سیاست کو ناممکنات کا کھیل سمجھا جاتا ہے اور اس کے دوست و دشمن سدا کیلئے نہیں ہوتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔ آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی دوستی اور دشمنی ذاتی مفادات کے گرد نہیں گھومتی بلکہ یہ ملکی اور قومی مفاد کیلئے ہوتی ہے مگر ہمارے جیسے ممالک میں سیاست ذاتی مفادات کیلئے کی جاتی ہے اور ذاتی مفاد کیلئے کی جانے والی سیاست میں سیاہ و سفید کی تمیز روا نہیں رکھی جاتی۔
پاکستانی سیاست اپنے آغاز سے ہی ذاتی مفادات، جھوٹی الزام تراشی، بہتان طرازی اور بے بنیاد وعدوں کے گرد گھوم رہی ہے مگر جب سے عمران خان کو سیاست میں پذیرائی ملی ہے انہوں نے سیاست کو یکسر الزامات اور بہتان طرازی کا کھیل بنا دیا ہے۔ وہ کسی بھی سیاسی یا غیرسیاسی شخصیت پر کوئی بھی الزام دھردیتے ہیں۔ ان کے کارکن اس جھوٹے دعوے یا الزام کی ابلاغ و تبلیغ میں مگن ہوجاتے ہیں۔ چند دن ملکی سیاست اسی الزام کے گرد گھومتی رہتی ہے کہ اتنے میں کسی دیگر شخص پر کوئی نیا الزام یا بہتان سامنے لایا جاتا ہے۔ اس طرح گزشتہ الزام نئے الزام کی گرد میں دب جاتا ہے اور اسی سلسلے کو عمران خان، ان کے فالوورز اور پارٹی راہنما سیاست سمجھتے ہیں۔
وہ جب کوچہ اقتدار سے راندہ درگاہ ٹھہرے ہیں تب سے روز کوئی نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، کوئی نیا دعویٰ سامنے لایا جاتا ہے اور کوئی نیا الزام کسی پر بھی دھردیا جاتا ہے۔ جو بھی پارٹی راہنما جیل میں ان سے ملاقات کرتا ہے، وہ باہر آکر یہ تاثر دینے کی کوشش میں رہتا ہے کہ عمران خان کی روح ان میں حلول کرچکی ہے اور اب وہ جو بھی ارشاد فرما رہے ہیں وہ عمران خان کے فرمودات ہیں۔
رواں ہفتے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے ان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کو پہلے ہی اہم بنا دیا گیا تھا کیونکہ تحریک انصاف ذرائع سے یہ بات سامنے لائی گئی تھی کہ بشریٰ بیگم نے رہائی کے بعد عمران خان سے ملاقات میں انہیں علی امین گنڈا پور کے سوا تمام راہنماؤں کی اصلیت بتادی کہ وہ کتنے مخلص ہیں اور عمران خان کی رہائی کیلئے کیا کردار ادا کررہے ہیں؟ عمر ایوب کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ان کے کردار سے واضح ہو رہا ہے کہ انہیں عمران خان کی رہائی سے کوئی غرض نہیں اس لئے وہ احتجاجی تحریک میں مؤثر کردار تو کیا کوئی کردار ادا ہی نہیں کررہے۔ اس لئے سیاسی حلقوں کو پارٹی اور پارلیمانی عہدوں میں ردوبدل کی توقع تھی۔
عمر ایوب نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے جو بات چیت کی اس میں حکمران جماعت پر الزام لگا دیا کہ وہ تحریک انصاف اور فوج کے درمیان لڑائی کروانے میں مصروف ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ الزام کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا، اس سے قبل بھی اسی طرز کی الزام تراشی کی جاچکی ہے بلکہ 9 مئی واقعات کے بارے میں وثوق سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس میں مسلم لیگ ن کا ہاتھ کار فرما ہے۔ حالانکہ پی ٹی آئی راہنماؤں اور سرگرم کارکنوں نے خود ویڈیوز بنا کر وائرل کیں اور فوجی، ملکی تنصیبات اور نجی املاک پر حملوں کو اپنا کارنامہ قرار دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب 9 مئی واقعات کی تحقیقات اور جوڈیشل کمیشن بنانے کے مطالبات کئے جارہے ہیں اور اس طرح یہ واقعات بھی دیگر الزامات کی گرد میں اگر اب تک نہیں دبے تو بہت جلد دب جائیں گے۔ 9 مئی اور اس طرح کے دیگر واقعات کے بارے میں بھی کہا گیا کہ یہ ن لیگ یا دیگر مخالفین نے کروائے۔ جنرل باجوہ جو بلا شبہ عمران خان کے محسن ہیں، انہوں نے جب ان کی نااہل حکومت کا مزید ساتھ دینے سے گریز کیا تو ان پر دنیا جہاں کے الزامات لگائے گئے، فوجی سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دی گئی، موجودہ آرمی چیف پر عمران خان نے کئی بار اپنے اس قتل کے الزامات لگائے جو ابھی ہوا نہیں۔
اس سے قبل وزیر آباد میں عمران خان پر ہونے والے حملے کیلئے بھی اعلیٰ فوجی افسران پر بے بنیاد اور لغو الزامات لگائے گئے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران فوج اور اس کی قیادت کو شعلہ بیانیوں کا نشانہ بنایا گیا، فوجی قیادت کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلائے گئے حتیٰ کہ ہیلی کاپٹر حادثے میں اعلیٰ فوجی افسران کی شہادت تک کو نہیں بخشا گیا۔ ایسے حادثات پر دشمن بھی مروتاً افسوس کا اظہار کرتے ہیں مگر پی ٹی آئی قیادت نے شہید ہونے والوں کو بھی ہتک آمیز انداز میں یاد کیا۔ بیرون ملک بھی فوجی قیادت کو جھوٹے الزامات کے ذریعے بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
اب جبکہ عمر ایوب کی ملاقات کو پہلے اہم بنا دیا گیا اور پھر جب ملاقات ہوگئی اور عمر ایوب میں عمران خان کی روح حلول کر گئی تو انہوں نے مسلم لیگ ن پر پی ٹی آئی کے فوج کے ساتھ تعلقات خراب کرنے اور لڑائی کروانے کا الزام دھردیا۔ ان بچگانہ حرکات سے پی ٹی آئی یہ ثابت کررہی ہے کہ اس کی قیادت عقل و فہم اور شعور سے صریحاً عاری ہے اور مخالفین جب چاہیں ان سے کچھ بھی کروا سکتے ہیں۔
نجانے مسلم لیگ ن کے پاس ایسا کونسا دھتورا ہے یا بھنگ کے کون سے پکوڑے ہیں جسے پی ٹی آئی قیادت چکھتے ہی ہوش و حواس سے بیگانہ اور ہپناٹائز ہو جاتی ہے۔ اور حواس باختگی کے عالم میں وہ کچھ بھی کر گزرتی ہے جو اس کے مخالفین چاہتے ہیں۔ اگر اس پارٹی کی قیادت اتنی ہی کانوں کی کچھی ہے اور مخالفین جب چاہیں اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرلیتی ہے تو ایسی جماعت یا راہنماؤں کو ملک و قوم کی قیادت کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہئے جو کسی کی بھی اکسانے پر پھسل جاتی ہے اور جن کے پاس اپنی کوئی سوچ، اپنا کوئی دماغ ہے اور نہ ہی عقل و شعور موجود ہے۔
بانی پی ٹی آئی ہوں یا ان کے دیگر ساتھی، ان سب کو اپنی کارکردگی اور حرکات و سکنات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان لڑائی کروانے کے شوشے سے پارٹی قیادت کی سیاسی بصیرت، دانشمندی اور فہم و فراست کی نقاب کشائی ہوتی ہے۔ اس قسم کے احمقانہ بیانات اپنی سبکی کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا مزید الزامات سے اجتناب کرکے انہیں اپنی منجھی تلے ڈانگ پھیرنے کی ضرورت ہے۔ در حقیقت فوج کے ساتھ لڑائی بانی پی ٹی آئی اور ان کے ہمنواؤں نے ازخود مول لی ہے، اس کیلئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر زیادتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کی دانشور قیادت اس سازش سے آگاہ ہے تو اسے یہ خودساختہ لڑائی ختم کردینی چاہئے۔ حیرت ہے آپ کی بصیرت و بصارت پر کہ ن لیگ آپ کو فوج سے لڑا رہی ہے اور آپ دو سال سے لڑ رہے ہیں؟
وصال محمد خان