پروپیگنڈا مشینوں کو لگام دینے کی ضرورت

عقیل یوسفزئی
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی ملک تمام معاملات میں آئیڈیل نہیں ہوا کرتا. ریاستی معاملات میں ہر وقت غلطیوں کی گنجائش موجود رہتی ہے اور غلطیوں سے سیکھنا چاہیے تاہم اس رویہ کو ہضم کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کہ اگر بعض حلقوں کو سب کچھ “الٹا” ہی نظر آنے کا مرض لاحق ہو اور وہ بھی ان کا اپنا پیدا کردہ مرض تو اس کا دفاع کیا جائے. پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں ریاستی اور سیاسی معاملات کی طرح اب “صحافتی” امور کو بھی ذاتی اور گروہی مفادات کا تابع بناکر ڈیل کیا جارہا ہے. سیاست دان اور ان کے کارکن تجزیہ کار تو صحافی سیاستدان بنے ہوئے ہیں. اس پر ستم یہ کہ ایک “سونامی نما لیڈر” نے پاکستان کی سیاست اور صحافت کے علاوہ معاشرت کو بھی زنگ آلود کرنے کے علاوہ ایک ایسی “مخلوق” کی سرپرستی کی جس کی بنیاد منفی پروپیگنڈا پر رکھی گئی ہے. اس مخلوق کی باقاعدہ سرپرستی کرکے اس کو ایک جنگی مشین میں تبدیل کردیا گیا اور اب اس مشینری نے ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے.
اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس “کنکشن” کے سب سے” پاپولر” مشین کا نام عادل راجہ ہے جس کی اپنی پوسٹیں ہی ان کی “ساکھ” کا جنازہ نکالنے کے لئے کافی ہیں تاہم ان کو نہ صرف بعض مخصوص حلقوں میں سنجیدہ لیا جاتا ہے اور ان کے دیکھا دیکھی ان جیسے سینکڑوں ہزاروں مزید “میدان” میں اتر کر داد وصول کررہے ہیں بلکہ بعض نظریاتی” مشترکات” کے باعث وہ بعض معتبر اور سنجیدہ لوگ بھی اس کھیل میں ان کے ہم نوا بن گئے ہیں جن کو واقعتاً سنجیدہ لیا جاتا تھا.
اس ضمن میں ڈاکٹر عایشہ صدیقہ اور احمد نورانی سمیت متعدد دیگر کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جو کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ایسے ہی پروپیگنڈا مہم کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں جس کی ان سے توقع نہیں تھی. اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ایسے اہم لوگ شاید بہت کچھ کسی ردعمل کے نتیجے میں کررہے ہو تاہم ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ سنجیدہ حلقے اس ” گہما گہمی ” میں ان کو بھی اس صف میں شامل کرنے لگے ہیں جس میں عادل راجہ جیسے مہم جو کھڑے ہیں اور یہ تاثر نہ صرف خطرناک ہے بلکہ افسوسناک بھی ہے.
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آرمی کے اندر عادل راجہ جیسے لوگوں کے محاسبے اور سزاؤں کا ایک مضبوط مکینزم تو موجود ہے تاہم سویلین کے لیے ایسا کوئی نظام نہیں جس کے ذریعے ان کے خلاف عوام دشمن اور ریاست مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں کارروائیاں کی جائیں اور اس چیز کا کافی عرصہ سے لاتعداد لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے آرہے ہیں.
اس کی حالیہ مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ پروپیگنڈا مشین میجر (ر) عادل فاروق راجہ اور ان کے ایک اور “ہم خیال” کیپٹن (ر) رضا مہدی کو ایک فوجی عدالت نے فوج میں بغاوت اور مزاحمت پیدا کرنے کی کوشش کی پاداش میں سخت سزائیں سنادیں. آرمی ایکٹ 1952 کے تحت عادل راجہ کو 14 سال جبکہ رضا مہدی کو 12 سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئی ہیں.
وقت اور مخصوص حالات کا تقاضا ہے کہ ایسی تمام پروپیگنڈا مشینوں اور کی بورڈ واریررز کے خلاف ہر سطح پر اقدامات کئے جائیں تاکہ معاشرے کو جاری بے سکونی اور جھوٹ گردی سے بچایا جاسکے.
فوج نے اپنے ڈسپلن کے عین مطابق عادل راجہ اور رضا مہدی کو تو سزا دیکر اپنا کام کردیا ہے جس کی ستائش کی جارہی ہے تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسے ان ہزاروں پاکستان دشمن کی بورڈ واریررز کو کون لگام دےگا جو کہ نہ صرف پاکستان کے قومی اداروں کو بدنام کرنے کی مہم جوئی کے ٹاسک پر لگے ہوئے ہیں بلکہ وہ معاشرے کو تقسیم کرنے کے مکروہ عمل میں بھی ملوث ہیں. اس قسم کے منفی عناصر نے پاکستان کی فورسز کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو بطور خاص اپنے منفی پروپیگنڈا کے لیے فوکس کیا ہوا ہے جو کہ پہلے ہی سے حالت جنگ میں ہیں اور ریاستی ادارے نہ صرف یہ کہ امن و امان کی بحالی کے لئے کامیاب کوششیں کررہے ہیں بلکہ سیکورٹی فورسز کے افسران اور نوجوان روزانہ کی بنیادوں پر جانیں قربان کررہے ہیں. یہ پروپیگنڈا مشین ان شہداء کے خون کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کررہے کیونکہ اس مکروہ کام کے لیے ان کو باقاعدہ فنڈنگ ہوتی ہے. حالیہ اقدام کے بعد متعلقہ سول اداروں کو سوچنا پڑے گا کہ اب ان کی ذمہ داریاں کیا بننی چاہیے کیونکہ ان پاکستان مخالف پروپیگنڈا مشینوں کو لگام ڈالنے کے لئے سول لیول پر عملاً کچھ نہیں ہورہا اور ان عناصر کو کھلی چھوٹ حاصل ہے. یہ مبہم قانونی اور عدالتی نظام سے جو فایدہ اٹھاتے آرہے ہیں اب اس پر فوری نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket