وصال محمدخان
وطن عزیزپاکستان دنیاکے ان چندممالک میں شامل ہے جہاں جمہوریت رائج ہے اورعوام کوحکومت کے انتخاب کاحق حاصل ہے اگرچہ یہ جمہوریت توقعات کے مطابق نتائج نہیں دے پارہی مگرجن ممالک میں مضبوط نظام ہیں انہوں نے یہ منزل دوچارعشروں میں حاصل نہیں کی بلکہ اس کیلئے انہیں صدیوں پرمحیط جدوجہدسے گزرناپڑاہے پاکستان میں قائم جمہوری نظام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اورسیاسی ماہرین کویقین ہے کہ اگریہاں انتخابات کاسلسلہ جاری رہاتونظام اورملک دونوں بتدریج مضبوط ہوتے جائینگے2002ء سے اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کاسلسلہ جاری ہے اوراب چوتھی اسمبلی کے پانچ سال پورے ہونے میں ڈیڑھ ہفتے کاوقت باقی ہے چونکہ آئینی طورپر رواں برس الیکشن کاسال ہے اس لئے ملک کے طول وعرض میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوناقدرتی امرہے سیاسی جماعتیں کارنرمیٹنگزکا انعقاد کررہی ہیں،چھوٹے پیمانے پر اجتماعات کاسلسلہ شروع ہوچکاہے،انتخابی منشوروں کوحتمی شکل دی جارہی ہے اورامیدواروں کے چناؤ کاعمل زوروشورسے جاری ہے بروزاتوار 30جولائی کو اسی سلسلے میں خیبرپختونخواکے سابقہ قبائلی ایجنسی اورموجودہ ضلع باجوڑ تحصیل خارکے علاقے شندئی موڑکی دوبئی مارکیٹ میں جے یوآئی کے زیراہتمام ورکرزکنونشن کاانعقادکیاگیاتھا اجتماع میں لوگوں کی بڑی تعدادموجودتھی اس دوران 4بجکردس منٹ پرزور داردھماکہ ہوا،دھماکہ شدیدنوعیت کاتھا،جس کی آوازدوردورتک سنی گئی، پولیس کے مطابق دھماکہ خودکش تھا،جس میں دس سے بارہ کلوگرام تک بارودی مواداستعمال کیاگیا،موقع سے بال بیرنگزاورچھرے بھی ملے ہیں، دھماکے کے نتیجے میں آخر ی اطلاعات تک 60سے زائدافرادجام شہادت نوش کرچکے ہیں جبکہ دوسوکے قریب زخمی بھی ہیں،دھماکے سے صوبے سمیت پورے ملک میں غم واندوہ کی لہردوڑگئی سیاسی قیادت نے یک آوازہوکرسانحے کی شدیدالفاظ میں مذمت کی ہے سعودی عرب سمیت کئی دوست ممالک نے بھی واقعے پرافسوس کااظہارکیاہے اوردہشت گردی کے خلاف پاکستان کے عزم اورقربانیوں کی تعریف کی ہے۔پاکستان میں اس قسم کاواقعہ پہلی باررونمانہیں ہوابلکہ گزشتہ 44برس سے یہ نارواسلسلہ کسی نہ کسی روپ میں جاری وساری ہے 1979ء افغان وارسے تاحال خیبرپختونخواکے ہزاروں نہیں لاکھوں بے گناہ اورمعصوم شہری ناکردہ گناہ کی پاداش میں پیوست ِ خاک ہوچکے ہیں امن دشمن قوتوں نے طویل عرصے سے یہاں آگ وخون کاجو بازارگرم کررکھاہے اس کی روک تھام نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے جس سے کماحقہ اغراض برتاجارہاہے نائن الیون کے بعداقوام متحدہ،امریکہ،نیٹواوردنیاکے دیگرتھانیداروں نے یہ لامتناہی جنگ پاکستان کے سرتھوپ دی اوربیس سال تک یہاں جھک مارکررفو چکرہوگئے دہشت گردی کے خلاف جنگ جس سے پاکستان کاکوئی تعلق بنتانہیں تھااب چاروناچارپاکستان کے گلے کاطوق بن چکی ہے امریکہ نے کابل کوافغان طالبان کے حوالے کرکے یہاں سے دم دباکر بھاگ جانے میں عافیت جانی مگرخطے کوایسی آگ میں دھکیل دیاگیاجوبجھنے کانام نہیں لے رہی افغانستان جوکہ داعش سمیت ہمہ قسم دہشت گرد تنظیموں کامرکزبن چکاہے پاکستان میں ہونے والے 99فیصدحملوں کے ڈانڈے افغانستان سے جاملتے ہیں افغان رجیم دعوے توکرتی ہے کہ انکے ہاں دہشت گردوں کے کوئی ٹھکانے موجود نہیں مگرپاکستان میں ہونے والے پے درپے حملے انکے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں حالیہ باجوڑحملے کی ذمے داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی مگراس میں داعش کے ملوث ہونے کاشبہ ہے افغان حکومت نے اگرچہ واقعے کی مذمت کی ہے مگریہ مذمت کھوکھلی لگ رہی ہے جب ساری دنیاجانتی ہے کہ پاکستان کی سرزمین پرآگ وخون کابازارگرم کرنے والے افغانستان سے سرگرم ہیں تومذمت چہ معنی دارد؟ریاست پاکستان کواب اپنے شہریوں کی تحفظ کیلئے2014ء ردالفساد اورضرب غضب والی پالیسی اپنانی ہوگی جہاں سے پاکستان کے کسی علاقے کوٹارگٹ کیاجارہاہے پاکستان کوان ٹھکانوں پرحملے کرکے دہشت گردی کے گڑھ ختم کرنے ہونگے افغان حکومت اسکی اجازت دے یانہ دے مگرپاکستان کے پاس اسکے سواکوئی چارہ نہیں افغان حکومت کواپنے میزبانوں اورمحسنوں پرہونے والے مظالم کااحساس کرناہوگاخیبرپختونخواکے لوگ چوالیس سال سے افغانوں کی میزبانی کررہے ہیں اس کایہ صلہ کسی طورجائزنہیں اس صوبے کے باشندے اب مزیدلاشیں اٹھانے کی توان نہیں رکھتے افغان طالبان کچھ تومروت دکھائیں اپنے محسنوں کے ساتھ یہ ظلم دنیاکے کسی تہذیب میں روانہیں رکھاجاتاکونسادین یامذہب اپنے محسن کے قاتل کوتحفظ اورکمین گاہ فراہم کرنے کادرس دیتا ہے؟ پاکستان کے سیاسی جماعتوں کوبھی اجتماعات کے دوران سیکیورٹی پربھرپورتوجہ دیناہوگی ہرسیاسی جماعت کے پاس رضاکاروں کی بڑی تعدادموجودہے سیاسی سرگرمیاں کھلی جگہوں پرکرنے کی بجائے چاردیواری کے اندرکی جائیں،پولیس کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنوں سے بھی سیکیورٹی میں مددلی جائے،بچوں کوجلسہ گاہ میں لانے سے گریزکیا جائے، مدرسوں کے طلبہ کو جلسوں میں لانے پرپابندی عائد کی جائے،یہ بچے والدین قرآن سیکھنے کیلئے مدرسوں میں بھیجتے ہیں انہیں سیاسی مقاصدکیلئے استعمال کرناکسی طورجائزنہیں ایک اطلاع کے مطابق باجوڑ دھماکے میں 30کے لگ بھگ حفاظ اورحفظ ِقرآن کے طالبعلم جام شہادت نوش کرچکے ہیں یعنی اس حملے میں 30قرآن کریم شہیدکردئے گئے دین کے نام پرجن سنگدلوں نے خون کی یہ ہولی کھیلی ہے انہیں اپنے گریبان میں جھانکناچاہئے آیاوہ مسلمان کہلانے کے لائق ہیں؟ دنیابھر کے معصوم اورپرامن شہری ان ظالموں کومسلمان نہیں سمجھتے عوامی سطح پر انہیں سبق سکھانے کامطالبہ زورپکڑتاجارہاہے ظالموں نے معصوم اوربے گناہ بچوں کے خون کاحساب دیناہے ان کاسرکچلناہوگاچاہے اسکی راہ میں کوئی بھی حائل ہواس رکاوٹ کوہٹاناہوگاحکومت،اپوزیشن،فوج اورسیکورٹی اداروں کو ”میثاقِ تحفظ“پرمتفق ہونے کی ضرورت ہے وحشی درندوں کے نشان ِعبرت بننے تک متاثرین سانحہء باجوڑ کے زخم مندمل نہیں ہونگے۔