اسلامی جمہوریہ پاکستان اوراسکے پڑوس میں آبادملک بھارت گزشتہ پون صدی سے ایکدوسرے کے مدمقابل ہیں ۔اس دوران دونوں ممالک کے درمیان تین بڑی جنگیں جبکہ ان گنت چھوٹی موٹی جھڑپیں اورلڑائیاں ہوچکی ہیں ۔بدقسمتی سے بھارت کی روزِاول سے دلی تمنا ہے کہ وہ پاکستان کوزیرکرکے اکھنڈبھارت کاحصہ بنائے اوراگرا س مذموم مقصدکاحصول ناممکن ہو تواسکے وجودکوہی ختم کردے ۔دنیا میں شائدہی کوئی دوسراملک ہوجوکسی ہمسایہ ملک کاوجود ہی ختم کرنے کے درپے ہواوراس مقصدکیلئے منصوبہ بندیاں اورسازشیں کرنے میں مصرو ف ہو۔
بھارت کا بغض اور تضاد
دنیامیں بھارت واحدملک ہے جواپنے ساتھ آزادہونے والے مسلم ملک پاکستان کے خلاف بغض ،کینہ اورنفرت کے دائمی مرض میں مبتلاہے ۔بلاشبہ اس کاشمارخطے سمیت پوری دنیاکے بڑے ممالک میں ہوتاہے ۔ایک ارب چالیس کروڑآبادی رکھنے والابھارت اپنے پڑوس میں 25کروڑ آبادی والے ملک سے جسامت میں بھی کئی گنابڑاہے ۔عقل وفہم کاتقاضاتویہ ہے کہ بھارت اپنے ہم عمراور ہمسا یہ ملک کیساتھ تقسیم سے قبل کی عداوتیں بھلادیتا،بڑاملک ہونے کیساتھ بڑادل ہونے کاثبوت دیتا،تقسیم ہندکے طے شدہ فارمولے پر خلوص دل سے عمل کرتا، خودبھی دنیامیں ایک باوقارقوم منوانے کیلئے تگ ودوکرتااورپاکستان کوبھی اپنی مرضی سے زندگی جینے اوراقوام عالم میں بلند مقام حاصل کرنے کی راہ میں روڑے اٹکانے سے گریزکرتا۔
ہمسائیگی کا امن اور تجارت
بھارت کامزیدبڑاپن یہ ہوتاکہ وہ پاکستان کیساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل نکالتا،دونوں ممالک کے عوام کورابطے رکھنے میں سہولت فراہم کرتا اورتجارت کوفروغ دیتاتاکہ دونوں ممالک کے پونے دوارب انسان آسودہ حال اورپرامن زندگی گزارتے ۔ کوئی ملک خواہ کتناہی تیس مارخاں کیوں نہ ہووہ تن تنہاترقی نہیں کرسکتاترقی ہمیشہ پور ے خطے میں ہوتی ہے یورپ اورمشرق وسطیٰ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ان خطوں میں جب ترقی اورخوشحالی کادورشروع ہواتوخطے کے تمام ممالک اس سے مستفیدہوئے ۔علاقائی ممالک کی تنظیم ‘‘ سارک’’ نے باہمی رابطوں،تجارت ،آمدورفت میں سہولیات اورتعاون کے فروغ کیلئے جن ترجیحات کی نشاندہی کی ہے اگران پرخلوص نیت سے عمل ہوجائے توخطے میں خوشحالی کے ایک نئے دورآغازممکن ہے ۔
سب سے بڑی رکاوٹ: بھارت
مگراس سہانے خواب کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ بڑاملک بھارت ہے ۔بھارت بلاشبہ جسامت ،رقبے ،وسائل ،افرادی قوت اورہرلحاظ سے پاکستا ن سے کئی گنابڑاملک ہے مگرپاکستان بھی اپنے وجودکے لحاظ سے اگربڑانہیں تواہم ملک ضرورہے ۔بھارت اگرچہ قیام پاکستان کامخالف تھا شدیدمخالفت کے باوجود،وجودمیں آنے والاملک بھارتی تمناکے برعکس ایک مضبوط ملک بن چکاہے ۔مگربھارتی قیادت انتہاپسندی کے جذبے سے مغلوب ہوکراس حقیقت کوتسلیم کرنے پرتیارنہیں ۔ بھارت اسے زیرکرنے سے قاصرہے ،اسے فتح نہیں کیاجا سکتا اوریہ ناقابل تسخیرہے ۔
دانشمندانہ راستہ
عقل دانش کاتقاضاتویہ ہے کہ بھارت اب اس حقیقت کوتسلیم کرلے کہ وہ پاکستان کی راہ میں ہرطرح کی رکاو ٹیں کھڑی کرنے کے باوجودمغلوب نہ کرسکاتواسکے ساتھ پرامن بقائے باہمی کادانشمندانہ راستہ کیوں نہ اپنایا جائے؟ ۔بھارت نے شہریوں کے آمدورفت کو بلاجوازپابندیاں لگاکرمشکل بنادیاہے ،تجارت نہیں کررہا،کرکٹ کھیلنے پاکستان نہیں آتا،بین الاقوامی فورمزپرپاکستان کی مخالفت کواپنافرض اولین سمجھ لیاگیاہے شقی القلبی کی انتہادیکھئے کہ آئی ایم ایف سے پاکستان کیساتھ تعاون نہ کرنیکی درخواست بھی کی گئی ہے ۔
کرکٹ اور انتہا پسندی
کرکٹ جوکہ دونو ں ممالک کے عوام کامقبول ترین کھیل ہے عرصہ درازتک پاکستانی ٹیم کاپلڑابھاری رہامگرگزشتہ چندبرسوں سے بھارتی ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے مگربھارتی ٹیم حکومتی ایماپرپاکستان کادورہ نہیں کررہی جس سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کافیوچرٹوورز پروگرا م بھی کئی بار تبدیل کرناپڑا اوردونوں ممالک کے بورڈزکومالی نقصان بھی اٹھاناپڑا۔مگربھارتی انتہاپسندقیادت اپنی ٹیم کو پاکستانی سرزمین پرکھیلنے کی اجازت نہیں دے رہی حالانکہ جتنی بھی ٹیمیں یااسکے کھلاڑی پاکستان آکرکھیلتے ہیں وہ خوشگواریادیں اورشائقین کرکٹ کی محبتیں سمیٹ کرلوٹتے ہیں ۔
مہذب دنیا سے کٹاؤ
بھارتی ٹیم دنیاکے ہرمیدان میں ہرٹیم سے میچ کھیلتی ہے حتیٰ کہ نیوٹرل مقام پر پاکستان کیساتھ کھیلنے سے بھی انکارنہیں کیاجاتا مگر پاکستانی سرزمین کو بھارتی کھلاڑیوں کیلئے شجرممنوعہ بنادیاگیاہے یعنی ہندوانتہاپسندقیادت صرف پاکستانی سرزمین سے نفرت کرتی ہے۔ جو متمدن اورمہذب دنیامیں احمقانہ روئیہ سمجھاجاتاہے۔ حالانکہ پاکستانی کرکٹ شائقین بھارتی کھلاڑیوں کے پرستارہیں اوروہ انہیں اپنی سر زمین پرایکشن میں دیکھناچاہتے ہیں ۔
تہذیبی روایات کی پامالی
مہذب دنیاکی روایت ہے کہ جوبھی سربراہ مملکت کسی دوسرے ملک کی فضائی حدودسے گزرتاہے تووہ اس ملک کی عوام کیلئے خیرسگالی جذبات کا اظہارکرتے ہیں مگربھارت دنیاکاانوکھاملک ہے جس کی انتہاپسندقیادت پاکستانی حدودسے گزرتے ہو ئے تہذیبی روایات کاپاس بھی روانہیں رکھتی ۔یعنی انکے دلوں میں پاکستان اوراسکے عوام کی نفرت رچ بس چکی ہے اوریہی نفرت بھارتی عوام میں بھی منتقل کی جاچکی ہے ۔
نئی سوچ کی ضرورت
بھارتی قیادت کوانتہاپسندانہ پالیسیوں پرنظرثانی کی ضرورت ہے انہیں یقین آجاناچاہئے کہ پاکستان اب ایک آزاد،خودمختاراورمضبوط ملک ہے دنیاکاکوئی تیس مارخاں پاکستان کابال بیکاکرنے کی صلاحیت نہیں رکھتااسے صفحہء ہستی سے مٹانے کی بڑھکیں احمقانہ پن کے سواکچھ نہیں ۔ اسلئے بھارتی قیادت کوآئے روزفالس فلیگ آپریشن جیسے ظالمانہ عمل میں اپنے شہریوں کی ہلاکت جیسے ڈرامہ بازیوں سے بازآجاناچاہئے ۔
اچھے ہمسائے کا رویہ
پاکستان کوپڑوسی ملک اوردنیاکے نقشے پرایک حقیقت سمجھ کراسکے ساتھ اچھے تعلقات کار قائم کرنے پرتوجہ مرکوزکرنی چاہئے۔ اٹھتربرس دشمنی ،نفرت ،عداوت ، جھڑپیں ،دھمکیاں ،گالم گلوچ اورجنگیں سب کچھ کرنے کے باوجود اگرپاکستان اپنی پوری آب وتاب کیساتھ دنیاکے نقشے پرنہ صرف موجودہے بلکہ چمک رہاہے توبھارت کوبھی اسکے ساتھ اچھے ہمسائے والا روئیہ اپنا کر دونوں ممالک کے تعلقات کومعمول پرلانا ہوگا ۔
بڑا بننے کی اصل پہچان
پون صدی کی دشمنی سے کیاحاصل ہوا؟ کیا دونوں ممالک کے عوام کوآسودہ حال زندگی جینے کاحق نہیں ؟ بھارتی قیادت کوان تیس چالیس کروڑعوام کی کوئی فکرنہیں جودہلی ،ممبئی اوردوسرے شہروں کی فٹ پاتھ پرزندگی گزار رہے ہیں ؟ آئیں بڑاملک ہونے کے ناطے بڑے دل کابھی مظاہرہ کیجئے تمام تنازعات گفت وشنیدسے حل کیجئے ۔بڑا ملک کب تک چھوٹے دل کا مظاہرہ کرکے اقوام عالم میں تماشابنتا رہے گا؟