وصال محمد خان
خیبرپختونخوامیں موسم گرمااپنے عروج پرہے میدانی علاقوں کادرجہء حرارت دن کے وقت 40ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپرچلاجاتاہے ۔محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ دنوں میں پارہ 46ڈگری تک بڑھنے کاامکان ہے اس شدیدگرمی میں بجلی لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی ناک میں دم کررکھاہے پہلے بھی صوبے میں لوڈشیڈنگ ہوتی تھی مگراس مرتبہ بجلی تقریباًناپیدہوچکی ہے شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کادورانیہ بیس گھنٹے سے متجاوزہے ۔گرمی کے ستائے شہریوں کے صبرکاپیمانہ لبریزہوچکاہے جس کے نتیجے میں چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج اورمظاہرو ں کا سلسلہ شروع ہوگیاہے اسکے باوجودواپڈاحکام کے کان پرجوں نہیں رینگتی ۔بجلی شارٹ فال اس مرتبہ ساڑھے پانچ ہزارمیگاوا ٹ کے لگ بھگ ہے مگرلوڈشیڈنگ دورانئے سے محسوس ہورہا ہے جیسے یہ دس ہزارمیگاوا ٹ سے اوپر ہو۔وفاقی حکومت کواس سلسلے میں نظرآنے والے اقدامات لینے کی ضرورت ہے تا کہ عوام کو بنیادی سہولت بلاتعطل میسرہواور موسمی شدت سے نبردآزماشہری سکون کاسانس لے سکیں۔
گرمی کی شدت سے سیاسی محاذ قدر ے ٹھنڈاپڑچکاہے ۔گورنراوروزیراعلیٰ کے درمیان گزشتہ ہفتے تک منہ ماری کے کئی راؤنڈزہوچکے ہیں۔ مگرلفظی گولہ باری کی شدت میں اب خاصی حدتک کمی واقع ہوچکی ہے۔فریقین یا توسستانے کیلئے وقفہ لے رہے ہیں یاپھرانہیں احساس ہوچکاہے کہ چونچ لڑانے کافائدہ کوئی نہیں جبکہ نقصانات بے شمار ہیں۔ خوامخواہ کی لڑائی میں کسی کی چونچ اورکسی کی دم گم ہونے کاخدشہ نظر اندازنہیں کیاجاسکتا فریقین کوتحمل اوربردباری کامظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے دونوں شخصیات اعلیٰ آئینی عہدوں پرفائزہیں خصوصاًوزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کاروئیہ اس حوالے سے مثالی قرارنہیں دیاجاسکتا۔گورنرنے تلخ وترش جملوں کے تبادلے کے بعدایک بارپھرذمہ دار ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ‘‘ صوبائی حقوق کی حصول کیلئے کسی سے بھی بات کرنے کیلئے تیارہوں، وزیراعلیٰ سے کوئی مسئلہ نہیں ، ملکر کام کر سکتے ہیں ،صوبے اوروفاق کے درمیان محاذآرائی کے نتیجے میں صوبائی حکومت اگلے مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں کوئی میگاپراجیکٹ شا مل نہ کرواسکی جبکہ میں نے اپنے ذاتی تعلقات کوبروئے کارلا تے ہوئے چشمہ رائٹ بینک لفٹ کنال کامنصوبہ شامل کروادیا ہے، تمام سیا سی قائدین سے ملاقاتیں کروں گا،آفتاب شیرپاؤ اورسراج الحق سے ملاقاتیں اسی سلسلے کی کڑی تھی ،مولانافضل الرحمان سنجید ہ سیا ستدان ہیں انہیں ملکی مفادکومدنظررکھنا چاہئے ،ملکی حالات احتجاج اورنظام میں خلل ڈالنے کے متحمل نہیں ہوسکتے،اگلے ہفتے بلاول بھٹوکادورہ پشاور متوقع ہے اس دوران وہ گورنرہاؤس میں ہی رہینگے ،امیدہے صوبائی حکومت انکی آمد میں کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ گندم کی خریداری میں مقامی کسانوں کی بجائے پنجاب سے خریداری کی جارہی ہے، ڈی آئی خان میں کچے کے راستے سندھ اور اورپنجاب سے گندم سمگل ہوکرآرہی ہے یہ ایک نیٹ ورک کے تحت ہورہاہے یہ سلسلہ روکنے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی کاشتکار سے گندم خریدی جاسکے’’ گورنرنے حکومت کیلئے نیک خواہشات میں پہل کی ہے اب وزیراعلیٰ اورصوبائی حکومت کا فرض بنتاہے کہ وہ اسی اندازمیں جواب دیں۔ سب کیساتھ سینگ اڑاناذمہ دارانہ طرزعمل قرارنہیں دیاجاسکتا۔
مولانافضل الرحمان کیساتھ پی ٹی آئی وفدکی ایک اورملاقات ہوچکی ہے اس مرتبہ وفدمیں سابق ‘‘جرگہ مشر’’اسدقیصرکی موجودگی کے باوجود قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمرایوب نے وفدکی قیادت کی ۔تحریک انصاف اورجے یوآئی کے روئیوں میں ایکدوسرے کیلئے خاصافرق آ چکاہے پی ٹی آئی اب مولاناکیلئے تضحیک آمیززبان کا استعمال کرنے سے اجتناب برت رہی ہے اسطرح وہ مولانافضل الرحمان جوعمران خا ن کوغیرضروری عنصراوریہودی ایجنٹ قراردیتے رہے اب ان کاکہناہے کہ ‘‘یہ خیرسگالی کی ملاقات تھی آئین کی بحالی کیلئے ہمارے درمیان خاصے مشترکات موجودہیں،ابھی پی ٹی آئی ہمیں منارہی ہے ٹھوس لائحہء عمل کیلئے ضمانت اوراعتماد بحالی کی ضرورت ہوتی ہے ،ہم سیاسی روا بط بڑھانے کے خواہاں ہیں ’’۔مولاناکی پی ٹی آئی کے حوالے سے یوٹرن سیاسی حکمت عملی کاحصہ ہے ،وہ واقعی پی ٹی آئی کیساتھ شراکت کا فیصلہ کرچکے ہیں یاپھریہ حکومتی اتحادپردباؤبڑھانے کی کوئی سیاسی چال ہے ؟ ملاقات کے بعدمیڈیا سے گفتگومیں مولاناکہہ چکے ہیں کہ ٹھوس لائحہء عمل کیلئے ضمانت اوراعتمادکی ضرورت ہوتی ہے جس کاواضح مطلب یہی ہے کہ اب تک دونو ں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں کوئی ضامن نہ بن سکااوراعتمادکافقدان رہا۔اسدقیصرشائدقابل اعتمادنہیں تھے اسلئے اب اعتماد بحالی کایہ پرا جیکٹ عمرایوب ڈیل کریں گے ۔ کیامولانا اپنے قدکاٹھ سے کمتر تحریک انصاف کے دوسرے اورتیسرے درجے کی قیادت کیساتھ کوئی مشترکہ لائحہء عمل بناسکیں گے ؟عمرایو ب کاکہناتھاکہ ہم آئین کی پاسداری کیلئے جدوجہدجاری رکھناچاہتے ہیں مولانا سے طویل اورمفید گفتگوہوئی ہے۔اسد قیصرنے کہاکہ ملک بناناری پبلک میں تبدیل ہورہاہے آئین وقانون کی بالادستی کیلئے ہمیں ملکرجدوجہدکرنا ہوگی ،رؤف حسن کیساتھ برا ہوا۔ عمرایوب یہ بتانے سے یقینا قاصرہونگے کہ انکی گزشتہ حکومت میں انہوں نے آئین اورقانون کی بالادستی کیلئے کونسے اقدامات لئے تھے؟ یااسدقیصرکوجوملک اب بنانا ری پبلک کی روپ میں نظر آرہاہے انکی دورِحکومت میں بھی حالات آج سے زیادہ مختلف نہیں تھے بلکہ اب حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں ان کی انقلابی عقل عمران دورِ حکومت میں شائدگھاس چرنے گئی تھی ناقص حکومتی کارکردگی اورآئین وقانون سے کھلواڑکے بعد اب انہیں آئین اورقانون کی پاسداری کی یادستا نے لگی ہے۔ ملکی حالات کاتقاضاہے کہ سیاستدان اپنی اناؤں کی قربانی دیں،جھوٹے بیانیو ں سے گریزکیاجائے ملکی مفاد کیلئے یکجہتی کامظاہرہ کیا جائے اورعوام کومسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے اپنی صلاحیتیں بروئے کارلائی جائیں ۔ ماضی قریب میں ایک دوسرے کے سائے کو پتھرمارنے والی سیاسی جماعتیں نجانے کن مشترکات پرمتفق ہونگی اس کافیصلہ آنے والاوقت کرے گا۔
صوبائی حکومت نے نئے مالی سال کیلئے 1754ارب روپے مالیت کابجٹ پیش کیاہے ۔اخراجات کاتخمینہ 1654ارب یعنی 100ارب روپے سرپلس ہونگے تنخواہوں اورپنشن میں دس فیصداضافہ تجویزکیاگیاہے ۔مزدورکی کم ازکم اجرت 36ہزارروپے ماہوارمقررکی گئی ہے پراپرٹی ٹیکس میں کمی کی گئی ہے خیبرپختونخواحکومت دیگرصوبوں کے مقابلے میں دوگناپراپرٹی ٹیکس وصول کررہی ہے جس کے سبب لوگ انتقالات اوررجسٹری کروانے سے گریزاں ہیں۔بجٹ پراپوزیشن لیڈرعباداللہ کاکہناتھاکہ بجٹ لفاظی کامجموعہ ہے ۔ مشیرخزانہ مزمل اسلم کاکہناتھاکہ ہمارابجٹ آئی ایم ایف کوبھی پسند آئے گا۔ملکی تاریخ میں پہلی بار صوبے کابجٹ وفاق سے پہلے پیش کیاگیاہے ۔شنیدہے کہ صوبائی اسمبلی جون کے پہلے ہفتے میں بجٹ کی منظوری دیگی۔