وصال محمدخان
صوبائی حکومت نے اپنی نگرانی میں ایک آل پارٹیزکانفرنس منعقدکی۔جس میں صوبے کی بڑی اپوزیشن جماعتوں جے یوآئی،مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اوراے این پی نے شرکت سے معذرت کرلی جبکہ قومی وطن پارٹی،جماعت اسلامی اورجے یوآئی س کے نمائندے شریک ہو ئے۔کانفرنس کے بعدوزیراعلٰی نے جس قسم کااعلامیہ جاری کیایاجوپریس کانفرنس کی اس سے اے پی سی میں شرکت نہ کرنیوالی جماعتوں کامؤقف درست ثابت ہوا۔وزیراعلیٰ نے جس دھمکی آ میزلہجے میں وفاقی حکومت،وفاقی وزرا،فوج اورانٹیلی جنس ایجنسیوں پرتنقیدکی اور تضادات سے بھرپورگفتگوکی اس سے یقیناًاے پی سی میں شرکت کرنیوالی جماعتیں بھی متفق نہیں ہونگیں مگرشائدیہ دنیاکی واحداے پی سی تھی جس کاکوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہونیکی بجائے وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کی اوراپنی جماعت کے چیئرمین سمیت چنددیگرافرادکو دائیں با ئیں بٹھایاجنہیں زبان کھولنے کاموقع بھی فراہم کرنیکی زحمت گوارانہیں کی گئی۔وزیراعلیٰ نے گڈاوربیڈطالبان کے حوالے سے جو مؤقف اپنایا یہ حیران کن طورپرمضحکہ خیزہے ایک جانب انہوں نے فرمایاکہ صوبے میں امن وامان کی ذمہ داری ہماری پولیس نبھاسکتی ہے جبکہ دوسر ی جانب کہاگیاکہ وفاق یافوج سرحدوں کوسنبھالیں۔اگرصوبائی حکومت دہشت گردی پرقابوپانے اوراس کاقلع قمع کرنیکی صلاحیت سے مالامال ہے تویہ صلاحیتیں بروئے کارلانے میں کونساامرمانع ہے؟ صوبے میں روزانہ کے حساب سے دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں،سیاسی اورمذہبی شخصیات نشانہ بن رہی ہیں، چیک پوسٹوں پرحملوں اورٹارگٹ کلنگ میں پولیس جوان نشانہ بن رہے ہیں فوجی کانوائے پرحملے ہورہے ہیں،کمشنرز،اسسٹنٹ کمشنرز،تحصیلداراورڈسٹرکٹ پولیس افیسرزتک زخمی اورجاں بحق ہورہے ہیں مگر صوبائی حکومت کے پاس دہشت گردوں سے نمٹنے کی جوصلاحیت ہے اسے بروئے کارنہیں لایاجارہا۔ یہ باورکروانے کیلئے اے پی سی بلائی گئی کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت یافوج کی محتاج نہیں تواگرصوبائی حکومت کے پاس صلاحیتیں موجودہیں اوروہ دہشت گردی پرقابو پا سکتی ہے تو دیرکس بات کی اوراجازت کس کی درکارہے؟غیرسنجیدہ اورلاابالی پن کی بھی حدہوتی ہے ایک صوبائی حکومت فوج اور وفاقی حکومت کو محض بیان بازی کانشانہ بنانے کیلئے اے پی سی منعقد کررہی ہے اوراس میں یہ اعلان ہورہاہے کہ صوبائی حکومت اوراسکی پولیس دہشت گردوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگردوسری جانب روزانہ کے حساب سے دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں دہشت گردوں کامقابلہ فوجی جوان کررہے ہیں اوران مقابلوں کے دوران ویسے توہزاروں مگرگنڈاپوردورِحکومت میں بھی سینکڑوں جوان اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔ بقول وزیراعلیٰ یہ قربانیاں رائیگاں جارہی ہیں اور اس سے بہترطریقہ وزیراعلیٰ کے پاس موجودہے جوانہوں نے اپنی جیب خاص میں چھپا کر رکھا ہے۔مذکورہ اے پی سی کاکوئی خاطرخواہ نتیجہ کیابرآمدہوناہے اسکی آڑمیں وزیراعلیٰ نے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی اسے اے پی سی کانام دینا اے پی سی کی توہین ہے اس کیلئے نہ توباقاعدہ طورپردیگرسیاسی قوتوں کومدعوکیاگیا،نہ کوئی ایجنڈا جاری کیاگیااورنہ ہی مسائل کا کوئی حل پیش کیاگیا۔واٹس ایپ پوسٹ کے ذریعے بادل نخواستہ طریقے سے قدآورسیاسی راہنماؤں کودعوت دی گئی جس سے واضح ہورہا ہے کہ حکومت دیگرجماعتوں کی شرکت کیلئے سنجیدہ نہیں تھی کیونکہ اگردیگرجماعتیں شرکت کرتیں تواسطرح کابھو نڈاا اوربے مقصدعلامیہ جار ی نہ ہوتا۔فوج اوردیگرسیکیورٹی فورسزکی قربانیوں اورشہادتوں کوخراج تحسین پیش کرنیکی بجائے انٹیلی جنس ایجنسیو ں تنقیدکانشانہ بنایا گیا اوران پرالزامات عائدکئے گئے بلکہ ذراواضح الفاظ میں دہشت گردوں کی ترجمانی کی گئی۔وزیراعلیٰ جوخودبھی نقل وحرکت کیلئے فوج اور سیکیورٹی اداروں کے محتاج ہیں انہوں نے انہی اداروں کوتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے کہاکہ یہ کام وہ بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ آپریشن کی اجازت نہ دینے کابیان تودہشت گردوں کی کھلی حمایت ہے کسی وزیراعلیٰ کوزیب نہیں دیتاکہ وہ شہدا کی بجائے دہشت گردوں کی حمایت میں زبان کھولیں نجانے پی ٹی آئی راہنمااورخصوصی طورپروزیراعلیٰ گنڈاپوردہشت گردوں کے حق میں بیان جاری کرکے کیاحاصل کرناچاہتے ہیں۔انہوں نے اعلامئے میں وزیرخارجہ اوروزیرداخلہ دونوں کوبے جاتنقیدکانشانہ بنایا۔یہ امرباعث تعجب ہے کہ وزیراعلٰی ہمیشہ آئینی عہدیدا روں کوبے جاتنقیدکانشانہ بناتے ہیں حالانکہ جس نظام کے تحت وہ ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹیوہیں اسی نظام کے طفیل وفاقی وزرا بھی عہدوں پرفائزہیں۔ گورنرتوانکے خصوصی نشانے پررہتے ہیں مگراس کیلئے کہاجاسکتاہے کہ یہ دونوں روایتی حریف ہیں مگروزیرخارجہ کواس وقت تنقیدکانشانہ بنانا جب وہ غیرملکی دورے پرہوں اوریہی روئیہ وزیرداخلہ کے حوالے سے بھی اپناناغیرسنجیدہ اورلاابالی پن ہے۔ وزیر داخلہ نے اپنے ٹویٹ پیغام میں جونپاتلاجواب دیاہے امیدہے اس سے وزیراعلٰی کے چودہ طبق روشن ہوچکے ہونگے۔جووزیراعلٰی اپنے ضلع کے حالات سدھارنے سے قاصرہیں جن پردہشت گردوں کوبھتے دینے کے الزامات ہیں وہ کیمروں اورمائیکس کے سامنے ہوش و حواس کھودیتے ہیں اورفوج سمیت ریاستی عہدیداروں پربھی بلاجوازتنقیدکرتے ہیں اوربے بنیادالزامات لگاتے ہیں۔درحقیقت صوبے کے سب سے بڑے عہدے پرفائزعلی امین گنڈاپور نہ تواس عہدے کے تقاضوں سے واقف ہیں اورنہ ہی انہیں اپنی ذمہ داریوں کااحسا س ہے بلکہ انکی سیاست اب بھی بلدیاتی اورگلی محلے طرزکی سیاست ہے۔آئے روز ریاست مخالف بیانات کوانہوں نے اپناوطیرہ بنالیاہے جو کسی طوردرست طرزعمل نہیں۔اگرآپ کوآپریشن کے حوالے سے تحفظات ہیں تو اس کیلئے متعددفورمزموجودہیں جن میں آپ شرکت بھی کرتے رہتے ہیں وہاں اپنانقطہ نظرپیش کرنے سے کس نے روکاہے؟۔ اے پی سی بلانااوراسکی آڑمیں دشمن کی زبان بولنا کہاں کی عقلمندی ہے؟بیانات بھی دہشتگردی کے خلاف برسرپیکاران فورسزکے خلاف دئے جاتے ہیں جن کے سبب آپ ٹانگیں پھیلاکرآرام فرماتے ہیں۔مقام افسوس ہے کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ دہشت گردوں کوللکارنے کی بجائے ان سے برسرپیکاراپنے محافظوں کامورال گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جواس عہدے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔