افغانستان، امریکہ اور پاکستان

نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیگر کئی ممالک سمیت افغانستان کو دی جانے والی امداد بھی بند کر دی ہے۔ جس سے افغان عبوری حکومت معاشی مشکلات کا شکار ہونے لگی ہے۔ اگست 2021ء میں امریکہ کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں طالبان برسرِ اقتدار آئے ہیں۔ اس دوران طالبان کا حامی ایک طبقہ یہ ڈھنڈورا پیٹتا رہا ہے کہ طالبان کی پالیسیوں سے وہاں نہ صرف امن بحال ہوا ہے بلکہ افغانستان معاشی طور پر بھی مستحکم ہوا ہے اور وہاں مہنگائی کا نام و نشان نہیں۔ مگر اب امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں طالبان کو تین ارب ڈالرز کی امداد دی گئی ہے اور یہ امداد اس معاہدے کے نتیجے میں دی جا چکی ہے جس کے تحت امریکہ افغانستان کو طالبان کے حوالے کر کے واپس جا چکا ہے۔ افغانستان کو دی جانے والی امداد سے ظاہر ہے کہ امریکہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے مگر افغان طالبان کا کردار اس حوالے سے مایوس کن ہے۔ ان کے ہاتھ لگنے والا امریکی اسلحہ ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دھڑلے سے استعمال ہو رہی ہے، افغان طالبان ساڑھے تین سالہ دور میں اقتدار منتقلی کی بجائے مستقلی کے لیے کوشاں رہے اور افغانستان میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال یا خواتین کی تعلیم پر پابندی جیسے معاملات طالبان-امریکہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

امریکہ کا چھوڑا ہوا اسلحہ چاہے وہ اشرف غنی اور حامد کرزئی کی افغان آرمی کو دیا گیا تھا، امریکی فوج نے جاتے وقت افغانستان کے مختلف علاقوں میں چھپا کر رکھا تھا یا امریکی فوجیوں سے چھینا گیا تھا، اس اسلحے کا بیشتر حصہ اب غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ افغان آرمی جس کی تعداد چار لاکھ کے لگ بھگ بتائی جا رہی تھی، امریکہ کے نکلتے ہی یہ آرمی تتر بتر ہو گئی۔ کچھ کو طالبان نے گرفتار کیا، باقی ناک کی سیدھ میں بھاگ کر کہیں نہ کہیں پناہ گزیں ہو گئے۔ اگر چار لاکھ افغان آرمی کے ہر فوجی کے پاس ایک ایک گن بھی تصور کیا جائے تو چار لاکھ جدید امریکی گنز اب کہاں ہیں اور کس کے قبضے میں ہیں؟ فوجیوں نے یا تو طالبان کے ہاتھ پر بیعت کر لی یا پھر “شرافت کی زندگی” گزارنے کا عہد کر لیا مگر ان کا اسلحہ کس کے ہاتھ لگا ہے یہ افغان حکومت اور امریکہ سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں۔

امریکہ نے افغانستان میں اسلحے کے جو انبار چھوڑے تھے، مبینہ طور پر یہ اسلحہ مشرقِ وسطیٰ سمیت پورے ایشیا میں پھیل چکا ہے جن میں ایران، بھارت، ترکی، روس اور دیگر کئی ممالک کی حکومتیں اس کی خریدار رہی ہیں مگر ان میں بہت سا اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ بھی لگا ہے جو اس جدید اسلحے سے پاکستان میں سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملے کر رہے ہیں۔ بنوں، لکی مروت اور ڈی آئی خان میں پولیس پر کیے گئے بعض حملے ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے سے کیے گئے، تاریکی میں اپنے ہدف پر وار کرنے والا اسلحہ بھی اس میں شامل ہے۔ امریکی اسلحہ افغانستان میں کوڑیوں کے مول بک چکا ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے کہ جس اسلحے کے بل بوتے پر وہ دنیا کا واحد سپر پاور ہے، وہی اسلحہ اب افغانستان کے گلی کوچوں میں باآسانی دستیاب ہے جہاں خریدار کے لیے واحد معیار پیسہ ہے۔

امریکہ جو بزعمِ خود دنیا میں اسلحے کے عدم پھیلاؤ کا سب سے بڑا چیمپیئن ہے، اس کے اسلحے کا حال یہ ہے کہ یہ افغانستان کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے جہاں سے دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیمیں اسے خرید کر دنیا میں پھیلا رہی ہیں یا پھیلا چکی ہیں۔ امریکہ نے افغانستان سے جاتے وقت یہ ذمہ داری طالبان کے سپرد کی تھی کہ وہ یہ اسلحہ غلط ہاتھوں میں جانے نہیں دیں گے مگر افغان طالبان نے اس سلسلے میں اپنے فرائض پورے نہیں کیے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان آئے روز دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن رہا ہے مگر پاکستان نے جب بھی افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کی تو افغان طالبان نے ہمیشہ یہی مشورہ دیا ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے مسائل خود حل کرے۔

افغان عبوری حکومت کی خواہش پر پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات بھی کیے مگر ٹی ٹی پی کے نامعقول مطالبات تسلیم کرنا اس کے سامنے سرنڈر کے مترادف ہوگا۔ جبکہ پاکستان ان مٹھی بھر شرپسند عناصر کی سرکوبی کے لیے پرعزم ہے۔ اگر افغان طالبان ان کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیں تو یہ پاکستان پر حملہ کرنے کی صلاحیت کھو دیں گے۔ اب امریکہ نے بھی اپنے اسلحے اور طالبان کے ہاں موجود امریکی یرغمالیوں کے معاملے پر افغانستان کو ہر ہفتے لاکھوں ڈالرز کی ادائیگی بند کر دی ہے جس سے افغانستان میں مہنگائی بھی محسوس ہونے لگی ہے اور افغان کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ جس سے طالبان پالیسیوں کے حامی بھی گنگ ہو چکے ہیں اور نقد امریکی رقم کے سہارے چلنے والی معیشت کو بھی دھچکا لگا ہے۔

امریکہ نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ وہ افغان قیادت کے سروں کی قیمت بھی مقرر کر سکتی ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے سروں کی قیمت مقرر کی گئی تھی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ طالبان قیادت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ افغان طالبان برسرِ اقتدار تو آئے ہیں مگر اب ملک کو سنبھالنا شاید ان کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ انہیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ساری دنیا سے پنگے لے کر، دشمنیاں اور عداوتیں پال کر افغانستان یا اس کے عوام کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے۔

افغان قیادت اگر ملک کو دنیا میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر شناخت دینے کے خواہاں ہوں تو انہیں امریکی اسلحہ اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ فتنہ الخوارج کو پناہ دینے اور اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا سلسلہ بھی بند کرنا ہوگا۔ آپ خود بین الاقوامی معاہدوں کا احترام اور پاسداری کریں گے تو دوسروں سے بھی یہی توقع کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ افغان قیادت کو دانش و تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ اور پاکستان کے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔ ان دونوں ممالک کے ساتھ افغانستان کے ان گنت مفادات وابستہ ہیں جنہیں موجودہ غلط پالیسیوں سے زک پہنچنے کا قوی خدشہ ہے۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket