خیبرپختونخوا پولیس ایکٹ 2017ء میں ترمیم

موجودہ متمدن دنیامیں پولیس امن عامہ اورشہریوں کی جان ومال کے تحفظ کیلئے ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ پاکستان کے تمام صوبوں اوروفاق میں پولیس فورس موجودہے اور ہرصوبہ اس سے اپنی استطاعت کے مطابق کام لیتاہے ۔دیگر صوبوں کی طرح خیبرپختونخوامیں بھی پولیس سے عوام کوان گنت شکایات رہتی ہیں جن کے ازالے کیلئے یہاں پبلک سیفٹی کمیشن موجودتھاجسے ختم کرکے پبلک کمپلینٹ اتھارٹی کاقیام عمل میں لایاگیاہے جس پر حسب معمول حکومتی حلقے شاداں وفرحاں نظر آ رہے ہیں جیسے انہوں نے ہمالیہ سرکیاہو جبکہ اپوزیشن حلقے اور پولیس کے بیشترسابقہ وموجودہ افسران اسے سات سال میں کھڑے کئے گئے ڈھانچے کیساتھ چھیڑچھاڑقراردے رہے ہیں۔

ایک سینئرصحافی کی رپورٹ کے مطابق 60 فیصد پولیس افسران اس نئی قانون سازی سے نالاں ہیں جبکہ کچھ ریٹائرڈ افسران اسکے حامی ہیں۔ صوبائی اسمبلی نے پولیس ایکٹ2017 میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے ۔ پولیس پہلی باربلدیاتی نمائندوں ،ریٹائرڈججز، ریٹائرڈ بیورو کریٹس، سول سوسائٹی اورممبران صوبائی اسمبلی کوبذریعہ پبلک کمپلینٹ اتھارٹی جوابدہ ہوگی۔ وزیرقانون آفتاب عالم کے مطابق پولیس کو دئے گئے اختیارات پر کوئی چیک اینڈبیلنس موجودنہیں تھاجس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی اسلئے احتسا ب اورشفافیت کی خاطر پولیس ایکٹ میں ترامیم کی گئی ہیں۔اب پولیس براہ راست عوامی نمائندوں اور وزیر اعلیٰ کو جوابدہ ہوگی۔ گریڈ 18 سے اوپرایڈیشنل آئی جی اورڈی آئی جی کی ٹرانسفرپوسٹنگ کا اختیار وزیر اعلیٰ کوحاصل ہوگا جبکہ پولیس سے پوچھ گچھ کیلئے پبلک سیفٹی کمیشن کوختم کرکے پبلک کمپلینٹ اتھارٹی کاقیام عمل میں لایاگیاہے اتھارٹی ضلعی اور صوبائی سطح پرکام کریگی۔

15 رکنی پبلک کمپلینٹ اتھارٹی میں4 حکومتی اور 3اپوزیشن ایم پی ایز ہونگے ۔دیگرارکان ریٹائرڈججز، بیورو کریٹس ،سول سوسائٹی کے افراد اوربلدیاتی نمائندے ہونگے جبکہ ضلعی کمپلینٹ اتھارٹی میں تین حکومتی اور دواپوزیشن ممبران ہونگے۔ کانسٹیبل سے اعلیٰ افسر تک کی شکایت اتھارٹی کے پاس آئیگی،اتھارٹی سزا کے حوالے سے کابینہ کو سفارش کریگی جبکہ سزاکاآخری اختیار وزیراعلیٰ اورکابینہ کوحاصل ہوگا۔ جیساکہ اوپرعرض کیا گیا ہے پولیس ایکٹ میں ترمیم پرپولیس افسران کو شدید تحفظات ہیں دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پرکام کرنے والی خیبرپختونخواکی پولیس فورس نئی قانون سازی سے مطمئن نہیں ، ایک سینئرپولیس افسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ ‘‘پولیس ایکٹ 2017ء تین سالہ محنت کے بعد بنایا گیا تھاجسے موجودہ حکومت نے 24 گھنٹوں میں بے اثرکردیا،جلدبازی میں کئے گئے فیصلے سے عوام پربرااثرپڑیگا، پولیس پہلے سے موجودپبلک سروس کمیشن کوجوابدہ تھی، جس کے چیئرمین چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ، ممبران میں چیئرمین پبلک سروس کمیشن اور احتساب کمشنرسمیت دیگر تھے، حکومت نے سات برسوں میں اس کمیشن کومحکمہ داخلہ میں دفتر فراہم کیااورنہ ہی اتھارٹی کیلئے مجاز آفیسرتعینات کئے کمیشن کوفعال کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی غیرفعال کمیشن کوختم کرنادرست نہیں،اب ایک کونسلرپولیس آفیسرکی انکوائری کریگاپولیس افسران سیاسی انکوائریوں میں پھنسے رہینگے تو سیکیورٹی کی ذمہ داری کون پوری کریگا؟پختونخواپولیس فورس 1لاکھ 15 ہزار افرادپرمشتمل ہے، ڈی ایس پیزکی ڈائرکٹ تقرری کا اختیار صوبائی حکومت کودینے سے 600 انسپکٹرزکی ترقی کا عمل بھی رک جائیگا، جبکہ دیگرپولیس اہلکاروں کی ترقی بھی متاثرہونے کا یقینی خدشہ ہے ’’۔

حالیہ ترمیم کے بعد ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرکسی بھی ضلع میں تبادلے کے بعد دوسال تک وہاں دیوٹی دینے کاپابند ہوگا۔ سابق آئی جی پولیس اخترعلی شاہ نے ایک انٹرویومیں کہاکہ پولیس اپنی تفتیش اوراینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت کارکردگی بہتربنانے پرتوجہ دے،اختیارات وزیر اعلیٰ کودینے میں کوئی حرج نہیں،پولیس ایکٹ 2017ء سے قبل پولیس آرڈر2002ء کے تحت بھی 18سے 21 گریڈتک افسران کا تبادلہ سیکشن افسرہی کرتاتھا،اورٹرانسفرپوسٹنگ حکومتی احکامات کے مطابق ہوتی تھی ،پولیس ایکٹ 2017ء میں وزیراعلیٰ کے تمام اختیارات آئی جی کوتفویض کئے گئے تھے لیکن کیااس سے پولیسنگ میں بہتری آئی ؟سٹریٹ کرائمز پرقابوپالیاگیا؟امن وامان کی صورتحال بہترہوئی ؟پولیس روئیے میں تبدیلی آئی ؟ پولیس کوچونکہ بجٹ حکومت دیتی ہے ، حکومت اوراسمبلی عوام کوجوابدہ ہے تواس میں کوئی قباحت نہیں کہ اختیارات وزیراعلیٰ کودئے جائیں ۔ سابق آئی جی موٹروے وسابق آئی جی سندھ افتخاررشیدکے مطابق ‘‘ماتحت آفیسرجب پولیس سربراہ کوجوابدہ نہیں ہوگاتوادارہ تباہ ہوجائیگا۔ 2021ء میں بھی حکومت نے پولیس ایکٹ میں ترمیم کی کوشش کی تھی لیکن سابق آئی جیز فورم نے وزیراعظم عمران خان ،وزیراعلیٰ اور ہوم سیکرٹری کوخط لکھ کرخدشات کااظہارکیا تھا جس پرترمیم سے یوٹرن لیاگیالیکن اب دوبارہ یونیفا ر م فورس سے اختیارات لیکرحکومت کو دیناسمجھ سے بالاترہے دوہراا ختیارکیسے چل سکتا ہے؟پولیس سے اختیارات واپس لینے کے خلاف عدالت سے رجوع کیاجائیگا۔

یادرہے پرویزخٹک نے پولیس کومثالی بنانے کے بڑے دعوے کئے تھے عمران خان اورپرویزخٹک پولیس ایکٹ2017ء کوتحریک انصاف کاکارنامہ قرار دیتے تھے جس کے نتیجے میں پرویزخٹک ترقی پا کر وفاقی وزیر دفاع بنے تھے جبکہ پولیس کو مثالی بنانے والے آئی جی پی ناصردرانی کووفاق میں اہم ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں جوبعدمیں انہوں نے چھوڑدیں۔ اسی پولیس ایکٹ 2017ء میں اب ترامیم کرکے ریورس گیئرلگادیاگیا ہے ۔ اگرایکٹ میں ترمیم ضروری تھی تو اعلیٰ پولیس افسران سے مشاورت کی جاتی ۔ ایک جانب خیبرپختونخواپولیس دہشت گردوں سے برسر پیکارہے،اسے آئے روزحملوں کانشانہ بنایاجارہاہے ،جوان وافسران شہیدہورہے ہیں تودوسری جانب اسکے ڈھانچے کوچھیڑاجارہاہے ۔ یکطرفہ ترامیم پرنظرثانی اورایسے ترامیم لانے کی ضرورت ہے جس سے پولیس کا مورال ڈاؤن ہونے کی بجائے اَپ ہواورکارکردگی میں مثبت تبدیلی آئے۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket