گورنرہاؤس،ہائیکورٹ،سینٹرل جیل اوردیگرحساس مقامات کے ایک کلومیٹرفاصلے کے اندرایف سی ہیڈکوارٹرپرحملہ ہورہاہے جس میں اگردہشتگردخدانخواستہ اپنے مذموم مقصدمیں کامیاب ہوجاتے تو ایک بڑاسانحہ رونماہوسکتاتھاافغانستان کیساتھ سرحدپرکشیدگی انتہاؤں کوچھورہی ہے مگران مخدوش حالات کے باوجودصوبے کے وزیراعلیٰ یا تواڈیالہ جیل کے باہرخوارہورہے ہیں یاپھروہ اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے دست سوال درازکئے ہوئے ہیں تا کہ انکی محبوب راہنماکیساتھ ملاقات ہو۔ان بدترین حالات میں اگروفاق کی جانب سے گورنرراج کافیصلہ سامنے آتاہے تواسکی مزاحمت کے امکانات نہ ہونے کے برابرہیں بلکہ عوامی،سیاسی اورسماجی حلقوں میں اس اقدام کو سراہا جائیگا۔اس سے قبل پرویزخٹک، محمودخان اورعلی امین گنڈاپورنے اسلام آبادپرچڑھائی کی کوششیں کی تھی،یہ حکومتیں وفاق کیساتھ محاذآرائی اورسینگ آزمائی میں مشغول رہیں ان صوبائی حکومتوں نے وفاقی حکومت گرانے کیلئے سرتوڑکوششیں کیں مگران بدترین حالات میں بھی ان حکومتوں کوہٹاکرگورنرراج کے بارے میں نہیں سوچاگیا۔ کیونکہ گورنرراج کوجمہوریت کخلاف اقدام سمجھاجاتاہے اورکسی وفاقی حکومت نے جمہوریت پرشب خون مارنے کا الزام اپنے سرلینے کا حوصلہ پیدانہیں کیا۔حالانکہ گورنرراج آئینی تقاضاہے اورآئین اسکی اجازت دیتاہے۔سہیل آفریدی کی حکومت کوبھی مستحکم ہونے اوراپنی ذمے داریاں پہچاننے اوراداکرنے کاپوراپوراموقع فراہم کیاگیا۔انہوں نے تین ہفتے تک کابینہ کے بغیر تن تنہاصوبہ چلایا جوبذات خود آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے کیونکہ آئین کیمطابق وزیراعلیٰ کاکوئی بھی فیصلہ کابینہ کی منظوری سے مشروط ہے مگرایک طویل عرصے تک صوبے کابینہ کے بغیرچلایاگیاجوشائدمختصرپاکستانی سیاسی اورپارلیمانی تاریخ کاانوکھاواقعہ ہے۔اس وقت بھی گورنرراج کیلئے راستہ ہموار تھامگروفاقی حکومت نے صبروتحمل اورذمہ داری کامظاہرہ کیا۔سہیل آفریدی ڈیڑھ ماہ سے وزیراعلیٰ ہیں اس دوران انہوں نے کسی بھی موقع پر ذمہ داری کامظاہرہ نہیں کیا۔افغانستان کیساتھ شدیدجھڑپ اوروہاں سے ہونیوالے علی لاعلان حملے پربھی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے اپنی ہی ریاست کیخلاف بیانات آتے رہے۔پشاورہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کوسرکاری وسائل سیاسی مقاصدکیلئے استعما ل کرنے سے منع کیامگراسکے باوجودیہ سلسلہ جاری ہے۔اگروزیراعلیٰ اڈیالہ جیل کے باہردھرنے میں رات گزارتے ہیں اورانکے پاس پروٹوکول،سرکاری عملہ اوردیگرسرکاری وسائل موجودہوتے ہیں تویہ صوبے کے قومی وسائل سیاسی مقاصدکیلئے استعمال کی بدترین مثال ہے۔ مگران سب کے باوجودپی ٹی آئی قائدین یاحکمرانوں کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی اورقومی وسائل کی یوں بربادی اپناآئینی حق سمجھا جاتا ہے۔ریاست پاکستان کی جانب سے طالبان رجیم کیساتھ تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بہتیری کوششیں کی گئیں مگرطالبان رجیم نہ ہی تومذاکرات کے اسلوب سے واقف ہے اورنہ ہی وہ بہترہمسائیگی کاطرزعمل اپنانے میں سنجیدہ ہے بلکہ اب توافغانستان سے دیگر ہمسایہ ممالک تاجکستان اورچین پربھی حملے کئے گئے ہیں اگرطالبان رجیم اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں یہی وطیرہ اپنائے رکھتاہے تو پاکستان کومجبوراًانکے خلاف کارروائی کرنی پڑیگی۔مگرافغانستان کیساتھ سرحدپرجوصوبائی حکومت ہے اسکے اکابرین پاکستانی ریاستی مؤقف کے خلاف سرگرم ہیں اگراس صوبائی حکومت کایہی وطیرہ رہتاہے اوراس دوران افغانستان کیساتھ کوئی باقاعدہ جنگ چھڑتی ہے توریاست مجبورہوگی کہ وہ خیبرپختونخوامیں گورنرراج لگاکرریاست کے اندر سے دشمن کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کوخاموش کروائے۔ عام خیال یہی ہے کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخواکی صوبائی حکومت کوبھرپورموقع فراہم کرناچاہتی ہے تاکہ وہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کرے مگر گزشتہ سال سے وجودمیں آنیوالی اس حکومت نے تاحال ذمہ داری کامظاہرہ نہیں کیاعلی امین گنڈاپور کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اسکے باوجودوہ ہمہ وقت اسلام آبادپرچڑھائی کیلئے تیاررہتے تھے جبکہ اب توسہیل آفریدی کی ملاقات بھی نہیں ہورہی جس کے ردعمل میں وہ بھی پرتشدداحتجاج کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اس دوران وہ کئی بارقانونی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے مگرابھی تک تومقتدرہ اوروفاقی حکومت یاریاست صبروتحمل کامظاہرہ کررہے ہیں مگرجب بھی اس صبرکاپیمانہ لبریزہواتوکوئی بعیدنہیں کہ آج گردش میں رہنے والی گورنرراج کی خبریں عملی صورت اختیارکرلیں۔گورنرراج کیلئے موجودہ گورنرفیصل کریم کنڈی کوموزوں نہیں سمجھاجارہااسلئے جب بھی گورنر راج لگنے کاارادہ ہوتوانکی تبدیلی بھی ہوگی زیرگردش ناموں میں جن سیاسی شخصیات کے اسمائے گرامی شامل ہیں ان میں امیرحیدرہوتی، آفتاب احمدشیرپاؤ،پرویزخٹک اورامیرمقام کے نام قابل ذکرہیں۔حیدرہوتی کے بارے میں وثوق سے کہاجاسکتاہے کہ وہ یہ منصب قبول کرنے سے انکارکردینگے جبکہ جن ریٹائرڈفوجی افسران کے نام گورنرکیلئے گردش میں ہیں ان میں سے کسی ایک نام پراتفاق ممکن ہے۔ بہترہوگاکہ صوبائی حکومت اوروزیراعلیٰ اپنے طرزعمل پرنظرثانی کریں صوبے کے سلگتے ہوئے مسائل پرتوجہ دیں،کرپشن کے راستے مسدود کریں اورعوام نے جس مقصدکیلئے مینڈیٹ دیاہے اس کی لاج رکھی جائے تاکہ خیبرپختونخوامیں گورنرراج کی جوخبریں زبان زدعام ہیں یہ محض افواہیں ثابت ہوں اورصوبے کو گورنرراج جیسے تکلیف دہ مرحلے سے نہ گزرناپڑے۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

خیبرپختونخوامیں گورنرراج

Shopping Basket