چیمپیئنز ٹرافی اور پاکستانی ٹیم

چیمپیئنز ٹرافی سے قبل تین ملکی ون ڈے کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی حسب توقع متاثرکن نہیں رہی۔ پہلے میچ میں نیوزی لینڈ نے پہاڑ جتنا ٹوٹل 330 رنز اسکور کیے، جن کے تعاقب میں پاکستانی بیٹنگ آغاز سے ہی لڑکھڑا گئی۔ فخر زمان نے 80 سے زائد رنز بنائے، ان کے علاوہ اوپننگ نہ چل سکی، مڈل آرڈر نے کوئی کمال نہیں دکھایا، اور نہ ہی ٹیل اینڈرز کوئی کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہوئے۔

نیوزی لینڈ نے دوسرے راؤنڈ میچ میں جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ اس طرح جنوبی افریقہ اور پاکستان کا راؤنڈ میچ سیمی فائنل کی حیثیت اختیار کر گیا، جس میں جنوبی افریقہ نے پہلے کھیلتے ہوئے 352 رنز بنا ڈالے۔ پاکستانی بیٹنگ لائن حسب معمول لڑکھڑا گئی اور 100 رنز سے پہلے ہی تین بڑے بیٹسمین داغِ مفارقت دے گئے۔ جس پر تماشائیوں اور پاکستانی ٹیم کے پرستاروں کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور شکست واضح طور پر نظر آنے لگی۔

مگر انہونی کو ہونی میں بدلنے کے لیے شہرت یافتہ ٹیم نے کم بیک کیا۔ کپتان رضوان اور آغا سلمان نے بلے بازی کے وہ جوہر دکھائے کہ شائقین اور کرکٹ کے جغادری انگشت بدنداں رہ گئے۔ دونوں نے ایک بڑی پارٹنرشپ بنائی، ابتدا میں سنبھل کر اور محتاط کھیلے۔ پچ سے ہم آہنگ ہونے کے بعد دونوں نے دلکش اسٹروکس کھیلے اور شائقین کو محظوظ کرنے سمیت ٹیم کی ڈوبتی ناؤ کو بھی فتح سے ہمکنار کیا۔

مگر فائنل میں ٹاس جیت کر 242 کا آسان ہدف دے دیا گیا جسے نیوزی لینڈ کے تجربہ کار بیٹرز نے ہنستے کھیلتے پانچ وکٹوں کے نقصان پر عبور کر لیا۔ توقع کے عین مطابق چیمپئنز ٹرافی کے لیے بیٹنگ وکٹس بنائی گئی ہیں جن پر تیز باؤلرز کو کوئی خاص مدد نہیں مل رہی جبکہ بیٹرز کے لیے یہ پچیں کسی جنت سے کم نہیں، مگر بشرطیکہ یہ بیٹسمین پاکستانی نہ ہوں۔ دیگر ممالک کے بیٹسمین یہاں آ کر رنز کے انبار لگا دیتے ہیں مگر پاکستان کے اپنے بیٹسمینوں میں سے کوئی بندۂ خدا ففٹی تک نہیں بنا پاتا۔

فائنل میچ میں سب سے زیادہ رنز آغا سلمان نے بنائے مگر پھر بھی ففٹی نہ بنا سکے۔ اسی طرح دیگر تمام بیٹرز بھی آسان وکٹ پر کسی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ میچ دیکھنے والے دم بخود تھے کہ ایک روز قبل اسی گراؤنڈ پر جس ٹیم نے 352 کا پہاڑ جیسا ہدف بآسانی عبور کیا تھا، یہ وہی ٹیم ہے یا کوئی دوسری ٹیم کھیلنے آ گئی؟ کبھی تو لہ، کبھی ماشہ والا سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو ٹیم پاکستان سے چیمپئنز ٹرافی میں کسی اعلیٰ کارکردگی کی توقع عبث ہوگی۔

یہ دنیائے کرکٹ کا ایک بڑا ٹورنامنٹ ہے اس لیے دیگر ممالک کی ٹیمیں خصوصی تیاری کے ساتھ آئی ہیں اور ہر کپتان کی خواہش ہے کہ وہ فاتح کی حیثیت سے ٹرافی اٹھائے، اور اس مقصد کے لیے انہوں نے منصوبہ بندی بھی کر رکھی ہے۔ مگر ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ کوچنگ اسٹاف، سلیکشن کمیٹی اور منیجمنٹ میں کئی سابقہ نامور کھلاڑی موجود ہیں مگر یہ سب ٹیم کو کوئی قابلِ عمل منصوبہ دینے میں ناکام ہیں۔

جس چیمپئنز ٹرافی کے میچز پاکستان میں کھیلے جانے ہیں، اس کے لیے پاکستانی ٹیم کے پاس نہ ہی اعلیٰ معیار کی بیٹنگ لائن موجود ہے نہ ہی باؤلنگ کا وہ معیار نظر آ رہا ہے جو کسی ٹیم کو پچاس اوورز یا اڑھائی سو رنز سے پہلے آؤٹ کر سکے۔ ہاں البتہ خود پاکستانی ٹیم اپنے ہی ہوم گراؤنڈز اور اپنی ہی بنائی گئی پچز (جو بیٹسمینوں کی جنت سمجھی جاتی ہیں) پر پچاس اوورز کے کھیل میں پورے اوورز کھیلنے سے قاصر ہے۔

سابقہ لیجنڈ کھلاڑی جو ٹی وی پر بیٹھ کر ٹیم کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے، آج اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہو کر ٹیم کی کوئی خدمت کرنے سے قاصر ہیں۔ کوئی منصوبہ بندی ان سے نہیں ہو پا رہی اور ٹیم کو درست ٹریک پر لانے کے لیے وہ کارگر ثابت نہیں ہو رہے۔ یہ صورتحال پاکستانی کرکٹ شائقین کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

چیمپئنز ٹرافی کے لیے جو ٹیم منتخب ہونی تھی، وہ تو ہو چکی، مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نامزد کردہ کھلاڑیوں کی خامیاں دور کرنے پر کام کیا جائے۔ بیٹسمینوں کو بیٹنگ کے گر سکھائے جائیں، باؤلرز کو رنز روکنے اور وکٹیں حاصل کرنے کی تربیت دی جائے، اور فیلڈرز کو آسان کیچ گرانے کی بجائے مشکل کیچز پکڑنے اور گیند باؤنڈری لائن پار کرنے سے قبل روکنے کے طریقے سکھائے جائیں۔

جنوبی افریقہ کے خلاف میچ سے ایسا محسوس ہوا کہ پاکستانی ٹیم ٹریک پر آ گئی ہے۔ مگر فائنل سے ثابت ہوا کہ ٹیم تو ابھی طفلِ مکتب ہے اور اسے بڑی ٹیموں کا مقابلہ کرنے کے لیے خاصی محنت درکار ہوگی۔ جس ٹیم سے شائقین کرکٹ چیمپئنز ٹرافی جیتنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں، وہ تو دوسرے مرحلے کے لیے کوالیفائی کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔

ٹورنامنٹ سے قبل ٹیم نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے دورے کیے جہاں کارکردگی ملی جلی رہی، مگر ان دونوں ممالک اور ہماری وکٹوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہاں کے پچز سے ہم آہنگ ہونے کے لیے تین ملکی ٹورنامنٹ کا انعقاد قابلِ تعریف اقدام تھا مگر اس سے شاید گرین شرٹس کوئی فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

سہ ملکی ٹورنامنٹ میں پیش کی گئی کارکردگی اوسط درجے کی رہی، اگر اس سے کچھ سیکھا گیا ہوتا تو فائنل یوں یکطرفہ نہ ہوتا۔ مگر جیسا کہ سب جانتے ہیں، کرکٹ کا ہر دن نیا دن اور ہر میچ نیا میچ ہوتا ہے۔ شائقین کو اپنی ٹیم سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ امید ہے ٹیم اپنی سابقہ غلطیوں سے سیکھ کر چیمپئنز ٹرافی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور شائقین کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کا باعث بنے گی۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket