وصال محمد خان
پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈکپ سے قبل ایشیاکپ کے آخری دومقابلوں میں ایسے ٹھوکرکھاگئی ہے کہ سنبھل نہیں پارہی بھارت اورسری لنکاکے خلاف ایشیاکپ کے آخری دومیچزسے قبل ٹیم اچھی خاصی ردھم حاصل کرچکی تھی سری لنکاکے خلاف ٹیسٹ اورافغانستان کے خلاف ون ڈے سیریزجیتنے پرپاکستانی شائقین نے ٹیم سے ورلڈکپ میں متاثرکن کارکردگی کی امیدیں وابستہ کر لیں ایشیاکپ میں بھارت کے خلاف میچ سے شاہینوں کاایسازوال شروع ہواجورکنے کانام نہیں رہاخصوصاًبھارت کے خلاف ٹیم پاکستان نے آخری جودومیچز کھیلے ہیں یہ دونوں یکطرفہ رہے ہیں ورلڈکپ کے گزشتہ میچ سے تویہی لگ رہاہے کہ پاکستانی ٹیم بھارت کاتگڑامقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہوچکی ہے پاکستانی مین سٹریم میڈیاایک ہفتہ قبل ”کرکٹ کاسب سے بڑاٹاکرا“ کی گردان کرکے شائقین کی توقعات ساتویں آسمان تک پہنچادیتاہے مگرجب میچ شروع ہوتاہے توکہیں ٹی وی زمین پرپٹخے جاتے ہیں توکہیں موبائل فرش پرمارے جاتے ہیں گزشتہ میچ میں پاکستان کی فلاپ بیٹنگ کا جوشاندارمظاہرہ دیکھنے کوملاہے وہ تاریخ کاحصہ بن چکاہے اچھی بھلی بیٹنگ چلتے چلتے ٹھس ہوجاتی ہے 155رنزپر3وکٹوں کے بعد3 6 رنزپرسات وکٹیں گنوانے کاکارنامہ پاکستانی شاہینوں کاہی خاصہ ہے پاکستان کرکٹ بورڈنے ٹیم کیساتھ مہنگے کوچزکابیڑہ رکھاہواہے مگر ٹیم کے کھلاڑیوں کویقیناًنفسیاتی ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے یوں اچانک چلتے چلتے کولیپس کرجانانفسیاتی عارضے کی نشاندہی کرتاہے پہلے توٹیم کیساتھ ماہرنفسیات بھی ہواکرتے تھے اب پتانہیں ہوتے ہیں یانہیں اگرہوتے ہیں تووہ بھی بے چارے کوچزکی طرح ناکامی سے دوچار ہیں نہ ہی کوچنگ اورمنیجمنٹ درست فیصلے اورمطلوبہ نتائج دے رہے ہیں نہ کھلاڑی اپنی بہترین صلاحیتوں کامظاہرہ کرپارہے ہیں اورنہ ہی نفسیاتی معالج اپنی ذمہ داریاں بااحسن نبھارہے ہیں جس کے نتیجے میں اچھی بھلی ٹیم ڈری ڈری سہمی سی نظرآرہی ہے کسی کھلاڑی کی باڈی لینگویج سے لگ ہی نہیں رہاتھاکہ وہ ورلڈکپ جیسے اہم ایونٹ میں اپنے روایتی حریف کے خلاف نبردآزماہے لاابالی پن میں وکٹیں تحفے میں تھمادی گئیں بابراعظم کے بعد تمام آؤٹ ہونے والے بیٹرزنے گیند کواسکے میرٹ پرکھیلے بغیربلا گھمادیا جس کے نتیجے میں یاتوبولڈہوئے یا پھرکسی نہ کسی فیلڈرکوکیچ دے بیٹھے۔
میچ سے ٹیم کی بہت سی خامیاں ہم جیسے ناسمجھ شائقین کرکٹ کوبھی نظر آگئیں ٹیم کی مڈل آرڈراگرافتخار، سعودشکیل،محمدنوازاورشاداب کوکہاجارہاہے تواس مڈل آرڈرکوبلامبالغہ افراتفری کاشکارمڈل آرڈرقراردیاجاسکتا ہے مڈل آرڈرمیں مستند بیٹسمینوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ہماری ٹیم منیجمنٹ نے یہاں آل راؤنڈرزبھردئے ہیں ان پوزیشنزپرکم ازکم دوتیزرفتاری سے بیٹنگ کرنے والے آل راؤندرزاوردومستندبیٹرزکی ضروت ہے ہماری کرکٹ کے کرتادھرتاؤں اورکوچزکے بیانات سنیں توچارسال سے ہماری نظریں ورلڈکپ پر ہیں کے دعوے سننے کوملتے ہیں مگرورلڈکپ کیلئے تیاری کرنی تودرکناراس کیلئے سوچابھی نہیں جاتاچارسال قبل فیصلہ ہو چکاتھا کہ ورلڈکپ اس مرتبہ بھارت میں کھیلاجائیگادنیاجہاں کے کرکٹ ماہرین اورنیم ماہرین سب کوپتاہے کہ بھارت کی وکٹیں ڈیڈہوتی ہیں،یہ بیٹسمین کوفیورکرتی ہیں اوریہاں فاسٹ باؤلنگ کے برعکس سپن باؤلنگ زیادہ کامیاب رہتی ہے ثقلین مشتاق کی ٹیسٹ میچ میں تیرہ تیرہ وکٹیں اورونودکمبلے کی پاکستان کے خلاف ایک اننگزکی تمام دس وکٹیں بھی بھارت کی وکٹوں کامزاج آشکاراکرتی ہے مگرحیرت انگیزطورپر گزشتہ چاربرسوں میں کرکٹ بورڈنے ایسی کوئی کوشش نہیں کی کہ ورلڈکپ سے قبل ایک سپیشلسٹ سپنرتیارکیاجائے ٹیلنٹ کی کمی نہیں کے بیانات توسن سن کرکان پک گئے ہیں مگراس ٹیلنٹ کوچمکانے کاترددکرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی گزشتہ چندبرسوں میں محمدابرار جیساایک کوالٹی سپنرسامنے آیاہے حالیہ ورلڈکپ کومدنظررکھ کراسے پالش کرنے کی اشدضرورت تھی گزشتہ چندماہ اگرابراراحمدکیلئے کسی سابقہ پاکستانی سپنرکی خدمات حاصل کی جاتیں اورانہیں نکھارنے کاٹاسک سونپاجاتاتوآج یقیناًابراراحمدورلڈکپ کاٹرمپ کارڈہوتااب بھی انہیں ریزروکھلاڑی کے طورپررکھاگیاہے اگرہوسکے توانہیں آسٹریلیاسے مقابلے کیلئے میدان میں اتاراجائے بھارتی وکٹوں پرگورے کھلاڑیوں کوسپنرزکے ذریعے ہی قابوکیاجاسکتاہے دوتین پارٹ ٹائم اورایک فل ٹائم سپنرکاتجربہ آسڑیلیاکے خلاف خاصاکامیاب رہاہے اسی طریقے سے سری لنکااوربھارت نے ہمیشہ کینگروزکاشکارکیاہے پاکستانی ٹیم کوبھی ابراراحمدکومیدان میں اتارنے کابولڈفیصلہ لیناچاہئے آسٹریلیاکے خلاف میچ کیلئے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے کینگروززخم خوردہ ہیں وہ دومیچزہارچکے ہیں وہ شاہینوں پرجھپٹنے کوبے تاب ہونگے پاکستانی بیٹرزکوصبروتحمل کامظاہرہ کرناہوگاہربال کواسکے میرٹ پرکھیلناہوگاہربیٹسمین کویہ یادرکھناہوگاکہ وہ ورلڈکپ کامیچ کھیل رہا ہے اوراس اہم ایونٹ کاہربال قیمتی ہے کیونکہ یہ ٹورنامنٹ چارسال بعدآتاہے یہاں دیکھ بھال کرایسی کارکردگی دکھانی ہوگی جوتاریخ رقم کرسکے ورلڈکپ جیسے اہم ایونٹ میں ٹیمیں تاریخ بننے کیلئے نہیں تاریخ رقم کرنے کیلئے اترتی ہیں۔ابھی ورلڈکپ ختم نہیں ہواایک میچ کودل پرلینے کی بجائے آگے کی جانب دیکھناہوگایہی ٹیم کسی بھی ٹیم کوہرانے کی صلاحیتوں سے مالامال ہے اوریہ بارہاثابت بھی ہوچکاہے۔ پاکستانی شائقین کرکٹ کواپنی ٹیم سے توقع ہے کہ وہ گزشتہ غلطیوں کی اصلاح کرے گی اورہرمیچ ایک نیامیچ ہوتاہے کے مقولے پرعمل پیراہو گی۔آنے والے میچزاگرچہ سخت ہیں مگرآسٹریلیا،ساؤتھ افریقہ،انگلینڈاورنیوزی لینڈکوسپن باؤلنگ کے جال میں پھنسانازیادہ مشکل نہیں بشرط یہ کہ ٹیم منیجمنٹ اورکوچنگ سٹاف گزشتہ غلطیوں کاازسرنوجائزہ لیں اور”رائٹ پرسن فاردی رائٹ جاب“ والے مقولے پرعمل پیراہوں توکوئی بعیدنہیں کہ ٹیم کی آئندہ میچزمیں کارکردگی نکھرجائے اورپاکستانی شائقین کرکٹ کوبہترین کرکٹ دیکھنے کوملے۔ورلڈکپ کاہرٹاکرابڑاٹاکراہوتاہے اسے الٹے سیدھے فیصلوں سے کمزوراوریکطرفہ مقابلے میں تبدیل نہیں کرناچاہئے۔