وصال محمد خان
نئے پارلیمانی سال کے آغازپرصدرمملکت کاسینیٹ اورقومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب پارلیمانی روایت ہے۔یہ روایت گزشتہ چارعشروں سے چلی آرہی ہے ۔غلام اسحاق خان نے جب بے نظیرحکومت کوآٹھویں ترمیم کے تحت رخصت کیاتوانکے خطاب پرپیپلزپارٹی کے ارکان نے گلاپھاڑکر گوباباگوکے نعرے لگائے ،ایوان میں شورشراباکیا،ہنگامہ آرائی کی اورواک آؤٹ کرکے باہرچلے گئے۔وہیں سے یہ روایت پڑگئی کہ جب بھی صدرمملکت پارلیمانی سال کے آغازپرخطاب کرتے ہیں تواپوزیشن شورشراباکرتی ہے اورایوان مچھلی منڈی میں تبدیل ہوجاتاہے ۔حال ہی میں پاکستان کی نئی پارلیمنٹ معرض وجودمیں آئی ہے8فروری کوپورے ملک میں عام انتخابات کاانعقادہوا۔ وزیراعظم اورچاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ نے اپنی ذمہ داریوں کے حلف لئے اورصدرمملکت کاانتخاب ہوا۔سابقہ روایات کے مطابق صدر مملکت نے جمعرات 18 اپریل کوپارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس بلاکراس سے خطاب کیا۔خطاب کے دوران اپوزیشن ارکان نے ہنگامہ آرائی کی اورشورشرا باکیاجس سے ایوان مچھلی یاسبزی منڈی کامنظرپیش کرنے لگا۔صدرمملکت کے خطاب پر احتجاج ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں مگران میں کچھ لحاظ رکھاجاتاتھا ۔جب سے تحریک انصاف سنی اتحادکونسل کی روپ میں اپوزیشن جماعت بنی ہے تب سے ہراجلاس کومچھلی منڈی میں تبدیل کرنے اورشوراشرابے سے ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی ایک مستقل روایت بنادی گئی ہے ۔پہلے احتجاج یاشورشرا بامخصوص مواقع پرمختصروقت کیلئے ہوتاتھامگراب ہراجلاس میں ،ہرموقع پر،ہرلمحے احتجاج ہی ہوتاہے اگرکہاجائے کہ ایوان میں کوئی کارروائی ہونیکی بجائے صرف احتجاج ہی ہوتاہے توغلط نہیں ہوگا۔سنی اتحادکونسل کے ارکان نے ہرموقع پرایوان کے اندرشورشرابے اور احتجاج کایہ جو وطیرہ اپنارکھاہے یہ کسی طورجمہوری روایات کے مطابق نہیں۔ کسی سیاسی پارٹی کیلئے اپوزیشن میں ہونے کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ وہ ایوان میں شور شراباہی کرے حتیٰ کہ فلسطین کے حق میں پیش ہونے والی قراردادکے وقت بھی شوروغوغابرپاہوجوکسی حکومت یاسیاسی جماعت کانہیں پوری امت مسلمہ کامسئلہ نمبرایک ہے۔ احتجاج اوراحتجاج کے نام پرایوان کومچھلی منڈی بناناکسی طوراحسن قرارنہیں دیاجا سکتا۔عوام نے حکو مت یااپوزیشن کوووٹ دیکراسمبلی بھیجاہے تاکہ وہ انکے مسائل حل کرسکے ،ملک کوبہترین انداز میں چلانے کے طریقے وضع کرسکے، قانون سازی کرسکے اورملک کودرپیش مسائل کاحل نکالاجاسکے ۔مگریہاں تواپوزیشن کامقصدمحض ہنگامہ آرائی شورشرابااورگلاپھاڑکرچلاناسمجھ لیاگیا ہے جوایک نارواطرزعمل ہے۔ عوام کی منتخب کردہ اس پارلیمنٹ پرمعاشی بحران میں مبتلاملک کی خطیررقم خرچ ہوتی ہے ۔سینیٹ اور قومی اس مبلی کے ارکان تنخواہوں اورمراعات کی مدمیں کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں اورتاحال اپوزیشن کے کسی رکن کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے نہیں آیاکہ اس کااچھاخاصاگزاراچل رہاہے ،وہ کروڑپتی اورارب پتی ہے ،جاگیروں اورکارخانوں کامالک ہے اورملک معاشی بحرا ن میں مبتلاہے ،مہنگائی نے عوام کاجینادوبھرکررکھاہے ،عوام کودووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ،عام آدمی کی نوے فیصدآمدن خوراک پرخرچ ہوجاتی ہے، اس عالم میں یہ رکن اپنی تنخواہ سے دستبردارہورہاہے یااپنی تنخواہ کسی خیراتی ادارے یاشوکت خانم ہسپتال کیلئے وقف کررہاہے۔ ایسابالکل نہیں۔ بلکہ کروڑوں روپے کی تنخواہیں اورمراعات دھڑلے سے وصول کی جارہی ہیں مگرجب کام کاوقت آتاہے تویہ شورشرابے کی نذرہوجاتاہے ۔اگران ارکان نے پارلیمنٹ کی کوئی کارروائی چلنے نہیں دینی توعقل کاتقاضا ہے کہ یہ اپنی تنخواہوں سے دستبردارہوکر کہیں کہ ہمارامینڈیٹ چرایاگیاہے جس کے ردعمل میں ہم ایوان کی کارروائی چلنے نہیں دینگے اورجب ایوان کی کارروائی نہیں چلے گی توتنخواہ کس بات کی ؟اورمراعات کس خوشی میں؟ایمانداری کے ٹرینڈزچلانے والے اورریاست مدینہ ثانی بنانے کے دعویدار معاشی تباہ حالی سے دوچار ملک پررحم کریں۔احتجاج ہی کرنااورکرتے رہناہے تواس کیلئے کوئی لائحہ عمل مرتب کیاجا ئے تاکہ پارلیمانی اموربھی متاثر نہ ہوں اوراحتجاج بھی ریکارڈہو۔صدرمملکت نے اپنے خطاب میں اہم نکات کی طرف اشارہ کیاہے ان کے خطاب میں کوئی بات قابل اعتراض نہیں انہوں نے قومی مفاہمت کاپیغام دیا،ملکی اوربین الاقوامی حالات کے پیش نظرمل بیٹھ کرباہمی مشاورت سے مسائل کاحل نکالنے کی ترغیب دی ان کاکہنابجاہے کہ ہمارے پاس وقت کم اورمقابلہ سخت ہے زمانہ بہت تیزی سے آگے نکل رہاہے ہم ابھی تک اقتدار کی لڑائیوں اورایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں جمہوریت کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ احتجاج ہی کرتے رہیں بیانئے بنانے اورملک چلانے میں فرق ہوتاہے ۔ صدرمملکت نے قومی مفاہمت کاجوپیغام دیاہے اس پرعمل درآمدکی ضرورت ہے انکے خیالات لائق ستائش ہیں ہم نے سیاست بازیوں اورمقبول بیانیوں کوایک طرف رکھ کرملک کومعاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے ایک ہوناہے سیاست میں اختلاف ازل سے تاابدجاری رہنے والامعاملہ ہے مگرملک نے بھی توآگے چلناہے اب ساراملک اسلئے سانس روک کر کھڑاہوجائے کہ تحریک انصاف کاعظیم راہنماقومی اداروں اوراملاک پرحملوں ،توشہ خانہ تحائف کی تجارت اورعدت کے دوران نکاح کیسزمیں قیدہیں اور تحریک انصاف کی 80 نہیں بلکہ 180نشستیں ہیں اسلئے پارلیمان یا ملک کوچلنے نہیں دیاجائے گا۔ہنگامہ آرائی کا نارواطرزعمل جگ ہنسائی کاباعث بھی بن رہاہے ۔ چیئرمین گوہرخان نے فخریہ اندازمیں کہاکہ ہم نے صدرکاخطاب مکمل نہیں ہونے دیا۔ صدراپنے خطاب میں کوئی مغلظات نہیں بک رہے تھے ،کسی کوبازاری القابات سے نوازنہیں رہے تھے ،کسی کی نقلیں نہیں اتار رہے تھے بلکہ مسائل کاحل نکال نے کیلئے اتحادویکجہتی کاپیغام دے رہے تھے۔ اس اہم خطاب کے وقت باجے اورسیٹیاں بجانااورگلاپھاڑکرچیخناچلاناقابل فخرنہیں باعث ندامت ہوناچاہئے ۔پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے باجے اورسیٹیاں بجاتے وقت صدرزرداری کی معنی خیزمسکراہٹ سے یہی نتیجہ اخذکیا گیاکہ‘‘ جمہوریت کاکمال دیکھیں باجے بجانے والے بھی پارلیمنٹ کے ممبربن گئے ’’۔ صدرمملکت کاپارلیمنٹ سے خطاب جامع ، مدلل اور بروقت تھاجس پر عمل درآمدوقت کی ضرورت ہے۔