وصال محمد خان
ہفتہ 9 مارچ کوصدرمملکت کے انتخاب کیساتھ ہی ملک میں حکومت سازی اورانتقال اقتدارکاعمل پایہ تکمیل کوپہنچ چکاہے اس سے قبل چاروں صوبائی اوروفاقی حکومتوں کاقیام بھی عمل میں آچکاہے جوجمہوری روایات کاتسلسل ہے۔ جمہوریت جوکہ پرامن انتقال اقتدارکاایک بہترین طریقہ ہے اورجب سے دنیاجمہوریت سے آشناہوئی ہے تب سے اقتدارکی حصول کیلئے خون خرابے میں خاصی حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔ ورنہ اس سے قبل اقتدارکی حصول کیلئے باپ بیٹے کو، بھائی بھائی کواوربیٹے باپ کوقتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ آج بھی دنیا کے کچھ حصوں میں یہ ناروا عمل جاری ہے مگر متمدن دنیا کے بیشترحصے میں اسکی شدت میں خاصی حدتک کم ہوچکی ہے۔ وطن عزیزکی تاریخ چونکہ زیادہ پرانی نہیں جس خطے میں یہ ملک واقع ہے اس خطے میں بھی اقتدارکیلئے خونریزیاں ہوئی ہیں مگر خدا ک اشکرہے کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے یہاں اقتدارکیلئے خون خرابے سے اجتناب برتا گیا ہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کوقتل کردیا گیا مگریہ بظاہراقتدارکی لڑائی نہیں تھی اسی طرح ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کوبھی عدالت سے پھانسی کی سزادی گئی جسے حال ہی میں اسی عدالت عظمیٰ نے غیرقانونی قراردیا ہے اسی وزیراعظم کی بیٹی کوبھی ایک دہشت گرد تنظیم نے قتل کیااسی طرح ایک مارشل لاایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق بھی فضائی حادثے میں جان گنوابیٹھے ہیں یہ تمام واقعات حادثات ہی قراردئے جاسکتے ہیں کیونکہ ان میں کسی قاتل کونہ ہی اقتدارتک رسائی ملی اورنہ ہی کوئی ملک کا بادشاہ بنابلکہ کسی قاتل کی نشاندہی تک نہ ہوسکی۔ اقتدارکی لڑائیاں یہاں بھی عام سی بات ہے قیام پاکستان کے بعد25برس تک اقتدارکی لڑائیاں ہی ہوتی رہیں جن کے سبب آدھاملک گنوایا گیا مگر1973ء میں ملک کوجوآئین دیاگیااسکے بعد اقتدارکی لڑائیاں اگرچہ جاری ہیں مگریہ خون خرابے سے پاک ہیں۔ یہاں آج بھی سیاستدان شکست تسلیم کرنے پرتیارنہیں ہوتے اورہرالیکشن کے بعددھاندلی کاشورمچ جاتاہے مگراس شورشرابے میں خونریزی کاعمل دخل نہ ہونے کے برابرہے۔ جمہوریت اگرچہ یہاں نافذ ہو چکی ہے مگریہ ابھی اپنی اصل حالت سے خاصی دورہے اورخود کوجمہوریت کے چیمپئینزگرداننے والے کرتا دھرتاؤں میں صبروتحمل کی کمی ہے۔ آج بھی گزشتہ ماہ ہونے والے انتخابات کودھاندلی زدہ قراردیاجارہا ہے اورایک جماعت اسے اپنے مینڈیٹ پرڈاکہ قراردے رہی ہے مگریہ شوروغل میڈیا تک محدودہے اوراس میں حقیقت کاشائبہ تک موجود نہیں یہ شورشرابا محض سیاست چمکانے کاحربہ ہی قراردیاجارہا ہے جوجماعت دھاندلی کے الزامات لگارہی ہے اس نے ایک صوبے میں حکومت سازی کی ہے اوریہی جمہوریت کاحسن ہے کہ جس کوجہا ں عوام نے مینڈیٹ دیااسے وہاں کی حکومت مل گئی اب یہ جماعت چاہتی ہے کہ اسے پورے ملک پرحکومت کاحق دیا جائے جوممکن نہیں کیونکہ اسے دیگرصوبوں نے ایساکوئی حق تفویض نہیں کیا جوحق اسے عوام سے نہیں ملااسکی حصول کیلئے شورشراباکیاجارہاہے جسے باآسا نی نظراندازکیاجاسکتاہے کیونکہ اس جماعت کے شورشرابے کا مقصد خود کو سیاست میں زندہ رکھنے کے سواکچھ نہیں اگریہ جماعت درحقیقت انتخابات کودھاندلی زدہ سمجھتی توایک صوبے کی حکومت سازی کے عمل میں حصہ نہ لیتی یا پھراسکے منتخب ارکان استعفے دیکرپورے انتخابی عمل پرعدم اعتماد کرلیتے مگرایساکوئی قدم نہ لینے کامطلب یہی ہے کہ یہ جماعت بھی دل سے سمجھتی ہے کہ اسے عوام نے جومینڈیٹ دیا ہے اسکی سیاسی قوت اتنی ہی تھی مگراوپراوپرسے دھاندلی کا شورمچا کریہ خود کوعوام کی نظروں میں زندہ رکھنا چاہتی ہے تاکہ آئندہ جب بھی انتخابات منعقد ہوں اسے اقتدارحاصل ہوچونکہ یہاں سیاسی جماعتوں کے پاس صبروتحمل اوردانش وتدبرکی شدیدکمی ہے اوریہ قومی مسائل کی حل کیلئے کوئی واضح پروگرام نہیں رکھتی بلکہ الٹے سیدھے بیانات اورشورشرابے سے ووٹروں کومتاثرکرنے کارواج عام ہے اسلئے عین ممکن ہے کہ دھاندلی کایہ شوراگلے انتخابات تک جاری رہے جو جماعت اپنامینڈیٹ چوری ہونے کارونارورہی ہے پونے دوسال قبل اسی کی حکومت تھی مگراس نے عوامی مسائل کوپس پشت ڈال کرمقبول نعرے ایجادکرنے پرتوجہ مرکوزرکھی اسی طرح ایک صوبے میں اس جماعت کی دس سال تک حکومت رہی مگراب اسی کے وزیراعلیٰ کافرمان ہے کہ دس سال میں صوبے کیلئے کچھ نہیں کیاگیاجب اس جماعت نے چارسال میں وفاق اوردس سال تک ایک صوبے کیلئے کچھ نہیں کیاتو عوام کیونکراسے ووٹ دیکرمنتخب کرتی جھوٹے بیانیوں ،مقبول نعروں اورالزامات سے آپ ایک صوبے کے لوگوں کومتاثرکرسکتے تھے پورے ملک کے لوگ اس جھانسے میں آنے سے انکاری رہے اب جبکہ آپ خودتسلیم کررہے ہیں کہ دس سال تک ایک صوبے اورچارسال تک ملک کے سب سے بڑے صوبے سمیت وفاق میں آپکی کارکرکردگی صفررہی تواب جہاں کی حکومت ہاتھ آئی ہے وہاں کے عوام کی ایسی خدمت کی جائے ، ایسے کارہائے نمایاں انجام دئے جائیں جس سے متاثرہوکرپوراملک جھولیاں بھربھرکرآپکوووٹ دے اوراقتدارکی سنگھاسن تک پہنچادے لغواورفضول الزامات اورجھوٹے بیانیوں سے یہی کامیابی حاصل کی جاسکتی تھی جوحاصل ہوچکی ہے۔ملکی خراب معاشی حالات اور دگرگوں بین الاقوامی صورتحال کاتقاضاہے کہ جس جماعت کوجتنامینڈیٹ ملاہے اورجس نے جہاں حکومت سازی کی ہے وہ وہاں عوام کی خدمت اورملکی ترقی کیلئے اپنی صلاحیتیں بروئے لائے اور مسائل کے حل میں جتناہوسکے اپناکرداراداکرے ۔ملک میں حکومت سازی کاعمل مکمل ہوچکاہے اب انتخابی نعروں کوخیربادکہنے اورمسائل پرتوجہ دینے کامشکل مرحلہ درپیش ہے سیاسی جماعتیں اورقائدین انتخابی بخارسے نکلیں اورعملی کام پرتوجہ دیں جوحکومت سازی کاعمل مکمل ہونے کے بعدان کااصل کام ہے۔