چار اگست تک بارشوں کاامکان

پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں 4 آگست تک بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ پی ڈی ای ایم کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق خیبرپختونخوا ، گلگت بلتستان، کشمیر ، اسلام آباد ، پنجاب ، جنوب مشرقی سندھ اور بلو چستان میں تیز ہواؤں/جھکڑ چلنے اور گرج چمک کے ساتھ بارشوں کا امکان ہے ۔ اس دوران بالائی خیبرپختونخوا ،کشمیر، خطہ پوٹھوہار اورجنوبی بلو چستان میں چند مقامات پر موسلادھار بارشوں کا بھی امکان ہے۔

Modern Forklifters Vehicles Reference to 12 Districts of the Province فورک لفٹرز

صو بے کے 12 اضلاع کو جدید فورک لفٹرز گاڑیاں حوالہ

 آج سنٹرل پولیس آفس پشاور میں ایک پُر وقار تقریب منعقد ہوئی ۔جس میں صوبے کے تمام ضم اور دیگر اضلاع میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے 12 عدد جدید فورک لفٹرز گاڑیاں حوالہ کی گئیں۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات خان نے اُن اضلاع کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ٹریفک کو فورک لفٹرز کی چابیاں حوالہ کیں۔ ایڈیشنل آئی جی پی ہیڈ کوارٹرز اول خان اور ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکیشن ، فنانس اینڈ پروکیورمنٹ عباس مجید مروت بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈی آئی جی فنانس اینڈ پروکیورمنٹ عباس مجید نے فورک لفٹرز گاڑیوں سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں ٹریفک انفورسمنٹ کے لیے 40 عدد فورک لفٹرز گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ جن میں 12 گاڑیوں کی پہلی کھیپ جو جدید سہولیات اور نظام سے لیس ہے موصول ہو چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹریفک نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے مزید سازوسامان بھی خریدا جائیگا۔انسپکٹر جنرل آف پولیس اختر حیات خان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹریفک انفورسمنٹ جدید ماڈرن پولیسنگ کا ایک اہم حصہ ہے اور بتدریج صوبہ بھر میں ماڈرن ٹریفک پولیسنگ کے لیے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں فورک لفٹرز گاڑیاں اس لیے بھی ضروری ہیں کہ بعض اوقات کھڑی گاڑیوں میں تخریبی سرگرمیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔ آئی جی پی نے کہا کہ لکی مروت، ٹانک اور تمام ضم شدہ اضلاع میں کوئی فورک لفٹر نہیں تھا اور کہا کہ جو اضلاع و سائل کے حوالے سے پیچھے رہ گئے ہیں اُن کو دوسرے اضلاع کے برابر لانے کے لیے بھر پور کوششیں کیجائینگی۔آئی جی پی کا کہنا تھا کہ ٹریفک کا نظام بہت اہم شعبہ ہے اور اس سے کسی بھی شہر کے لوگوں کی طرز زندگی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ پورے صوبے بشمول ضم شدہ اضلاع میں ہائی وے ٹریفک یونٹ بنائے جائیں اور آہستہ آہستہ ان کی یونیفارم بھی ایک جیسی بنائی جائے۔ آئی جی پی نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع میں پولیس بھرتیاں ہو رہی ہیں نئے قابل اور اہل اُمیدواران ضم شدہ اضلاع کا حصہ بن رہے ہیں۔ اور وہاں بھی پولیس ایک پروفیشنل فورس میں تبدیل ہو رہی ہے۔ آئی جی پی نے متعلقہ پولیس حکام پر زور دیا کہ وہ نئی گاڑیوں کی صفائی، استعمال اور حفاظت کا پورا پورا خیال رکھیں۔ بعد ازاں آئی جی پی نے متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ٹریفک کو فورک لفٹرز کی چابیاں حوالہ کیں۔ جن اضلاع کو فورک لفٹرز فراہم کئے گئے ان میں ضلع خیبر ، کرم، اورکزئی، مہمند، باجوڑ، شمالی وزیرستان، اپر جنوبی وزیرستان، لوئر جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور لکی مروت شامل ہیں۔

بھارتی پروپیگنڈا

ریاست مخالف عناصر بھارتی پروپیگنڈا ، دھمکیوں سے بے خبر؟

ریاست مخالف عناصر بھارتی پروپیگنڈا ، دھمکیوں سے بے خبر؟

عقیل یوسفزئی

یہ بات اب کھل کر سامنے آہی گئی ہے کہ پاکستان کے خلاف بعض اندرونی ریاست مخالف قوتوں اور گروپوں کے علاوہ متعدد علاقائی طاقتوں اور پراکسیز کے منصوبے بھی ایک خطرناک حد کو عبور کرنے کے آخری مراحل میں ہیں ۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قائدین کو ان پراکسیز کی سازشوں بلکہ تیاریوں کا یا تو علم نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں ۔ یہی حال میں سٹریم میڈیا کا بھی ہے جس کو ایک مخصوص پارٹی اور عدالتی فیصلوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔

متعدد مین سٹریم انڈین چینلز پر گزشتہ چند دنوں سے پاکستان مخالف پروپیگنڈا پر مشتمل خصوصی نشریات کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس پروپیگنڈا وار کا آغاز مقبوضہ جموں کشمیر میں انڈین فورسز پر ہونے والے چند حملوں کے بعدکیا گیا ۔ ان نشریات کے دوران بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی سپیشل سروسز گروپ ( ایس ایس جی ) کے سینکڑوں جوان نہ صرف ان حملوں میں براہ راست ملوث ہیں بلکہ انڈین میڈیا کی” پروپیگنڈا وار ” کے مطابق بھارت پاکستان کے خلاف تقریباً 6 محاذوں پر حملوں کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ رپورٹس میں پاکستان کے چند ریاست مخالف یوٹیوبرز کے بعض سنسی خیز مگر ” نان سینس” تبصروں کی کلپس کو مین سٹریم انڈین چینلز کی زینت بناکر ان کو اپنے ملک کے خلاف بطور ” وعدہ معاف گواہ ” بنانے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے حالانکہ پاکستانی ان خواتین ، حضرات میں سب سے ” معتبر ” تجزیہ کار کو پاکستان کے سنجیدہ حلقے اور صحافی ” قیامت مسعود ” کے نام سے جانتے ہیں ۔

انڈین میڈیا ان نشریات کے دوران ایس ایس جی کے سربراہ میجر جنرل عادل رحمانی کو بطور ہیرو پیش کرتے ہوئے دعویٰ کررہا ہے کہ اس ” آپریشن” کو وہ لیڈ کررہے ہیں اور یہ کہ ایک لیفٹیننٹ کرنل سینکڑوں جوانوں کو مقبوضہ جموں وکشمیر لگارہے ہیں ۔ اس تمام پروپیگنڈے کے دوران نہ تو کوئی ثبوت سامنے لایا جاتا ہے اور نہ ہی پاکستان کی طرح کوئی تجزیہ کار یہ سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ جب سینکڑوں کمانڈوز بقول ان کے سرحد پار کرکے داخل ہورہے تھے تو خود کو بہت جدید اور محفوظ ریاست بتانے والے بھارت کا دفاعی نظام کہاں سویا ہوا تھا ؟
رپورٹس اور تبصروں میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایس ایس جی کا ہیڈکوارٹر اور ٹریننگ سنٹر خیبرپختونخوا میں واقع ہیں جہاں انڈین میڈیا کے بقول پاکستان کی سیکورٹی فورسز طالبان وغیرہ کے سامنے سرینڈر ہوچکی ہیں حالانکہ سیکورٹی چیلنجز کے باوجود یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ پاکستان کی فورسز روزانہ کی بنیاد پر آپریشن کررہی ہیں اور گزشتہ روز بھی خیبرپختونخوا کے تین اضلاع میں کارروائیاں کرتے ہوئے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ۔

اس تمام پروپیگنڈے اور جنگ کی تیاریوں کی دھمکیوں سے قطع نظر افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض سیاسی حلقوں کے علاوہ تجزیہ کاروں کے لبادے میں موجود بعض افراد پر متعلقہ ادارے اس کے باوجود ہاتھ نہیں ڈال رہے جو کہ کئی برسوں سے پاکستان مخالف سرگرمیوں اور پروپیگنڈا پراجیکٹس کا حصہ بن کر مسلسل انڈین میڈیا کو ” مصالحہ” فراہم کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔ ایسے عناصر کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے اور ساتھ میں اس بات کا ادراک بھی ہونا چاہیے کہ پاکستان کے اندر جاری دہشت گردی میں عالمی اور علاقائی پراکسیز کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے اور یہ اب مقامی مسئلہ نہیں رہا جس طرح کہ بعض حلقے تاثر دینے میں مصروف عمل ہیں ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ریاست اپنی پوری قوت کے ساتھ نہ صرف عام دہشت گردوں کے خلاف صف آراء ہو بلکہ ڈیجیٹل دہشتگردی میں کھلے عام ملوث ” عناصر” کو بھی لگام دینے پر توجہ دی جائے کیونکہ ریاست مخالف پروپیگنڈا اور ریٹنگ وغیرہ کی چکر میں بعض لوگ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کررہے اور اظہار رائے کی آڑ میں ملکی مفادات کو بھی خاطر میں نہیں لایا جارہا ۔

افغان مہاجرین کی واپسی

افغان مہاجرین کی واپسی ، پاکستان کا موقف اور عالمی برادری کی لاتعلقی

افغان مہاجرین کی واپسی ، پاکستان کا موقف اور عالمی برادری کی لاتعلقی
عقیل یوسفزئی

پاکستان سال 1980 سے اب تک ( 2024 ) تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کا فریضہ انجام دیتا آرہا ہے اور افغانستان کے اس 20 سالہ نسبتاً بہتر دورانیہ میں بھی مہاجرین کی مہاجرت میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی جب امریکہ اور نیٹو ممالک کے قیام کے باعث نہ صرف یہ کہ سیکورٹی کے حالات کافی بہتر تھے بلکہ معاشی صورتحال بھی بہت بہتر تھی ۔ سال 1985 کے دوران پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 28 لاکھ اور 2005 میں یہ تعداد 24 لاکھ تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی رضاکارانہ واپسی کا عمل عملاً نہ ہونے کی برابر رہا۔

اس وقت جو ڈیٹا دستیاب ہے اس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 8 لاکھ رجسٹرڈ یا کارڈ ہولڈر افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں جبکہ ساڑھے سات لاکھ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ درکار دستاویزات کے بغیر یعنی غیر قانونی طور پر یہاں قیام کررہے ہیں ۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ( یو این ایچ سی آر) کے سربراہ فیلیفو گرانڈی اپنی ٹیم کے ہمراہ جولائی 2024 کے دوسرے ھفتے کے دوران پاکستان کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے نہ صرف یہ کہ وزیراعظم شہباز شریف ، وزیر سیفران امیر مقام اور خیبرپختونخوا حکومت کے عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں بلکہ انہوں نے پشاور میں افغان مہاجرین کے ایک نمایندہ وفد سے بھی ملاقات کی ۔ ان کی درخواست کا احترام کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے بعض معاملات پر افغان مہاجرین کو جون 2025 تک بعض رعایتیں دینے کا اعلان کیا تاہم ان کو بتایا گیا کہ پاکستان بوجوہ مزید مہاجرین کی میزبانی کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے ان کو ہر صورت میں واپس بھیجا جائے گا۔

اس سے قبل جولائی 2023 کو اس وقت کی نگران حکومت نے اعلان کیا کہ پاکستان میں مقیم غیر قانونی طور پر قیام پزیر مہاجرین کو واپس بھیجا جائے گا اور اس پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ یہ سلسلہ کبھی تیز تو کھبی آہستہ اب بھی جاری ہے اور ہر ھفتے سینکڑوں ، ہزاروں افراد طورخم ، چمن ، غلام خان اور انگور اڈہ کی کراسنگ پوائنٹس کے ذریعے افغانستان بھیجے جاتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے مختلف مقامات پر یو این ایچ سی آر اور حکومت پاکستان کی جانب سے سہولت کاری مراکز قائم کیے گئے ہیں ۔ یو این ایچ سی آر ہر فرد اور خاندان کو ابتدائی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے 300 سے 700 ڈالرز تک امداد بھی دے رہا ہوتا ہے۔
ان کی واپسی کی رفتار کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ 3 جولائی 2024 تک 637,427 افراد کو واپس بھیجا جاچکا ہے ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 21 جون سے 3 جولائی تک کے عرصے میں 432 خاندانوں پر مشتمل 16446 افغان باشندوں کو 496 گاڑیوں میں واپس بھیجا گیا۔

مختلف رپورٹس کو سامنے رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ جب سے ان کی بے دخلی کا فیصلہ کیا گیا ہے تب سے اب تک تقریباً 6 لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے جن میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ وہ ہیں جو کہ بعض درکار دستاویزات رکھنے کے باوجود رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس چلے گئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کو بات بات پر طعنے دینے والی افغان عبوری حکومت اور بعض سیاسی حلقوں کی کارکردگی کا یہ عالم رہا کہ انہوں نے واپس جانے والوں کی بحالی تو ایک طرف عارضی قیام کی سہولیات پر بھی کوئی توجہ نہیں دی ۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے علاوہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور متعدد قوم پرست لیڈروں نے بھی ریاست پاکستان کے اس فیصلے پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے سخت مخالفت کی تاہم حکومت نے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا کیونکہ ان مہاجرین میں سے بہت سوں کے بارے میں اس قسم کی اطلاعات موصول ہوئیں کہ وہ نہ صرف یہ کہ جرایم ، اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں بلکہ بے شمار نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ملکر بلوچستان اور خیبرپختونخوا پر کرایے گئے حملوں میں بھی براہ راست حصہ لیا ۔ اس قسم کے ثبوت اور شواہد بھی سامنے آتے رہے کہ سینکڑوں افغان مہاجرین اور ٹی ٹی پی کے حامیوں نے 9 مئی کے واقعات اور حملوں میں بھی حصہ لیا ۔ یہ ڈیٹا بھی سامنے آیا کہ ہزاروں افغان مہاجرین نے نہ صرف یہ کہ رشوت دیکر پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حاصل کیے بلکہ انہوں نے غیر قانونی طور پر مختلف قسم کے کاروبار بھی شروع کیے جن پر وہ ٹیکس وغیرہ بھی نہیں دیتے تھے ۔ ایف آئی اے اور بعض حساس اداروں نے ایسے افراد کو سہولیات فراہم کرنے والے درجنوں سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں بھی کیں۔

پاکستان نے جہاں ایک طرف غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی بے دخلی یا واپسی کا عمل جاری رکھا وہاں اس نے مذکورہ فیصلے کے باوجود تقریباً ڈیڑھ لاکھ ان افغان باشندوں کو ریکارڈ تعداد اور وقت میں ویزے بھی جاری کیے جن کو طالبان حکومت کے قبضے کے بعد سیکورٹی چیلنجز کا سامنا تھا اور وہ پاکستان یا بعض دیگر ممالک میں منتقل ہونے کی کوشش کررہے تھے ۔ یوں دنیا بھر میں پاکستان وہ واحد ملک رہا جس نے کشیدہ تعلقات اور پاکستان مخالف پروپیگنڈا کے باوجود اگست 2021 کو طالبان کی ٹیک اور کے بعد سب سے زیادہ ویزے جاری کیے۔

10 جولائی 2024 کو اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے ایک مانیٹرنگ رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ افغان عبوری حکومت اور افغان طالبان کی جانب سے پاکستان پر حملے کرنے والی ٹی ٹی پی اپنے ہزاروں جنگجووں کے باعث تعداد اور صلاحیت کے تناظر میں افغانستان کی سرزمین پر سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کی صورت اختیار کر گئی ہے اور اسی پس منظر میں اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو بدترین حملوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ رپورٹ میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی جنگجووں کی تعداد ساڑھے 6 ہزار بتائی گئی ہے تاہم آزاد ذرائع یہ تعداد تقریباً 15 ہزار کی لگ بھگ بتاتے ہیں ۔ دوسری جانب پاکستان نے کراس بارڈر ٹیررازم کے خاتمے کے اقدامات کے علاوہ لینڈ پورٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارے کے قیام اور فعالیت کی پلاننگ بھی شروع کی تاکہ اسمگلنگ اور دیگر سرگرمیوں کا راستہ روکا جائے ۔ 12 جولائی کو ایک اہم بریفننگ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے رواں سال ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں 22 ہزار 714 انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے جس کے نتیجے میں تقریباً 900 مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا اور ان میں درجنوں افغان بھی شامل ہیں۔
افغان مہاجرین کے خلاف سخت اقدامات کا سلسلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا بلکہ ان کو دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد میں پناہ دینے والے ایک اور پڑوسی ملک ایران نے بھی بے دخل کرنے کا سلسلہ تیز کردیا ۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے دوران ایران نے 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو نہ صرف یہ کہ بے دخل کردیا بلکہ سینکڑوں کو مختلف کارروائیوں کے دوران زندگی تک سے محروم کردیا ۔ جولائی ہی کے مہینہ میں جرمنی نے بھی افغان تارکین وطن کی سکروٹنی کے عمل کے نتیجے میں انکشاف کیا کہ لاتعداد افغان مہاجرین نہ صرف یہ کہ جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں بلکہ وہ جرمنی میں شدت پسندی کو فروغ دینے کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔ کریسٹمر نے اعلان کیا کہ جرمنی سے ایسے تمام افغان مہاجرین کو بے دخل کیا جائے گا اور سکروٹنی ، مانیٹرنگ کے عمل کو مزید تیز اور سخت کیا جائے گا۔

اس تمام صورتحال کے تناظر میں بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے پرو مہاجرین پالیسی اور ہمدردی سے قطع نظر اس بات پر اکثر لوگوں کا اتفاق ہے کہ پاکستان کو ان مہاجرین کے ساتھ اس کے باوجود سخت رویہ اختیار کرنا پڑے گا کہ افغانستان کی سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں اکثر کو بلاشبہ واپسی کی صورت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس ردعمل کو سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کے ذریعے افغانستان کی عبوری حکومت کے علاوہ پاکستان مخالف حلقوں کے نفرت آمیز پروپیگنڈے کے اثرات کے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے ۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ افغان مہاجرین کے متعلقہ معاملات سے بعض متعلقہ اہم ممالک اور عالمی اداروں نے بھی لاتعلقی اور بیزاری پر مبنی پالیسی اختیار کرلی ہے اور اس ضمن میں پہلے کی طرح پاکستان کی عملاً کوئی مدد نہیں کی جارہی۔

Khyber Pakhtunkhwa government's decision to amend the Police Act 2017 پولیس

کے پی حکومت کا پولیس ایکٹ2017میں ترمیم کا فیصلہ

خیبرپختونخواہ پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کی بھرتیوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی ہے۔ دستاویز اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کی بھرتی کیلئے 50فیصد کوٹہ پولیس کے ہیڈ کانسٹیبلز کیلئے مختص ہوگا۔دستاویز 25 فیصد کوٹے پر گریجویٹ کانسٹیبلز و ہیڈ کانسٹیبلز کو اسسٹنٹ سب انسپکٹرز پوسٹ پر ترقی دی جائے گی۔ 12.5 فیصد کوٹہ شہداء کے بچوں اور 12.5فیصد پر نئے بھرتیاں کی جائیں گی۔بل تیار پولیس ایکٹ میں بھرتیوں کیلئے ترمیمی مسودہ خیبرپختونخواہ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

Peshawar: Decision to install ATM machine in traffic license branch لائسنس برانچ

پشاور: ٹریفک لائسنس برانچ میں اے ٹی ایم مشین لگانے کا فیصلہ

سٹی ٹریفک پولیس پشاور نے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (یو بی ایل) کے تعاون سے ٹریفک ہیڈ کوارٹر گلبہار میں قائم لائسنس برانچ میں اے ٹی ایم مشین لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں چیف ٹریفک آفیسر سعود خان اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (یو بی ایل) کی انتظامیہ نے ایم او یو سائن کرلیا ۔جس سے ٹریفک ہیڈ کوارٹرز میں قائم لائسنس برانچ میں شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ چیف ٹریفک آفیسر سعود خان نے اس موقع پر کہا کہ شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سٹی ٹریفک پولیس کے ہیڈ کوارٹر میں قائم لائسنس برانچ میں اے ٹی ایم مشین اگست میں فعال کیا جائیگا جس سے شہریوں کو کسی قسم کی مشکلات درپیش نہیں ہوں گی۔ چیف ٹریفک آفیسر سعود خان نے مزید کہا کہ اکثر اوقات لائسنس برانچ میں شہری لائسنس کے حصول کیلئے آجاتے ہیں جن کے پاس رقم کی کمی کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔