القادر ٹرسٹ یا 190 ملین پاؤنڈز کیس میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو بالترتیب چودہ اور سات سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ مقدمے کا فیصلہ آنے سے قبل اور بعد میں اس پر ہزارہا تبصرے ہو چکے ہیں، بہت کچھ کہا، سنا اور لکھا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہنے کا قوی امکان ہے۔ اس کیس سے اب معمولی شعور رکھنے والا پاکستانی بھی آگاہ ہو چکا ہے کہ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے حکومت پاکستان سے کہا کہ آپ کے ملک سے منی لانڈرنگ کے ذریعے کچھ رقم برطانیہ منتقل ہو چکی ہے، اگر حکومت پاکستان برطانیہ میں مقدمہ دائر کرے تو یہ ساری رقم اسے مل سکتی ہے، بصورت دیگر پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کا بیٹا 500 میں سے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم بلا حیل و حجت ادا کرنے پر تیار ہے۔ جس پر اس وقت کی حکومت نے 190 ملین کی رقم قبول کی۔
یہ رقم چونکہ ریاست پاکستان کی ملکیت تھی اس لیے برطانوی ایجنسی نے حکومت پاکستان سے رقم منتقلی کے لیے اکاؤنٹ طلب کیا۔ حکومت پاکستان نے اسٹیٹ بینک یا اپنا کوئی آفیشل اکاؤنٹ دینے کی بجائے سپریم کورٹ رجسٹرار کا وہ اکاؤنٹ دیا جس میں ملک ریاض پر سپریم کورٹ سے لگنے والے 460 ارب روپے جرمانے کی رقم جمع ہونی تھی، یعنی برطانیہ سے حکومت پاکستان کو منتقل شدہ رقم سے پراپرٹی ٹائیکون کا جرمانہ ادا ہوا۔ اسی دوران القادر یونیورسٹی یا ٹرسٹ کی 458 کنال زمین زلفی بخاری کے نام منتقل ہوئی، بعدازاں اس کا انتقال القادر ٹرسٹ کے نام ہوا جس کے ٹرسٹی عمران خان اور بشریٰ بی بی تھے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق اسی دوران حکومت نے ٹرسٹ رجسٹریشن کے لیے نیا قانون بنایا جس کے تحت تمام ٹرسٹس کی رجسٹریشن لازمی تھی مگر اسی قانون کے تحت القادر ٹرسٹ کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا، اس لیے پراپرٹی ٹائیکون کی جانب سے ٹرسٹ کے لیے دی گئی اراضی کے مالکان عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بنے۔ القادر ٹرسٹ کے حوالے سے نیب عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے، اسے تحریک انصاف قائدین بلا سوچے سمجھے تنقید کا نشانہ بنا کر انصاف کا قتل قرار دے رہے ہیں۔ فیصلے سے قبل ان رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں کچھ بھی نہیں اور اس کا فیصلہ عمران خان کے حق میں آئے گا۔ مگر فیصلہ خلاف آنے پر ان کا کہنا ہے کہ جج نے ناانصافی کی اور اس میں فوج کا ہاتھ ہے۔
پی ٹی آئی کی روایت رہی ہے کہ کوئی فیصلہ حق میں آنے پر چھوٹے بڑے قائدین اور کارکن ‘‘حق اور سچ کی فتح ہوئی ہے’’ کا راگ الاپتے ہیں مگر کوئی فیصلہ خلاف آنے پر ججوں، عدالتوں، حکومت اور فوج پر تنقید کے تیر برسانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ درحقیقت تحریک انصاف قیادت میں سیاسی معاملہ فہمی کا فقدان واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے اپنے خلاف کسی بھی فیصلے کو متنازعہ بنانے اور اسے انصاف کا قتل قرار دلانے کی ناروا روش اپنائی ہوئی ہے۔ حالیہ کیس میں استغاثہ کی جانب سے جو شواہد اور ثبوت پیش کیے گئے، ان کی استرداد کے لیے ثبوت پیش کرنے یا صفائی دینے کی بجائے جج کی کریڈیبلٹی پر سوال اٹھاؤ، فیصلے کو حکومت کی انتقامی کارروائی سے تعبیر کرو اور اسے فوج کے خلاف سوشل میڈیا ٹرولنگ کے لیے استعمال کرو والی روش اپنائی گئی ہے۔
تنقید تو فیصلے کے میرٹ پر ہونی چاہیے، اٹھائے گئے نکات پر بحث ہو، فیصلے کے جزیات پر روشنی ڈالی جائے یا کیس کی بنیادی باتوں کی وضاحت، مگر معقول طرز عمل اپنانے کی بجائے غیر متعلقہ افراد کو تنقید کا نشانہ بنانا، ہر بات کو فوج کے سر ڈال دینا اور عدلیہ کو تضحیک و تشنیع کا نشانہ بنانا نہ ہی تو معقول طرز عمل قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ سیاسی یا جمہوری رویے ہیں۔ کبھی غیر ضروری طور پر اسلامی ٹچ دیا جاتا ہے، کبھی کسی کو فرشتہ ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش ہوتی ہے تو کبھی فوج کو بلاوجہ فیصلے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہونا قدرتی امر ہے کہ کیا عمران خان کو فوج نے کہا تھا کہ برطانیہ سے آنے والی رقم پراپرٹی ٹائیکون کے اکاؤنٹ میں ڈال دو؟ کیا فوج نے انہیں مجبور کیا تھا کہ رقم کسی دیگر فرد کے اکاؤنٹ میں منتقل کر کے اس سے اپنے نام پر رجسٹرڈ ٹرسٹ کے لیے 458 کنال زمین الاٹ کرواؤ؟ ہوش و حواس سے محرومی کا یہ کون سا عالم تھا کہ انہیں پتا ہی نہیں چلا اور زمین ان کے نام منتقل ہوئی اور رقم بھی ملکی اکاؤنٹ کی بجائے کسی کے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی؟ بھاری رقم منتقلی کے بعد مہاتما کے نام 9 ہزار مرلے زمین منتقل کی گئی۔
یہ امر باعث تعجب ہے کہ یہ لوگ لوٹ مار خود کرتے ہیں، قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر یہ لوٹتے ہیں اور جب ان کے خلاف عدالت کوئی فیصلہ دے تو الزام فوج کے سر تھوپ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ زیر بحث کیس میں عمران خان کو کس بنیاد پر بری کیا جا سکتا ہے یا انہیں اس تمام قضیے سے کیسے مکھن سے بال کی طرح باہر کیا جا سکتا ہے؟ معمولی سا فہم و شعور رکھنے والا فرد بھی سمجھتا ہے کہ اس کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ نہ صرف بدعنوانی کے مرتکب ہوئے، بلکہ انہوں نے برطانوی کرائم ایجنسی کو بھی دھوکہ دیا ہے جو اب پاکستان کے ساتھ مزید کسی تعاون سے گریزاں ہے۔
وفاقی کابینہ سے بند لفافے کی منظوری بھی ملکی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے اور اس مقصد کے لیے غیر محسوس طور پر فوج کا نام استعمال کرنا کہ ‘‘لفافہ دفاع سے متعلق ہے’’ اس لیے تفصیل میں جائے بغیر اس کی منظوری دی جائے۔ اس کیس میں بے شمار غیر قانونی امور انجام دیے گئے۔ مناسب یہ ہو گا کہ کابینہ کو غلط مقصد کے استعمال پر ذمہ داروں کا تعین ہو اور انہیں قرار واقعی سزا ہو۔ اس طرح تو کوئی بھی وزیراعظم ملک یا ایٹمی اثاثوں کا سودا کر کے کابینہ سے بند لفافے کی منظوری لے لے گا۔ دانشمندانہ طرز عمل یہ ہو گا کہ تحریک انصاف سطحی بیانات کی بجائے کیس کے میرٹ پر بات کریں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو اپیل کے لیے ہائیکورٹ کا قانونی فورم موجود ہے، اسے بروئے کار لایا جائے۔ القادر ٹرسٹ کیس کے حالیہ فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اختیارات کے ناجائز استعمال، کرپشن اور بدعنوانی کا شاخسانہ ہے۔ اسے سیاسی رنگ دینا یا اس کا تعلق فوج سے جوڑنا منافقت اور دوغلے پن کی انتہا شمار ہو گی۔
وصال محمد خان